گنے کے کسانوں کو راحت دور کی کوڑی

0

کے سی تیاگی/ بشن نیہوال

آخرکار طویل انتظار کے بعد ریاستی حکومت نے سال 2023-24 کے لیے گنے کی قیمت میں اضافے کا اعلان کردیا ہے۔ پیرائی سیزن کے کم از کم چار ماہ تک جاری رہنے کے بعد پریشان کسانوں اور کسان تنظیموں کو گنے کی قیمت میں اضافے کا بڑا بے صبری سے انتظار تھا،کسانوں کو امید تھی کہ اس سال لوک سبھا انتخابات کی وجہ سے حکومت گنے کی قیمت میں ضرور کوئی اضافہ کرے گی۔
وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی صدارت میں جمعرات کو ہوئی کابینہ کی میٹنگ میں حکومت نے گنے کی قیمت میں 20روپے فی کوئنٹل اضافے کو منظوری دے دی ہے۔ پیرائی سیزن2023-24 کے لیے گنے کی ابتدائی اقسام کے لیے گزشتہ سال کی 350روپے فی کوئنٹل قیمت کو بڑھا کر 370روپے فی کوئنٹل قیمت مقرر کر دی گئی ہے۔ جبکہ عام قسم کے لیے گزشتہ سال کی340روپے فی کوئنٹل کی قیمت کو بڑھا کر360روپے فی کوئنٹل کی قیمت طے کی گئی ہے۔ 20پیسے فی کلو کا یہ اضافہ طویل عرصہ سے انتظار کررہے کسانوں کے لیے بہت مایوس کن ہے۔پڑوسی ریاستوں کے مقابلے اترپردیش میں گنے کی مقررہ قیمت سب سے کم ہے۔ پڑوسی ریاست پنجاب میں جہاں یہ 392روپے فی کوئنٹل تو ہریانہ میں یہ386روپے فی کوئنٹل ہے۔
گنے کی پیداوار کے معاملے میں یوپی ملک کی دیگر تمام ریاستوں میں سرفہرست ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں گنے کے کل رقبہ کا51فیصد اور پیداوار کا 50فیصد اور چینی کی پیداوار کا 38فیصداتر پردیش میں ہوتا ہے۔ ہندوستان میں کل520شوگر ملوں میں 119اترپردیش میں ہیں۔ یوپی کی چینی صنعت تقریباً6.50لاکھ لوگوں کو براہ راست اور بالواسطہ روزگار فراہم کرتی ہے۔
اتر پردیش کے50لاکھ سے زیادہ کسانوں کی زندگیوں میں گنے کے ذریعہ سے مٹھاس آتی ہے۔ ریاست کے مغربی حصے میںگنا ملوں کی طرف سے ڈیڑھ سے دو سال کی تاخیر سے ادائیگی کرنے کے باوجود بھی گنے کو اہم نقد فصل کے طور پر اگایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اب ایتھنول کی پیداوار میں بھی ریاست دیگر ریاستوں سے آگے نکل چکی ہے۔ ریاست میں شوگر ملوں کے ذریعہ ایتھینول کی پیداوار میں بھی ریاست دیگر ریاستوں سے آگے نکل چکی ہے۔ ریاست میں شوگر ملوں کے ذریعہ ایتھینول کی پیداوار میں 8گنا تک اضافہ کیا گیا ہے۔ اس وقت ریاست میں 2 ارب لیٹر ایتھنول تیار ہو رہا ہے۔ اتر پردیش میں گنے کے رقبہ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ محکمہ کے اعداد و شمار کے مطابق ریاست میں گنے کے رقبہ میں سال بہ سال اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ ایک سال میں گنے کے زیر کاشت رقبہ میں92,052ہزار ہیکٹیئر کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی گنے کی پیداوار کا رقبہ اب 28.53لاکھ ہیکٹیئر ہو گیا ہے۔ اگر پیداوار کی بات کریں تو یوپی میں گنے کی اوسط پیداوار سال2016-17 میں72.38ٹن فی ہیکٹیئر تھی۔ سال2020-21 میں یہ بڑھ کر82.31ٹن فی ہیکٹیئر ہوگئی۔ اس سے تقریباً 9.93 ٹن فی ہیکٹیئر اضافی گنے کی پیداوار ہوئی ہے۔ پیرائی سیزن 2022-23 میں ریاست کی شوگر ملوں کے ذریعہ 1878.19لاکھ کوئنٹل گنے کی پیرائی کرتے ہوئے تقریباً103لاکھ ٹن چینی تیار کی گئی۔ ریاست میں گنے کی ریکارڈ پیداوار بڑھ رہی ہے تو ساتھ میں کاشت کی لاگت میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے، لیکن فصل کی قیمتوں میں اس تناسب سے اضافہ نہیں ہوا۔ 2020میں نیتی آیوگ کے ذریعہ پروفیسر رمیش چند کی سربراہی میں تشکیل کردہ ٹاسک فورس نے بڑھتے ایف آر پی کے سبب کسانوں کا گنے کی فصل کے تئیں جھکاؤ اور گنے کی بڑھتی ہوئی پیداوار کو اہم وجہ مانا تھا اور اپنی سفارش میں کسانوں کو کم گنا بونے کی سفارش کی تھی، تاہم کمیٹی نے رنگراجن کمیٹی کی سفارشات پر مبنی ریونیو شیئرنگ(RSF) فارمولے کو نافذ کرنے کا بھی مشورہ دیا تھا۔ رنگ راجن فارمولے کے مطابق گنے کی قیمت چینی کی پیداوار سے حاصل ہونے والے ریونیوکا70فیصد سے75فیصد(جس میں 5فیصد اضافی گنے سے حاصل ہونے والی دیگر مصنوعات)سے لنک ہونی چاہیے۔ جب کہRSF سے طے شدہ قیمت ہمیشہ ایف آر پی سے زیادہ ہوگی، اگر یہ قیمت ایف آر پی سے کم ہوجاتی ہے تو اس کی تلافی شوگرکین ڈیولپمنٹ فنڈ، شوگر ڈیولپمنٹ فنڈ(SDF) سے کی جائے گی۔ حکومت کے ذریعہ تشکیل دی گئی اس کمیٹی کی جانب سے مل مالکان کے مفاد میں دیے گئے مشورے تو مان لیے گئے، مگر کسانوں کے مفاد میں دیے گئے مشورے آج بھی نافذ ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔
اگر گزشتہ سالوں میں گنے کی قیمتوں میں اضافہ پر نظر ڈالیں تو اب تک سب سے زیادہ بی ایس پی سربراہ مایاوتی حکومت کے پانچ سال کے دوران 92فیصد اضافہ ہوا تھا، جس نے اپنے پانچ سالہ مدت کار میں گنے کی قیمت125روپے فی کوئنٹل سے بڑھا کر240روپے فی کوئنٹل کردی تھی۔ وہیں ایس پی سربراہ اکھلیش یادو کے پانچ سال میں دوبار میں کل 65روپے فی کوئنٹل اضافہ کے ساتھ گنے کی قیمت میں 27فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ اب اگر بی جے پی حکومت کی بات کریں تو گزشتہ 7سال سے صوبہ میں بی جے پی کی حکومت ہے، جس نے اپنے دورحکومت میں تین بار گنے کی قیمت میں اضافہ کیا ہے، اس سے پہلے2017 میں صرف10روپے فی کوئنٹل کا اضافہ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد2021میں 25روپے اور اب2024 میں20روپے فی کوئنٹل کا اضافہ کرنے کا اعلان کیا ہے جو کہ بڑھتے ہوئے کھاد، فرٹیلائزر اور دیگر اخراجات کے مقابلہ اونٹ کے منہ میں زیرہ ڈالنے کے مترادف ہے۔
کئی سالوں سے ہم نے دیکھا ہے کہ(ان پٹ) لاگت پیداوار کی مجموعی قدر میں اضافے کے مقابلہ میں زیادہ شرح سے بڑھ رہی ہے۔ پیداواری صلاحیت تقریباً رک گئی ہے۔ قیمت کی حمایت نے لاگت میں اضافے کے ساتھ تال میل نہیں رکھا ہے، یہ ایک مسئلہ ہے جس کا حل کیا جانا چاہیے۔ جنوری2017 میں ڈیژل کی قیمت63.35 روپے فی لیٹر تھی، جو جنوری2024میں90روپے سے تجاوز کر گئی ہے، یعنی تقریباً 43فیصد اضافہ۔ یوریا کی قیمت میں اضافے کے بجائے فی بوری وزن50کلو سے 45کلو کرتے ہوئے 40کلو کردیا گیا ہے،مطلب تقریباً20فیصد کا اضافہ۔(جاری)
(مضمون نگار کے سی تیاگی سابق ممبرپارلیمنٹ ہیں اوربشن نیہوال اکنامک تھنکر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS