مودی-2 کابینہ اور 17ویں لوک سبھا اپنی مدت پوری کرنے کے بعد آج صدارتی حکم کے ذریعہ تحلیل کردی گئی۔ امید ہے کہ امروز فردا میں 18ویں لوک سبھا باقاعدہ تشکیل پائے گی اورحلف برداری کے بعد نئی کابینہ اپنے وزیراعظم کی سربراہی میں کاروبار حکومت سنبھال لے گی۔ یہ نئی حکومت کیسی ہوگی، اس کے بارے میں قطعی رائے قائم کرنا فی الحال مشکل نظر آرہاہے،پھر بھی اس میں کوئی شک نہیں کہ سادہ اکثریت سے محروم رہ جانے کے باوجود بھارتیہ جنتاپارٹی لوک سبھا میں سب سے بڑی جماعت ہے اور یقین کی حدتک یہ امکان ہے کہ صدر جمہوریہ کی جانب سے حکومت سازی کاپہلا دعوت نامہ اسے ہی موصول ہونا ہے۔حکومت بنانے اور حکومت کرنے کو اپنی سیاست کا بنیادی ہدف بنانے والی بی جے پی کو اس نئی حکومت کیلئے قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) میں موجود اپنے اتحادیوں کی ضرورت پیش آئے گی۔این ڈی اے ارکان آندھرا پردیش میں چندرا بابو نائیڈو کی تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) اور بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کی جنتا دل(یونائیٹڈ) یا چراغ پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی وغیرہ کے ساتھ مل کر بی جے پی حکومت سازی کا جادوئی ہندسہ عبور کرکے 300 کی لکیر بھی پار کرلے گی۔
لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ بی جے پی پارلیمانی پارٹی اور یہ اتحادی جماعتیں نریندر مودی کی قیادت نیز امت شاہ اور ان کی ریاست گجرات سے درآمد کیے گئے طاقتور بیوروکریٹس کو قبول کرلیں گی ؟اور اگر قبول نہیں کریںگی تو کیا نریندر مودی اپنا رویہ تبدیل کرکے باہمی تعاون کے ذریعہ مخلوط حکومت کی قیادت پر راضی ہوجائیں گے۔یہ سوال اور شبہ اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ دس برسوں کی حکمرانی میں وزیراعظم نریندر مودی نے ایک آمر کی طرح حکومت کی ہے۔ صلاح مشورہ، افہام و تفہیم اور رفقائے کار کو اعتماد میں لیے بغیر کام کرنے کے عادی رہے ہیں۔ ان کے رفقائے کار کا کہنا ہے کہ نوٹ بندی، جی ایس ٹی، دفعہ370کے خاتمہ جیسے بڑے اہم ترین اور سیاسی فیصلوں میں بھی انہوں نے صلاح مشورہ کو ضروری نہیں سمجھا تھا۔ اس پس منظر میں دیکھاجائے تو اپنے فیصلوں کیلئے مخلوط حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینا وزیراعظم نریندر مودی کیلئے مشکل ثابت ہوگا۔ ویسے بھی کسی کیلئے ممکن نہیں ہے کہ وہ راتوں رات اپنا رویہ تبدیل کرلے اور باہمی مشاورت کے ذریعہ حکومت کی قیادت کرے۔اس لیے اس سوال کا جواب ضروری ہے کہ کیا تیسری حکومت میں نریندرمودی کا رویہ افہام و تفہیم کا ہوگا؟
اس سوال کا ایک لفظی جواب تو یہی ہوسکتا ہے کہ نہیں، کیوں کہ ہندوستان میں اس وقت جو منظرنامہ ہے اس میں اقتدار کے مرکز میں مودی اوران کے ساتھی ہیں۔اور یہی اس تبدیلی کیلئے کافی ہے جس کا ڈول مودی نے ڈال رکھا ہے۔ ہندوستان کی لبرل پالیسی کو ہندوتوسے بدلنا اور علیحدگی پسندی کو حقیقت کا جامہ پہناناجیسا کہ وہ گزشتہ 10برسوں سے کرتے آرہے ہیں۔کسانوں کی بے نظیر تحریک کے بعد زرعی قوانین کی واپسی کا استثنااگر صرف نظر کردیں تو تمام تر احتجاج اور مخالفت کے باوجود انہوں نے اپنا کوئی قدم پیچھے نہیںہٹایاہے۔ اپنی ’تپسیا‘ مکمل کرنے کے بعد کنیا کماری سے واپسی کے سفر میں ’ اگلی بار، اگلا نیا قدم‘ کا اعلان کیا،وہ بھی اسی جانب اشارہ کررہاہے کہ وہ ملک کو تبدیلیوں کی سان سے ضرور گزاریں گے۔
یہ درست ہے کہ کانگریس کے راہل گاندھی، سماج وادی پارٹی کے اکھلیش یادو اور ترنمول کانگریس کی مہوا موئترا جیسی لیڈروں نے اپنی انتخابی مہمات میں فسطائیت کے خطرے سے لوگوں کو آگاہ کیا جس کے نتیجہ میں حزب اختلاف کو کچھ زیادہ سیٹیں حاصل ہوئیں، ان کے ارکان کی تعداد بڑھی لیکن اس سے نریندر مودی کے منصوبوں، ان کے فیصلوں پر منفی اثر پڑے گا، ایسا نہیں لگتا۔فسطائیت کا وجود اس پر بالکل منحصر نہیں ہے کہ اس کے پاس کتنی نشستیں ہیں، اس کیلئے طاقت کا ہونا ضروری ہے۔
یہ سمجھنا عجلت پسندی ہوگی کہ اس نتیجہ سے یا تعداد کے کم ہونے کی وجہ سے نریندر مودی کے منصوبوں کے نافذ ہونے میں کوئی رکاوٹ آئے گی یا وہ تبدیلی کا تسلسل روک دیںگے، کیوں کہ زیادہ تر قوانین میںتبدیلی کیلئے سادہ اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کے پاس ہے۔مکمل آئین کی تبدیلی جیسے چند ایک اہم معاملہ میں ہی انہیں مخصوص دوتہائی اکثریت ضروردرکار ہوگی لیکن یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اس کوچہ میںوہ قدم نہیںرکھیں گے، سادہ اکثریت کے ساتھ ساتھ ان کے پاس بھاری خزانہ، ای ڈی،سی بی آئی جیسے ادارے اور پیگاسس جیسا سافٹ ویئر ہے جو مخالفین کی مشکیں کسنے میں کام آئے گا۔ملک کو فسطائیت سے بچانے اور تبدیلی کے زہریلے منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچنے سے روکنے کیلئے ابھی ملک کو اور انتظار کرنا پڑے گا۔بقول شاعر:
ابھی بیٹھے رہیں اس شمع رو کی انجمن والے
ابھی آوازۂ دریائے خاکستر نہیں آیا
[email protected]