ڈونالڈ ٹرمپ کی 2024 کے امریکی انتخابات میں جیت نے ایک نیا سیاسی موڑ لیا ہے جو نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔ جنوری 2025 میں جب وہ ریاستہائے متحدہ کے 48ویں صدر کے طور پر عہدہ سنبھالیں گے تو ان کی حکمرانی کے اثرات عالمی سطح پر محسوس ہوں گے۔ اس انتخابی معرکے میں ٹرمپ نے 279 الیکٹورل کالجز جیتے،جبکہ کملا ہیرس کو 224 کالجز ملے۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے دو دہائیوں بعد ایک مرتبہ پھر صدر بننے کا اعزاز حاصل کیا،اس سے پہلے 2001 سے 2009 تک جارج بش کو یہ اعزازحاصل تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت کے دوران دو بار مواخذے کا سامنا کرنے کے باوجود وہ ایک مضبوط سیاسی قوت بن کر ابھرے ہیں۔
ٹرمپ کی حالیہ کامیابی امریکی سیاست میں ایک نیا باب کھول رہی ہے،جو نہ صرف سیاسی بلکہ معاشی،ثقافتی اور نسلی سطح پر بھی نئی بحثوں کو جنم دے رہا ہے۔ خاص طور پر کملا ہیرس کی شکست نے امریکی جمہوریت کے مستقبل پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔ کملا ہیرس نہ صرف پہلی خاتون نائب صدر تھیں،بلکہ سیاہ فام اور جنوبی ایشیائی نسل سے تعلق رکھنے والی ایک اہم سیاسی شخصیت بھی تھیں۔ ان کی شکست نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ امریکی جمہوریت ایک نیا موڑ لے رہی ہے جس میں صنفی، نسلی اور ثقافتی شناختوں کے حوالے سے گہرے سوالات اٹھ رہے ہیں۔
آج کا امریکی معاشرہ جمہوریت کی حقیقت کے بارے میں ایک متنازع اور پیچیدہ بیانیہ پیش کر رہا ہے۔ بہت سے ٹرمپ کے حامیوں کا ماننا ہے کہ امریکی جمہوریت اتنی مضبوط ہے کہ اس پر کسی ایک شخصیت کا اثر نہیں پڑ سکتا،چاہے وہ اقتدار میں ہو یا نہ ہو۔ ان کیلئے جمہوریت کا نظریاتی پہلو اتنا اہم نہیں جتنا کہ روزمرہ کی زندگی کے مسائل،جیسے مہنگائی،بے روزگاری اور قومی شناخت۔ ان کے نزدیک جمہوریت کی اصل کامیابی ان کے ذاتی مفادات اور مسائل کے حل میں ہے، نہ کہ کسی نظریاتی بحث میں۔
دوسری طرف،ٹرمپ کا نعرہ ’’میک امریکہ گریٹ اگین‘‘ نہ صرف ایک سیاسی کیمپین ہے بلکہ ایک ایسے سماجی بیانیہ کی علامت بھی بن چکا ہے جو سفید فام اور عیسائی شناخت کو تحفظ دینے کی بات کرتا ہے۔ اس نعرے کے ذریعے وہ ایک ایسی ’’اصل‘‘ امریکہ کی واپسی کی بات کرتے ہیں جس میں نسلی اور ثقافتی تنوع کی جگہ نہیں ہے۔ کملا ہیرس اور ان کے حامی ایک مختلف امریکہ کے حامی ہیں،جہاں نسلی اور ثقافتی تنوع کو نہ صرف تسلیم کیا جائے بلکہ اس کی پذیرائی کی جائے۔
اس انتخابی معرکے کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ سیاہ فام اور لاطینی نسل کے ووٹروں کی کم حمایت نے ڈیموکریٹک پارٹی کیلئے ایک وارننگ کا کام کیا ہے۔ ان طبقات کے افراد کا خدشہ ہے کہ اگر امریکہ میں نسلی تنوع مزید بڑھتا ہے یا تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو ان کی ثقافتی شناخت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ یہ محض امریکہ کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی سطح پر قوم پرستی اور دائیں بازو کی سیاست کے بڑھتے ہوئے رجحانات کا حصہ بن چکا ہے جو گلوبلائزیشن کے خلاف ایک نیا محاذ کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ٹرمپ کی جیت کو بعض حلقوں میں عیسائیت کی فتح کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستان میں بی جے پی کی ہندوتو کی سیاست اور دیگر ممالک میں ثقافتی اور مذہبی شناختوں کا تحفظ کرنے کی کوششیں عالمی سطح پر قوم پرستی کی ایک بڑی تحریک کا حصہ بن چکی ہیں۔ یہ رجحانات نہ صرف سیاسی بلکہ مذہبی اور ثقافتی سوالات کو بھی اہمیت دے رہے ہیں،جو کہ عالمی سطح پر ایک نئی فکری جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
امریکہ میں آج تک کوئی خاتون صدر منتخب نہیں ہو سکی، اور کملا ہیرس کی شکست نے ایک اور سوال کو جنم دیا ہے کہ کیا امریکی معاشرے میں صنفی امتیاز اتنا گہرا ہے کہ ایک قابل خاتون کو اعلیٰ ترین قیادت تک رسائی حاصل نہیں ہوسکتی؟ یہ سوال صرف امریکہ تک محدود نہیں،بلکہ دنیا بھر میں صنفی سیاست اور خواتین کی قیادت کے حوالے سے ایک نیا منظرنامہ پیش کرتا ہے۔
اگر ہم اس صورتحال کو گہرائی سے دیکھیں تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جمہوریت کا بحران صرف سیاسی سطح تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں ثقافت،شناخت اور مذہب جیسے پیچیدہ سوالات بھی شامل ہیں۔ جمہوریت کی حفاظت صرف انتخابی نتائج تک محدود نہیں، بلکہ اس کی بقا کیلئے ضروری ہے کہ ہم اس کی حقیقت کو سمجھیں اور اس میں آنے والی گہری تبدیلیوں کو تسلیم کریں۔ دنیا بھر میں جمہوریت کے علمبردار اگر اپنی حکمت عملی میں تبدیلی نہ لائیں تو جمہوریت کو سنگین چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جمہوریت کا مستقبل صرف انتخابات کی جیت یا ہار سے نہیں جڑتا بلکہ اس کی حقیقت کو سمجھنا اور اس میں ہونے والی گہری تبدیلیوں کو تسلیم کرنا بھی ضروری ہے۔ بصورت دیگر،یہ بحران ایک بڑے مسئلے کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے جس کا حل صرف نئی حکمت عملیوں اور عوامی مسائل کے بہتر حل سے ممکن ہے۔