اردو اور ہندی بین لسانی حُسن کی آئینہ دار

0

عبدالسلام عاصم

عصری منظر نامے میں بالی ووڈ کو اردو سے مکمل طور پر پاک کرنے کی بظاہر ایک غیرمعلنہ مہم چل رہی ہے۔ یہ اردو سے نفرت نہیں بلکہ ہندی اور اردو میں محبت پیدا نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔یہاں یہ جان لینا ضروری ہے کہ محبت کسی کو بدل کر نہیں کی جاسکتی۔محبت کسی کو اُس کی اصل پہچان کے ساتھ قبول کر کے ہی کی جا سکتی ہے۔ اردو اور ہندی کو پورے ملک کیلئے قابل قبول ہندوستانی زبان بنانے کے تمام تر امکانات موجود تھے لیکن باہمی اکڑ، غیر دوراندیشی،نفسیاتی ضداور ایک دوسرے پرلسانی احساسِ برتری نے دونوں کے تعلق کا بیڑہ غرق کر دیا۔بعض زبانوں کے ساتھ ایک المیہ یہ پیش آتاہے کہ اس کے فروغ کا کارواں چلانے والے کم اور اُچکنے والے زیادہ فعال ہوا کرتے ہیں۔ ایسے عناصر نام نہاد مذہبی ٹھیکہ داروں سے کم جارح نہیں ہوتے۔ ان کی تسلط پسندانہ سرگرمیوں کی وجہ سے ہی لسانی اور مذہبی دوریاں پیدا ہوتی ہیں جو کہیں خارجی تو کہیں داخلی نقصان پہنچا دیتی ہیں۔ برصغیر میں اس کی نظیر پہلے سے موجود ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ 1980 کی دہائی میں جب اخبار سے قاری تک محدود میرے رشتے کا دائرہ پروف ریڈر اور پھر خبر نگار تک وسیع ہونا شروع ہوا تھا۔ اُس وقت اردو کے اخبارات و رسائل اورآکاش وانی کے اردو پروگرام کے علاوہ بی بی سی اور ریڈیو سیلون کی اردو نشریات سے لے کر ہندی سرٹیفکیٹ کے ساتھ دکھائی جانے والی بالی ووڈ کی فلموں تک ہر جگہ اردو ہی اردو جلوہ گر تھی۔ اخبارات میں اکثر اُن دنوں اردو فلموں کو ہندی سرٹیفکیٹ دینے کے خلاف احتجاجی مضامین ، خبریں اور مراسلے شائع ہوا کرتے تھے اور جواب میں حکومتوں کی خاموشی کا شکوہ کیا جاتا تھا۔ایسا نہیں کہ اردو سرٹیفکیٹ کے ساتھ فلمیں نہیں بنائی گئیں۔ ناصر حسین نے اپنی کئی فلموں کیلئے اردو سرٹیفکیٹ حاصل کیے۔ فلم محافظ، سرداری بیگم اور حامد کو بالترتیب1993،1996 اور 2012 میں قومی فلمی ایوارڈ بھی دیے گئے۔
عملاً ایک گرامر اور نظراً ایک دوسرے سے بولنے میں تھوڑی اور لکھنے میں یکسر مختلف اردو اور ہندی کے درمیان ’قربت کی ناقدری‘ کا واقعاتی سلسلہ دونوں کو ایک دوسرے کیلئے اجنبی تو نہیں بنا سکا لیکن ان کے درمیان تعلق کی فضا مسلسل کشیدہ ہوتی رہی۔ اس کے ذمہ داروہ سیاسی حالات تھے جن پر دونوں زبانوں کے معتدل حلقے قابو نہیں پاسکے تھے۔ اس کا افسوسناک نتیجہ یہ سامنے آیا کہ لسانی اعتبار سے عملاً انتہائی غیر اردو ماحول والے پاکستان میں اردو کو سرکاری زبان بنا دینے سے ہندوستان میں ہندی زبان بولنے والوں کے ایک حلقے میں اردو راتوں رات مسلمان بن گئی۔ دوسری طرف پاکستان میں ہندی اور بنگالی کو غیر مسلم زبان سمجھ کر قبول نہ کرنے کی ضد اتنی پروان چڑھی کہ مملکت برطانیہ داد دولخت ہوگیا۔ دونوں ملکوں کے میڈیا کا آزاد حلقہ ان واقعاتی سلسلوں کا دستاویزی گواہ ہے۔
اِدھر آزاد ہندوستان کے سیاسی حلقوں میں اردوجہاں معتوب زبان ٹھہری، وہیں عوامی ربط ضبط،معاملات، سیر و تفریح کے تقریباً ہر محاذ پر شمالی، مغربی اور مشرقی ہندوستان کے ساتھ ساتھ اپنے بعض جنوبی گڑھوں میں بھی اردو مسلمان ہونے کی بہ بانگ دہل نفی کرتی رہی۔ اگر بر صغیر مذہبی قوم پرستی کے جنون کا شکار نہیں ہوا ہوتا تو اردو آمیز ہندی اور ہندی آمیز اردو کا مشترکہ سفر ماضی کی ایک سے زیادہ فروگزاشتوں کا اب تک فطری طور پر ازالہ کر چکا ہوتا لیکن وائے بدنصیبی ایسا نہیں ہوسکا۔ اس میں کس کا قصور زیادہ ہے اور کس کا کم یہ طے کرنا اب لاحاصل ہے۔ دونوں زبانوں کے بیچ ربط کے باوجود بڑھتے ہوئے فاصلے کے دوران ہندی بولنے والوں کے ایک حلقے میںپنپنے والی یہ سوچ کبھی نمایاں اخباری سُرخی نہیں بن سکی کہ بالی ووڈ کی تقریباً تمام ہندی فلمیں کہانی کی مجموعی نفسیات، مکالمات اور نغمات کے ساتھ اردو کے گرد ہی کیوں گھومتی ہیں! اِس کے خلاف ہندی پڑھنے لکھنے والے احتجاج کیوں نہیں کرتے!! اس سوچ کی موجودگی اور اُس میں پیدا ہونے والی شدت کا اگر کبھی کسی نے راہ چلتے یا کسی موڑ پر نوٹس لیا بھی تو غیر دور اندیشی کے شورمیںاُسے کبھی اہمیت نہیں دی گئی ۔
قوموں کی تاریخ کے افسوسناک واقعات کی فہرست میں ایک واقعہ جو تقریباً ہر قوم کو پیش آنے والی ناگہانیوں کا سبب بنتا آیا ہے، وہ یہ ہے کہ عمومی طور پر زندگی کے مختلف شعبوں کی کمان اپنے ہاتھوں میں رکھنے والے بیشتر لوگ ’’آج‘‘ کے منظر نامے میں کسی خلل کا ممکنہ طور پر ’’کل‘‘ سامنے آنے والے انجام کی مطلق پروا نہیں کرتے ۔ دوسری طرف کچھ لوگ خواہ کسی بھی حلقے کے ہوں،وہ ہر ناپسند تبدیلی کا نوٹس لیتے رہتے ہیں اور ازالے کے رُخ پر اپنے طریقے سے سرگرمِ عمل رہتے ہیں۔حالات کے کسی موڑ پر جب ردعمل پسندقسم کے لوگ ایسی کوششیںاچک لیتے ہیں تو اُن کے لہجے میں طیش اور سوچ میں جارحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس سے ایک ایسے معاشرے میں جہاں لوگ جاننے سے زیادہ ماننے پر یقین رکھتے ہیں، عدم برداشت کو فروغ ملنے لگتا ہے اور جب تک وہ یہ احساس کر پاتے ہیں کہ اُن کا رُخ پھر اُنہی غاروں کی طرف ہے جہاں سے نکل کر وہ تمدن کی طرف بڑھے تھے، تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
ہرچند کہ کہا جاتا ہے کہ نفرت کا شکار ہوکر زبانیں مر جاتی ہیں، لیکن عملاً ایسا نہیں ہے۔ انگریزی، جرمن اور فرانسیسی زبانوں پربھی بعض زبان داں اِس طرح کا الزام لگا چکے ہیں لیکن وہ اسے ثابت نہیں کر پائے۔ البتہ یہ بات کسی دعوے کے بغیر ثابت ہے کہ کسی بھی زبان کا قتل کسی اور کے ہاتھوں نہیں ہوتابلکہ اُس زبان کے بولنے والوں کی بے بسی، بے حسی، رعونت اور کسی حد تک شرارت کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ کسی بھی زبان کی بقا اور ترقی کی ذمہ داری ہر چند کہ بنیادی طور پر اُس زبان کے بولنے والوں پر ہوتی ہے لیکن اُردو کا جہاں تک تعلق ہے تو اِسے جس رُخ پراشتراک باہمی کی ضرورت ہے اُدھر صرف ہندی نظر آتی ہے جس کی ’’ویاکرن‘‘ ہی اردو کی ’’قواعد‘‘ ہے۔رہ گئی ’’ شبد شاستر‘‘ اور’’ الفاظ‘‘ کی بات تو دونوں زبانوں میں تیسری اورچوتھی زبانوں کے الفاظ خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ ان دونوں زبانوں میں ایک رشتہ الفاظ و معانی کا بھی ہے۔میری نظر سے کبھی پرائمری کی ایک ہندی کی کتاب گزری تھی جس کے آخری حصے میں فرہنگ کی ایک جھلک مجھے اب تک یاد ہے جو کچھ یوں تھی۔ سوریہ:سورج، بھومی: زمین، جل: پانی، پُستک: کتاب، لیکھنی:قلم وغیرہ۔ یہ وہ بے نظیربین لسانی حُسن ہے جو اُنہیں نظر نہیں آتا جن کے ’’ نزدیک‘‘ کسی زبان کے بعض الفاظ سماعت پر بار ہوتے ہیں۔ دوسروں کو چونکانے یا بے ساختہ ہنسانے والے کچھ الفاظ ہر زبان میں ہوتے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ لوگ غلیظ قسم کی گالیوں سے تو اس قدر مانوس ہوجاتے ہیں کہ انہیں ہونٹوں پر حسبِ توفیق سجا لیتے ہیں لیکن کسی اور کی زبان کے کسی ایسے لفظ کا جو کسی طور عجیب لگ رہا ہو، تکلیف دہ حد تک مذاق اُڑانے میں ذرا دیر نہیں کرتے۔
یہ خرابی صرف اردو والوں کے کسی حلقے کی نہیں، ہندی بولنے والوں میں بھی کچھ غیر ذمہ دار قسم کے لوگ ایسی حرکتیں کر جاتے ہیں۔ آن ریکارڈثبوت کیلئے بالی ووڈ کی وہ فلمیں دیکھی جاسکتی ہیں جن میں پنجابیوں، پارسیوں،بنگالیوں اور جنوبی ہند کی زبانیں بولنے والوں سے ابھی کل تک کامیڈی کی ہی خدمات لی جاتی رہی ہیں۔ضروری نہیں کہ ایسا ہر مظاہرہ دل دُکھانے کیلئے ہی کیا گیا ہو لیکن اختلافی ماحول میں جھگڑا بڑھانے کیلئے اِن سب کو نظیر بنایا جاسکتا ہے۔
بین مذہبی اور بین لسانی نفرتوں کے خارجی نتائج بالترتیب1947 اور 1971 میں مرتب ہوتا دیکھنے کے بعد بھی اگر ہم لوگ گھریلو زندگی میںاُسی راستے پر چل رہے ہیں تو اسے افسوسناک ہی کہا جا سکتا۔ ہندی اور اردو دونوںمذہبی شناخت والی زبانیں ہرگز نہیں ہیں۔ دونوں ہندوستانی اصل رکھنے والی زبانیں ہیں اور جتنی ہم آہنگی ان دونوں میں ہے اتنی نہ تو جنوبی ہند کی زبانیں آپس میں مربوط ہیں اور نہ ہی یوروپی زبانیں اس طور سے ایک دوسرے کیلئے با آسانی ِ قابل ِتفہیم ہیں۔ اردو اور ہندی کے حوالے سے دُشینت کمار کے اس شعر سے مجھے قطعی اتفاق نہیں کہ:
ہمیں اک دوسرے کے پیار کی خوشبو نہیں آتی
تمہیں ہندی نہیں آتی مجھے اردو نہیں آتی
میں کسی نامعلوم شاعر کے اس شعر کا قائل ہوں کہ:
اُردو میں اورہندی میں فرق ہے تو اتنا
ہم خواب دیکھتے ہیں وہ دیکھتے ہیں سپنا
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS