گزشتہ روز پیش کیے جانے والے مرکزی بجٹ سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ مرکزی سرکار مکمل طور پر انتخابی موڈ میں آگئی ہے اور کئی مبصرین نے اس بجٹ کو عوامی اور انتخابی بجٹ قراردیا ہے اس سال کئی ریاستوں کے الیکشن ہونے ہیں اور اس کے فوراً بعد بی جے پی چاہتی ہے کہ عام انتخابات کے لیے کمر کس لی جائیں۔ اس مرتبہ بی جے پی کو کئی محاذ پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ایک باعمل پارٹی ہونے کی وجہ سے حکمراں محاذ کو اپنی کمیوں کا اندازہ ہے اور اپنی خامیوں پر قابو پانے اور غلطیوں کا ازالہ کرنے کے لیے بی جے پی کمر بستہ ہوگئی ہے۔ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا نے ملک میں جو ماحول پیدا کیا ہے وہ بھی بی جے پی کے لیے چیلنج پیدا کرنے والا ہوسکتا ہے۔
جنوبی ہندوستان میں بی جے پی کی پوزیشن اتنی اچھی نہیں ہے ۔ تلنگانہ ، کیرل، تامل ناڈو میں پارٹی کی پوزیشن بہت کمزور ہے۔ اگرچہ کرناٹک میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ مگر کرناٹک میں جو صورت حال ہے اس سے وہ اچھی طرح واقف ہیں۔ پارٹی کی اندرونی خلفشار ، کرپشن کے سنگین الزامات اور بھارت جوڑو یاترا سے کانگریس نے جو نئی طاقت حاصل کی ہے اس کا اثر بھی صاف دکھائی پڑ رہا ہے ۔ اگرچہ بی جے پی بھارت جوڑو یاترا اور دیگر اینٹی ان کمبنسی جذبات کو ختم کرنے کے لیے ماحول کو فرقہ وارانہ خطوط پر ابھارنے کی کوشش کررہی ہے۔ اگرچہ اس کا رویہ گزشتہ کئی سال سے جاری ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی سرکار کی کارکردگی کو لے کر عوام میں غصہ ہے۔ اس کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے بی جے پی کئی مواقع پر ایسے ایشوز اچھالنے کی کوشش کرتی ہے جو فرقہ وارانہ نوعیت کے ہوتے ہیں۔ ان میں حجا ب کا مسئلہ سب سے زیادہ اثرانداز ڈالنے والا ہے۔ اس کا اثر نہ صرف یہ کہ فرقہ وانہ ماحول پر پڑا۔ بلکہ مسلم لڑکیاں جو کہ حجاب پہن کر گھروں سے نکل اسکول جانے کے لیے تیار ہوگئی تھیںاور اعلیٰ تعلیم کے میدان میں بھی اپنے جھنڈے گار رہی تھیں۔ اس پروپیگنڈے سے اس کے حوصلے پست ہوئے ہیں۔ وہ خاندان جو کہ روایتی قسم کے ہیں اور اپنی لڑکیوں کو گھر سے نکلنے نہیں دیتے، حجاب کی وجہ سے ان کے گھروں کی خواتین بندھنوں میں رہ کر تعلیم حاصل کررہی تھیں۔
بہر حال ریاست میں بی جے پی کی کیا پوزیشن ہے اس کا اثر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کرناٹک جنوبی ہندوستان کی واحد ریاست ہے جہاںاس کی حکومت ہے اور اس کی پارٹی کی پوزیشن بھی کافی مستحکم ہے۔ کرناٹک کے سیاسی حالات کا دارو مدار بی جے پی مخالف اپوزیشن کی حکمت عملی پر بھی پڑ سکتا ہے۔ جنتا دل سیکولر اور کانگریس کس حد تک اپنے اختلافات کم کرکے متحد ہو کر الیکشن لڑتے ہیں۔ اس کا اثر بی جے پی کی کارکردگی پر پڑے گا۔ کرناٹک ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ، بالغ النظر اور بیدار عوام کی ریاست ہے۔ گزشتہ پانچ سال میں اور خاص طور پر جب سے بی جے پی کی موجودہ حکومت برسراقتدارآئی ہے اس کی کارکردگی کیا رہی ہے اس کا اثر یہاں کے عوام بہتر طریقے سے محسوس کرتے ہیں۔ اب اپوزیشن پارٹیاں بی جے پی کو کس حد تک کرپائے گی یہ وقت ہی بتائے گا۔
بی جے پی کے سامنے ایک بڑا چیلنج مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بھی ہے۔ ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی ایک مستحکم سیاسی طاقت ہے مگر مدھیہ پردیش میں پارٹی کی اندرونی خلفشار اور ناقص کارکردگی بی جے پی کے لیے پریشان کن ثابت ہوسکتی ہے۔ مدھیہ پردیش میں کانگریس جیوتی رادتیہ سندھیا کے جانے کے بعد کس حد تک اندرونی خلفشار اور تنظیمی کمزوریوں کو قابو کرپائے گی یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ کمل ناتھ اور دگوجے سنگھ وغیرہ کی قیادت میں اگرچہ پارٹی کے اندر انتشار کی خبریں کم آرہی ہے اور کمل ناتھ نے جس اعتماد کا اظہار کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ پچھلے الیکشن میں انہوںنے بی جے پی کی 15سال کے دور اقتدار کو ختم کرکے حکومت قائم کی تھی۔ مگر بی جے پی نے کانگریس میں سرجیکل اسٹرائک کرکے بی جے پی کو پھر اقتدار میں واپس لانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ مگر کئی حلقے یہ مانتے ہیں کہ موجودہ شیوراج سنگھ چوہان کے دوراقتدار میں سرکار کی کارکردگی حسب تو قع نہیں رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا اثر آئندہ انتخابات پر پڑے گا اور ہو سکتا ہے کہ اسمبلی انتخابات کے ساتھ ساتھ لوک سبھا انتخابات پر بھی اس کا اثر دکھائی دے۔
راجستھان میں اگرچہ گہلوت سرکار مستحکم اور بہتر کارکردگی پیش کرتی دکھائی دے رہی ہے مگر پارٹی کی اندرونی خلفشار کانگریس سرکار کے لیے مشکلات کا سبب بن سکتی ہے۔ کانگریس کے دو اہم لیڈروں میں رسہ کشی پارٹی کے اثرات اور وہ بھی اثرات ہر فورم میں دکھائی دیتی ہے بھارت جوڑو یاترا کے دوران جس طرح دونوں لیڈرو ں کے ٹکرائو کی خبریں قومی میڈیا میں آئی اس سے پارٹی کو خفت کا سامنا کرنا پڑا مگر پھر بھی کانگریس کے ورکروں کے جوش وخروش اندرونی خلفشار پر حاوی رہا۔
کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کا اختتام حساس ترین علاقہ کشمیر میں ہوا۔ اس کا بہت مثبت پیغام گیا۔ کشمیریوںکو احساس ہوا کہ ملک کے سیاسی ماحول میں اس کی اہمیت برقرار ہے۔ یاترا کے آخری دنوں میں کشمیریوں کے جوش وخروش نہ صرف کانگریس کو حوصلہ دینے والا ہے بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی کانگریس کی اس پہل کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ محبوبہ مفتی ، فارو ق عبداللہ، عمر عبداللہ وغیرہ کی یاترا میں موجودگی نے سیاسی ماحول کو بدل کر رکھ دیا۔ کئی حلقوں میں یہ خبریں گشت کررہی تھیں کہ مرکزی سرکار جلد ہی ریاست میں انتخابات کرا سکتی ہے۔ مگر بی جے پی کو لگتا ہے کہ یاترا کے بعد علاقہ میں جو ماحول پیدا ہواہے وہ اس کے لیے خوش آئند نہیں اور اب مرکز میں حکمراں جماعت اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرسکتی ہے ، خاص طور پر جب راہل گاندھی نے جموں وکشمیر کو ریاستی درجہ دینے کا مطالبہ دہرایا ہے، دونوں علاقوں کے عوام اپنے کھوتے ہوئے رتبہ سے ناراض ہیں اور ریاستی درجہ دینے سے ان کو حوصلہ ملے گا اب دیکھنا یہ ہے کہ ریاستی درجہ دینے کا مطالبہ کب پورا ہوتا ہے۔
rvr