زین شمسی
چتراترپاٹھی کے غازہ زدہ رخسار پر رونق تھی، اس نے کانگریس کے ایک ترجمان کی طرف ترچھی نگاہوں سے دیکھا اور لبوں پر جمے اپنے لاجواب سوال کو اطمینان بخش انداز سے ایسے داغا کہ اس سوال کے بعد وہ اپنے فرائض منصبی کا حق ادا کرے گی۔ جی20میں آئے دنیا بھر کے لیڈروں کے سامنے مودی جی کی شبیہ مضبوط ہوئی یا نہیں ہوئی جواب دیجیے۔دوسرے معنوں میں کہیں کہ اس سوال کا مقصد یہ تھا کہ مودی جی وشو گرو بن چکے ہیں یا نہیں یا پوری دنیا بھارت کے سامنے سربسجود ہوئی یا نہیں۔ کانگریس ترجمان کے لبوں پر بھی مسکراہٹ تھی اور اس مسکراہٹ کو دیکھ کر چترا کا چہرہ اور لہجہ تلخ ہونے لگا کیونکہ ترجمان نے پلٹ کر اس سے سیدھا سا سوال کر دیا کہ یہ جی20کانفرنس مودی کی شبیہ کو مضبوط بنانے کے لیے منعقد ہوئی تھی یا عالمی مسائل پر عالمی اتفاق رائے بنانے کے لیے۔مگر چترا ترپاٹھی ہوں یا میڈیا گینگ، انہیں اس بات سے اب کوئی فرق ہی نہیں پڑتا کہ ان کے کارناموں سے بھارت کی شبیہ کتنی خراب ہو چکی ہے، وہ تو اپنی ڈیوٹی کرتے ہیں اور اس ڈیوٹی کے عوض موٹی رقم لے لیتے ہیں۔انہیں اس بات کی شرم بھی محسوس نہیں ہوتی کہ جی20کانفرنس سے انہیں باہر چلے جانے کا فرمان ملتا ہے اور وہ باہر گلیارے میں کھڑے رہتے ہیں۔انہیں اس بات کی شرم محسوس نہیں ہوتی کہ ان کی وجہ سے عالمی میڈیا کو کسی طرح کا سوال کرنے کا موقع نہیںدیا گیا۔مگر کیا کریں انہیں اس بات پر جب شرم نہیں آتی کہ قومی میڈیا ہونے کے باوجود سوشل میڈیا کے صحافیان ان سے زیادہ سبسکرائبر کے مالک ہوگئے ہیں،وہ لوگ اب تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ عوام کو سچائی چاہیے اور خبروں پر اعتماد چاہیے۔ گودی میڈیا اب ترسیل و ابلاغ پر ایک کالا دھبہ بن کررہ گیا ہے۔پچاس ساٹھ چینلوں کے پاس ایک جیسے سوالات ہونا میڈیا کی آزادی کی پول کھو چکا ہے۔
خیر، جی20 اختتام پذیر ہوا۔ کچھ تو بارشوں نے رنگ میں بھنگ ڈالا اور کچھ دلی کی گلیوں کی سنسان راہوں میں جھگی جھونپڑیوں سے آنکھ بچاتے مودی جی کے اونچے اونچے چمکتے بینر نے یہ پیغام تو دے ہی دیا تھا کہ اس کانفرنس کے پس پشت کیا ہے۔ شروعات ہی انڈیا اور بھارت کو متنازع بنا کر کی گئی تھی۔ روس اور چین کی غیرحاضری بھی نوٹس میں رہی اوراسی دوران بائیڈن کو بھی سرکاری مہمان کا اعزاز ملا۔ بات اگر جی20 کانفرنس کے آئوٹ پٹ کی کی جائے تو عالمی رہنمائوں نے جس بات پر زور دیا، وہ اس سے قبل بھی کئی کانفرنس میں کہی جاچکی ہے۔ امن کا بول بالا ہو، بھائی چارگی بڑھے، استحصال سے بچا جائے، ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال نہ کیا جائے، آپس میں کاروباری رشتے بڑھیں، بھیدبھائو سے بچا جائے اور اسی طرح کے ترقی کے مواقع سب کو حاصل ہوں، جیسے موضوعات پر بحث ہوئی۔ چونکہ میڈیا کوالوداعی سیشن سے پہلے ہی دور رکھا گیا، اس لیے ہندوستان سے تو نہیں دوسرے دیش کا میڈیا بھی کسی سے سوال نہیں کرسکا۔ یہ کیوں ہوا، سیاسی اور خاص کر عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں۔ دوسرے دیش کے میڈیا کے سوالات ہی ایسے ہوتے ہیں کہ بڑا بڑا ایونٹ مینجمنٹ ناکام ہوجاتا ہے۔ ایک ہی سوال سب پر بھاری پڑجاتا ہے۔
مودی جی کی قیادت میں عالمی رہنمائوں نے گاندھی سمادھی کے نہ صرف درشن کیے بلکہ اس کے سامنے سب نے سر بھی جھکائے حتیٰ کہ مودی جی نے بھی؟ بہت سارے رہنمائوں نے وہاں اپنے اپنے نوٹس بھی لکھے اور گاندھی کی راہ پر چلنے والے ہندوستان کی تعریف کی۔ یہ منظر ان لوگوں کے لیے بہت گھبرا دینے والا تھا جو گوڈسے کو گاندھی سے اوپر کا مقام دیتے ہیں اور بھارت جیسے دیش میں گاندھی کی ہتک کو دیش بھکتی سمجھتے ہیں۔ مودی جی نے ایسے ہی لوگوں کے لیے یہ پیغام دیا ہے کہ گاندھی کے بغیر نہ ہندوستان آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ ہی دنیا بھارت کا احترام کرے گی۔ اسی لیے جب دنیا بھر میں مودی جی سیر کرتے ہیں، ان کی زبان پر گاندھی اور بودھ ہی رہتا ہے، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھارت کی عظمت بغیر گاندھی کے مکمل ہی نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی پارٹی اور ان کی پارٹی کے پیچھے کے لوگ گاندھی کو ٹارگیٹ کر کے ووٹ حاصل کرنا ایک فیشن سمجھ چکے ہیں۔ جی20کا یہ اجلاس ایک بار بھارت میں یہ پیغام دے گیا کہ بھارت گاندھی کی راہ پر ہی چلے گا اور اگر ایسا نہ ہوا تو کم از کم دنیا بھارت کے ساتھ نہیں چلے گی۔
جی20کی میزبانی پر آئے خرچ کی بات کریں تو اس اجلاس پر خوب پیسہ بہایا گیا۔2017میں جرمنی میں اس اجلاس کے انعقاد پر642کروڑ، 2018میں ارجنٹینا نے931کروڑ،2019میں جاپان نے 2660کروڑ اور بھارت نے 2023 میں 4100کروڑ روپے خرچ ڈالے۔ گویا اتنا بڑا خرچ کر کے بھارت نے یہ ظاہر کر دیا کہ وہ کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ اب اس بات پر بحث کرنے سے کوئی فائدہ نہیں کہ اتنے خرچ میں کیا کیا ہو سکتا تھا، لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ اتنا خرچ کرنے کے بعد بائیڈن ویتنام میں جا کر درس دے دیتے ہیں کہ بھارت میں غیر برابری اور ناانصافی پر روک لگانی چاہیے اور ملک میں امن قائم رکھنا چاہیے اور اردگان کہہ جاتے ہیں کہ بڑی بڑی باتیں ایک جگہ لیکن دنیا کے ہر کونے میں اسلامو فوبیا کا رواج چل نکلا ہے اور مسلمانوں کو ٹارگیٹ کیا جا رہا ہے، اس کے قرآن کریم کی بے حرمتی ہورہی ہے اور اسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔ گویا جی20 پر کنٹرول کے باوجود وہ باتیں سامنے آجاتی ہیں جس کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔
یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ انڈیا ہو یا بھارت یا ہندوستان بہت دنوں تک کسی ایک نظریہ کی حکمرانی قبول نہیں کرتا اور وہ بھی ایسا نظریہ جس میں بھارت کاکوئی انگ خوف محسوس کر رہا ہو، بھارت سب کا ہے اور سب کے لیے ہے۔ یہ بات جب تک سمجھ میں نہیں آئے گی تب تک کسی کی شبیہ اچھی نہیں بن پائے گی۔ خواہ چترا ترپاٹھی کی مسکراہٹ کتنی بھی دلفریب کیوں نہ ہو۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]