2014 میں وزیراعظم کے عہدہ جلیلہ پر فروکش ہونے والے نریندر مودی اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے ہر وہ کام کررہے ہیں جو تاریخ کا آمرپہلے پہل کرتا آیا ہے۔جھوٹ ، فریب، دھوکہ سے شروع ہونے والا ان کا دور اقتدارجمہوری اقدار اور روایتوں کے کھلواڑ سے گزرتا ہوا اس مقام پر پہنچ گیا ہے کہ اگر مزید پانچ برسوں تک کیلئے طول پکڑجائے تو ملک کو ایک ایسا آمر ملے گاجو اپنے تمام پیش روئوں سے بھی آگے نکل جائے۔گزشتہ دس برسوں کے مودی دورمیں جہاں دھیرے دھیرے کرکے اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی ہے، وہیں وزیراعظم مودی نے اپنی پارٹی بھارتیہ جنتاپارٹی کے اندر بھی ’تطہیر‘کا عمل اپناکر پارٹی کو ہر ایسے عنصر سے پاک کردیا ہے جو ان کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ بن سکتاتھا۔ نریندر مودی نے پارٹی کے اندر وہ ترکیب اپنائی ہے کہ ان کے مقابل کوئی دوسرا لیڈر بچا ہی نہیں ہے جو ان کے متوازی حیثیت کا حامل ہو۔ زیادہ عمر اور بڑھاپے کو وجہ بتاکر انہوں نے پہلے پارٹی سے اپنے سیاسی آقا اور مربی لال کرشن اڈوانی کو باہرکا راستہ دکھایا اوراس کے بعد مرلی منوہر جوشی، سمترا مہاجن اور بی جے پی کی پہلی صف کے تمام لیڈروں کے پر کترتے ہوئے انہیں ’ مارگ درشک منڈلی‘ کاخوبصورت نام دے دیا۔اس وقت سے لے کر اب تک پارٹی اور حکومت میں اپنی مکمل اتھارٹی قائم رکھنے کا عمل پوری رفتار سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔پارٹی میں دوسری صف کے وہ لیڈر جو مختلف وجوہات کی بناپر عوام میں مقبول یا بااثرہوسکتے تھے،ایک ایک کرکے ان سب کا سیاسی مستقبل ختم کردیا۔وزیرداخلہ امت شاہ کے استثنیٰ کو چھوڑ کرآج بھارتیہ جنتاپارٹی اور مرکز ی حکومت میں وزیراعظم مودی کے علاوہ کوئی دوسرا نام نظرنہیں آتا ہے۔جاری انتخابی موسم میں بھی ریلیوں اور جلسوں کے مقررین میں مودی ہی سب سے نمایاں ہیںاور بحیثیت پارٹی بی جے پی بھی ان کے قد کے سامنے بونی نظرآرہی ہے۔سارا انتخاب مودی کے نام پر ہورہاہے، بی جے پی غیر متعلق سی ہوگئی ہے، مودی جی ہی سب کچھ ہیں حتیٰ کہ ووٹروں کو پارٹی کی گارنٹی نہیں مل رہی ہے، انہیں مودی کی گارنٹی مل رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی اپنے ارد گرد کسی دوسرے لیڈر کا وجود برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ ان کی آرزو ہے کہ ان کا ہی فیصلہ حتمی ہواور باقی سب ان کی ہاں میں ہاں ملائیں اوران کے وفادار رہیں۔وہ اکیلا ہی پارٹی کا لیڈر رہنے اور ملک کا تاحیات لیڈر بننے کے خواہش مند ہیں۔ اپنی اسی خواہش کو تکمیل تک پہنچنانے کیلئے انہوں نے ایک ملک -ایک لیڈر جیسا نعرہ دیاہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہی ملک کے واحد لیڈر ہوں اور باقی سب ان کے وفادار کارکن ہوں، وہ افسر رہیںاور باقی سب ماتحت۔
انتہا درجہ کی یہ خوفناک آمرانہ ذہنیت ہے جس کا بھانڈابیچ چوراہے پر اروند کجریوال نے پھوڑا ہے۔انہوں نے مودی جی کی اس ذہنیت پر ڈالے گئے ’جمہوریت‘ اور ’ عوام دوستی‘ کاپردہ چاک کردیا ہے۔جیل سے عارضی رہائی کے بعد عام آدمی پارٹی کے سربراہ اوردہلی کے وزیراعلیٰ اروندکجریوال نے کہاہے کہ وہ (مودی جی)اقتدار میں واپسی کیلئے تمام مخالف قوتوں کو ختم کرنے کے درپہ ہیں۔ان مخالف قوتوں میں اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ ساتھ ان کے وہ اپنے بھی ہیں جن کا قدوہ بڑھتے ہوئے نہیں چاہتے ہیں۔ اروند کجریوال کا کہنا ہے کہ جس طرح مختلف ریاستوں میں اپوزیشن کے ایم ایل اے کو خرید کر عوام کا ووٹ حاصل کیے بغیر اپوزیشن کو کمزور کیا گیا ہے، تاکہ لوک سبھا انتخابات میں اپوزیشن سیدھا کھڑا نہ ہوسکے، اسی طرح اپوزیشن لیڈروں کے خلاف ای ڈی، سی بی آئی اور انکم ٹیکس کا استعمال کرکے انہیں ہراساں کیاجارہاہے یا جیل میں ڈال دیا گیا۔ اگر لوک سبھا انتخابات کے بعد کسی طرح مودی اقتدار میں واپس آجاتے ہیں تو ملک کا کوئی بھی اپوزیشن چیف منسٹر جیل سے باہر نہیں ہوگا۔ تیجسوی یادو، ادھو ٹھاکرے جیسے اپوزیشن لیڈروں کو بھی سیاسی میدان سے ہٹا دیا جائے گا اور ایک ملک ایک لیڈر کا نظریہ قائم کیا جائے گا۔
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ نریندر مودی جنہوں نے قیادت کی عمر75سال مقرر کرکے دائیں بازوکے مردآہن کہے جانے لال کرشن اڈوانی جیسے لیڈروں کو بھی پارٹی کے کوڑے دان میں پھینک دیا وہ خود اگلے سال ستمبر کے مہینہ میں75سال کے ہورہے ہیں۔ اگر اس عام انتخاب میں وہ جیت بھی گئے تو اپنے ہی بنائے گئے اصول کے مطابق ان کیلئے وزیراعظم بنارہنا ممکن نہیں ہوگا۔اس کے باوجود اگر ووٹروں کو مودی کی گارنٹی دی جارہی ہے تو یہ سمجھاجاسکتا ہے کہ جمہوریت کا مقبرہ بنا کر وہاں آمریت کا پرچم لہرایا جائے گا۔کیوں کہ آمریت وہ طرز حکومت ہے جس میں ایک شخص سارے اختیارات کا مرکز و محور بن کر مطلق العنان بن جاتا ہے۔لکھا ہوا آئین تو غیر متعلق ٹھہرتا ہے وہ اپنا ہی وضع کیا ہوا اصول وہ اپنے سوا سب پر نافذ کرتا ہے۔اظہار رائے تو بڑی چیز ہے،ظلم و ستم پر آہ کرنے والے بھی دار پر کھینچ لیے جاتے ہیں۔ اگر ان حالات سے بچنا ہے تو پھرووٹروں کو بقیہ تین مرحلوں میں مکمل شعور و بیداری کا ثبوت دینا ہوگا۔
[email protected]