قیصر محمود عراقی
واقعہ کربلا ہر سال جس عظیم مقصد کیلئے دی گئی شہادت کی یاد دلانے آتا ہے، اسی مقصد کو کسی بھی جگہ یاد نہیں دلایا جاتا۔ یکم محرم سے ہی سڑکوں ، محلوںاور گلی کوچوںگویا ہر طرف ماتم کا سما بندھ جاتا ہے لیکن افسوس کے کسی بھی جگہ حضرت امام حسینؓکے مقصدشہادت کی بات نہیں دہرائی جاتی۔ محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی اس واقعہ پر ہم چند دن خوب ماتم کرکے اور یا حسینؓ یاحسینؓ کا نعرہ لگاکر یہ اطمینان کرلیتے ہیں کہ ہم نے حضرت امام حسینؓسے وابستگی کا حق ادا کردیا ہے، لیکن حقیقت میں ہم ایسا نہیں کررہے ہوتے۔ اسلامی تاریخ کا ہر واقعہ اپنے اندر عبرت وموعظت کا بے پنا ہ سامان رکھتا ہے اور عملی زندگی میں اس سے بہت کچھ رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ کسی بھی تاریخی واقعہ سے عملی رہنمائی حاصل کرنے پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے جبکہ زندہ قومیںماضی سے روشنی حاصل کرکے مستقبل کو تابناک بنانے کیلئے کوشاں رہتی ہیں۔
واقعہ کربلا کا اگر مطالعہ کیا جائے اور شہادت امام حسینؓکی شہادت کی مقصد کو سمجھا جائے تو امت مسلمہ اور ایک مومن کیلئے ان کے شہادت میں سے بے شمار ایسے پیغامات ملتے ہیں جن کے ذریعے امت مسلمہ اور ایک مومن کی عملی زندگی کی بہترین رہنمائی ہوسکتی ہے، جس کو اپنا کر امت مسلمہ اور ایک مومن اپنی زندگی اور معاشرے کو سنوار سکتے ہیں۔
حضرت امام حسینؓکی شہادت کا امت مسلمہ کو سب سے بنیادی پیغام یہ ہے کہ انسان کو حق اور دین حق سے اس درجہ عشق ہونا چاہئے کہ وہ حق کیلئے جان قربان کرنے سے بھی گریز نہ کرے۔ حضرت امام حسینؓکی شہادت سے دوسرا بڑا اور اہم پیغام امت مسلمہ کو یہ ملتا ہے کہ ایک مسلمان مومن کو مشکل سے مشکل حالات میں بھی حق پر ڈٹے رہنا چاہئے ، کیسے بھی حالات ہوں اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے، باطل کے خوف سے ایمان کو کمزور نہیں کرنا چاہئے۔ حضرت امام حسینؓکی شہادت سے تیسرا اہم پیغام ہمیں یہ ملتا ہے کہ مومن کو مخالفانہ ماحول سے کبھی متاثر نہیں ہونا چاہئے، حضرت امام حسینؓکی شہادت کا ایک پیغام یہ ہے کہ مومن کو حق کی دفاع کیلئے ظاہری اسباب پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ علم بردانِ حق کبھی ظاہری اسباب ، تعداد اسلحہ سے مرعوب نہیں ہوئے ، واقعہ کربلا سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ مصیبت ہو یا خوشحالی ہر حال میں مومن احکام الہیٰ کا پابند ہوتا ہے ، عین حالت جنگ میں بھی امام حسینؓاور ان کے اہل واعیال نے نماز ترک نہیں کی۔
حضرت امام حسینؓکی شہادت اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس کسی کو بھی تاریخ میں بلند مقام عطا فرمایا اسے پہلے آزمائش میں مبتلا کیا ، ایمان کے ساتھ امتحان ضرور ہوتا ہے، اہل ایمان کی زندگی آسان نہیں ہوتی، آزمائشوں پر پورا اتر نے والے لوگ ہی عظیم ہوتے ہیں، اس لئے اہل ایمان کو آزمائشوں سے گھبرانا نہیں چاہئے یہ ان کے لئے بلند درجات کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ واقعہ کربلا صرف ایک واقعہ نہیں ہے یہ حریت ، خودداری ، شعور ، جرأت ، شجاعت، ایثار وقربانی کی ایک ایسی عظیم داستان ہے جو قیامت تک لکھی ، پڑھی اور دہرائی جائیگی۔
موت سب کو آنی ہے ، امام حسینؓاگر کربلا میں شہید ہوئے تو موت سے یزید بھی نہ بچ پایا، حسینؓکی جنگی ناکامی اور شہادت کا نتیجہ دیکھیں، عام طور پر فاتح کا بول بالا ہوتا ہے، اس کی عظمت کا جھنڈا بلند ہوتا ہے اور مفتوح کا کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہوتا لیکن امام حسینؓکی یہ کیسی شاندار شکست تھی کہ ان کے لئے ہمیشہ کی محبت ، عقیدت اور سرفرازی کا سبب بنی اور یزید کی یہ کیسی بے توقیر فتح تھی جو اس کے لئے ہمیشہ کی ذلت ورسوائی کا سبب ہوئی ۔
آج کے جدید تعلیم یافتہ دنیا میں بھی جو عورتیں قیدی بنالی جائیں،کوئی ان کا نام لینا پسند نہیں کرتا، لیکن اہل بیعت کی جن خواتین کے سروں سے دوپٹہ اتارا گیا انہیں پوری امت نے اپنے سر پر بٹھایا ہوا ہے۔ ان کا نام لینا ، ان سے تعلق جوڑنا عزت کا سبب سمجھا جاتا ہے، جن خواتین کو یزید اور اس کے حواریوں نے بے عزت کرنے کا کام کیا تھا تمام عزتوں کی وہ حق دار قرار پائیں، بلا شبہ بڑے کام کرنے والوں کیلئے رائج پیمانے تبدیل ہوجاتے ہیں۔ امام حسینؓ سب کی طرح دنیا سے رخصت ہوجاتے تو وہ صرف ایک ذکر ہوتے لیکن کربلا نے انہیں عظمت کی بلندیوں پر پہنچادیا اور ان کے ذکر کو مسلمانوں کی زندگیوں میں شامل کردیا۔ امام حسینؓکو دنیا کیلئے معیارِ حق بنادیا، یہی وجہ ہے کہ آج صرف مسلمان ہی نہیں دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی امام حسینؓکے نام کو حق پر مر مٹنے والے کی مثال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
اگر آج کے اور سن ۶۰ھجری کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا جائزہ لیں تو ہمیں اپنا کردار کوفیوں والا دکھائی دیتا ہے جو یہ تو جانتے تھے کہ سیدنا حسینؓحق پر ہیں ، خالص اللہ کی رضا اور اسلامی نظام کی بقا کیلئے کھڑے ہوئے ہیں لیکن وہ سیدناحسینؓکے ساتھ کھڑے نہ ہوئے حتیٰ کہ اپنے گھروں کے دروازے بند کرکے بیٹھ گئے۔ آج ہم بھی اپنے حالات میں یہ بخوبی جانتے ہیں کہ کون حسینی کردار کا حامل اور کون یزیدی۔۔۔لیکن ہم بھی اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کیلئے اپنے گھروں کے دروازے بند کئے بیٹھے اور اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونسے بیٹھے ہیں۔ کربلا در حقیقت اسلامی نظام کی بقا کیلئے تھا وہ نظام جو اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺکے ذریعہ مسلمانوں کو دیا تھاکہ وہ اسے زمین پر نافذکریں، جس کے لئے نبی کریم ﷺنے نبوت کی ۲۳سالہ زندگی میں جدوجہد کی ، جس نظام کو قائم رکھنے کیلئے سیدنا ابوبکرؓنے مانعین زکوۃ سے جنگ کا اعلان کیا ، جس نظام کو دنیا کے کونے کونے تک پھیلا نے میں سیدنا عمر فاروقؓ نے اپنی تمام تر توانائی صرف کی ، جس نظام کی بقا کیلئے سید نا عثمان ؓ اور سیدنا علیؓجام شہادت نوش فرمایا، سیدنا حسینؓاسی نظام کی حفاظت کے لئے کھڑے ہوئے تھے لیکن ان کا ساتھ دینے والے بہت کم تھے۔ اس وقت سے آج تک اس نظام کی نفاذ کیلئے جدوجہد ہورہی ہے لیکن عوام بھی اپنی روش کے مطابق کوفیوں کا کردار اداکررنے میں مصروف ہیں۔ خیر کی طرف بلانے والے کی پکار کو نظرانداز کردیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ رحمان کے بندوں سے دوری اور شیطان کے پجاریوں سے یاری کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ واقعہ کربلا کو صرف دس محرم تک محدود کرنے اور کوفیوں والا کردار اپنانے کے بجائے اس واقعہ کے اصل مقصد کی طرف توجہ دینی چاہئے، اس نظام کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے ، جو سن ۶۰ھجری سے بعد سے آج تک قائم نہ ہوسکا۔ سید نا حسینؓکی زندگی اور واقعہ کربلا ہمیں یہ سبق بھی دیتا ہے کہ اصل یہ نہیں کہ کتنے عرصہ زندہ رہتے ہیںاصل یہ ہے کہ ہم کیسے زندگی گزارتے ہیں۔لیکن امت مسلمہ میں جتنے انتشار اور مسائل ہیں وہ امام حسینؓکی شہادت کے مقصد کو بھلانے کی وجہ سے ہے۔ لہذا ہم سب کو حضرت امام حسینؓکی شہادت کے مقصد کو سمجھنا ہوگا اور صرف محرم ہی میں نہیں بلکہ ہمیشہ ان کی یادوں کو اپنے دلوں میں تازہ رکھنے کی ضرورت ہے۔
خودداری ، جرأت اور ایثار و قربانی کی عظیم داستان: قیصر محمود عراقی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS