پروفیسر اسلم جمشید پوری
جی ہاں! مہاراشٹر کی سیاست میں آج کل اتنے پیچ ہیں کہ آپ کو سمجھ میں نہیں آئیں گے،اسی لیے اسے اکھاڑہ کہا جا رہا ہے۔ کانگریس، این سی پی(پوار)، این سی پی(اجیت)، شیوسینا (شندے)، شیوسینا(ادھو ٹھاکرے)، بی جے پی اور کئی پارٹیاں مہاراشٹر کی سیاست میں سر گرم ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہاں20نومبر کو اسمبلی الیکشن کی تیاری ہے۔یہاں سیاست کی زلفوں میں اتنے پیچ و خم ہیں، جن کو سنوارنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ابھی اس ریاست پر شیوسینا، شندے گروپ کی حکومت ہے۔آپ سب جانتے ہیں یہ سرکار کیسے بنی ہے؟دراصل بی جے پی کی یہی حکمت عملی رہی ہے کہ وہ اپنی مخالف سرکار اور پارٹی کو توڑ کر اور سر کار گرا کر ہی دم لیتی ہے۔اب نئی سرکار کی تشکیل میں اس کا کردار ہو یا نہ ہو۔وہ یہیں نہیں رکتی بلکہ نئی سرکار کو بھی عدم استحکام میں لاکر اپنی سرکار بنانے کی کوشش کرتی ہے۔یہی انہوں نے بنگال میں کیا لیکن بنگال کے عوام نے بی جے پی کے ہر حر بے کو مسترد کردیا۔بی جے پی کی چال وہاں الٹی پڑگئی۔ایسا ہی بی جے پی نے دہلی میں کیا،مگر افسوس عام آدمی پارٹی کو وہ توڑ نہیں پائی۔جبکہ دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال کے علاوہ کئی وزیر،ایم پی،ایم ایل اے اور پارٹی لیڈران کو جیل بھجوادیا۔لیکن بی جے پی ان تمام کوششوں کے باوجود عام آدمی پارٹی کے اتحاد میں شگاف تک نہیں ڈال پائی۔
مہاراشٹر کی بات ذرا مختلف ہے۔یہاں اچھی خاصی شیوسینا کی حکومت تھی اور حکومت بھی اکثریت والی تھی۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔مسلمان بھی شیو سینا میں شامل تھے بلکہ بعض تو اہم سرکاری عہدوں پر بھی تھے۔ریاست میں امن و امان تھا۔یہ وہی شیو سینا تھی جو مسلمانوں سے دوری بنا کر رکھتی تھی۔پارٹی کے بانی سربراہ بالا صاحب ٹھاکرے کٹر ہندو وادی تھے۔ان کی بی جے پی کے ساتھ خوب چھنتی تھی۔ شیوسینا اور بی جے پی کا اتحاد کئی بار بنا اور ٹوٹا۔بالاصاحب کے انتقال کے بعد بی جے پی کو لگا ادھو ٹھاکرے کو سیاسی اٹھا پٹخ میں مہارت نہیں،اس کا فائدہ اٹھا یا جائے۔بی جے پی اور شیو سینا کا اتحاد ٹوٹ گیا۔ادھو ٹھاکرے نے این سی پی اور کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔مسلمانوں کے تئیں اپنے نظریے میں بھی نرمی لانا شروع کیا۔بس پھر کیا تھا مہاراشٹر میں ایک ایسی سرکار بنی جو سب کی سرکار تھی، مہاراشٹریوں کی سرکار تھی۔ریاست کا چہار طرفہ فروغ ہونے لگا۔بی جے پی شیو سینا کی سب سے بڑی دشمن بن گئی اور سرکار گرانے کا موقع تلاش کرنے لگی۔آخر کار 2022 میں بی جے پی اپنی چالوں میں کامیاب ہوئی۔شیو سینا کے اندر شگاف پڑگیا۔شندے نے ادھو ٹھا کر ے کے خلاف بغاوت کردی،سرکار گر گئی۔ شیو سینا،شندے گروپ نے بی جے پی کے ساتھ مل کر سر کار بنائی۔کمال تو جب ہو گیا،جب این سی پی بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی۔وہاں بھی این سی پی (اجیت) گروپ نے سرکار کی حمایت کی۔ اجیت پوار کو نائب وزیراعلیٰ بنایا گیا۔نئی سر کار تو بن گئی مگر سب کچھ ٹھیک نہیں تھا۔بی جے پی نے شیو سینا،این سی پی کو بھی اپنا دشمن بنا لیا،کانگریس پہلے ہی دشمن تھی۔
2024 کے لوک سبھا الیکشن کے بعد منظر نامہ بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔کانگریس بی جے پی پر حاوی ہے۔یہ بھی صحیح ہے کہ2024 کے لوک سبھا الیکشن کے بعد مودی جی کی سر کار بنی ہے،مگر اس بار حزب اختلاف بہت مضبوط اور متحد ہے۔بی جے پی کو سرکار چلانا اتنا آسان نہیں ہے۔لوک سبھا انتخابات میں مہاراشٹر میں بھی بی جے پی کو خاطرخواہ کامیابی نہیں ملی ہے۔اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کو بڑی کامیابی ملی،جس سے ’انڈیا‘ کے حوصلے بلند اور این ڈی اے کی ہمت پست ہوتی جارہی ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں مہاراشٹر میں اچھا مظاہرہ نہ کرنے کے لیے سب ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہر ا رہے ہیں۔ساتھ ہی ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔بی جے پی کی ہر چال الٹی پڑتی جا رہی ہے۔شیوسینا، شندے گروپ اور این سی پی اجیت پوار گروپ میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔اسمبلی انتخابات سے قبل این ڈی اے میں بغاوت نظر آرہی ہے۔ان پارٹیوں کے لیڈران انہیں چھوڑ کر دوسری جماعتوں میں شامل ہو رہے ہیں۔
دراصل یہ این سی پی شرد پوار گروپ اور شیوسینا ادھو ٹھاکرے گروپ کے ساتھ یقین و اعتماد کے خون جیسا ہے۔ ایک وقت تو ایسا لگا کہ شرد پوار گروپ کا وجود خطرے میں ہے اور ختم ہونے کو ہے مگر شرد پوار،جنہوں نے اپنی ساری زندگی سیاست میں گزاری،اس بڑے جھٹکے کو جھیل گئے اور اب سب کچھ ان کے مطابق ٹھیک ہوگیا ہے۔ادھو ٹھا کرے کا درد تو وہی جان سکتا ہے جو ان کے بے حد قریب ہو۔ایک آدمی جو ریاست کا حکمراں ہو،راتوں رات اس کی حکومت کا چھن جانا،بہت درد ناک ہے۔ادھو زندگی میں اپنے ہر دشمن کو معاف کرسکتے ہیں مگر بی جے پی اور شیو سینا شندے گروپ کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ لوک سبھا الیکشن میںملی کامیابی نے ادھو ٹھاکرے کے حوصلے کو نئی پرواز دی ہے۔ ان کا درد اور غصہ لوک سبھا انتخابات میں ان کی تقریر میں جھلکتا ہے۔یہ ان کی خوش نصیبی ہے یا ان کے ذریعے کیے گئے کاموں کا پھل کہ آج ریاست کے عوام ان کے ساتھ ہیں،مہاراشٹرین بھی اور غیر مہا راشٹرین بھی۔
مہاراشٹر میں انتخابات کا بگل بہت پہلے ہی بج جانا چاہیے تھا،مگر بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں کو خوف تھا کہ ابھی الیکشن ہوئے تو این ڈی اے کی بری طرح ہار ہوگی۔انڈیا اور این ڈی اے آمنے سامنے ہوں گے اور این ڈی اے بر ی طرح شکست کھائے گا۔این ڈی اے میں مچی بھگدڑ نے واضح اشارے دے دیے ہیں کہ این ڈی اے بری طرح ہارے گا۔
غریبی میں آٹا گیلا کے مصداق شیو سینا شندے گروپ سے کچھ ایسی غلطیاں سر زد ہو رہی ہیں جو آنے والے الیکشن میں عوام کے غصے کا سبب بن سکتی ہیں۔حال ہی میں ریاست میں شیوا جی مہاراج کے مجسمے کا منہدم ہونا،عوام کے بے حد غصے کا سبب بنا۔پوری ریاست میں بھونچال آگیا۔ہر طرف غم و غصے کی اتنی شدید لہر اٹھی کہ اس نے ایوان حکومت کو متزلزل کر دیا۔وزیراعظم کی معافی نے بھی عوام کے غم و غصے کی آگ کو سرد نہیں کیا۔ابھی عوام غصے میں ہیں۔دراصل مہاراشٹر کے عوام سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں مگر شیوا جی مہاراج کی بے حر متی بالکل بر داشت نہیں کرسکتے۔
288 ممبران والی اسمبلی کے انتخاب کے دن قریب آگئے ہیں۔ابھی بھی بی جے پی ہائی کمان کو کانگریس،این سی پی ( شرد پوار) اورشیو سینا ( ادھو ٹھاکرے )گروپ میں انتشار کا انتظار ہے،تاکہ وہ کھل کر کھیل سکے۔مگر ایسے آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے۔مگر ان لوگوں کا کیا بھروسہ ؟ یہ حکومت پانے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں اور کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ کانگریس،این سی پی( شرد پوار) اورشیو سینا (ادھو ٹھاکرے )گروپ یعنی انڈیا کو ہر طرح سے ہو شیار رہنا ہو گا۔ایسے امیدوار اتارنے ہوں گے جن کی عوام میں امیج اچھی ہو اور جن میں تعصب نہ ہو اور جن پر غبن کا الزام نہ ہو۔
ویسے کانگریس ایک ایک اسٹیٹ کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اور ریاست میں ’انڈیا‘ اتحاد کا بہت خیال رکھ رہی ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘نے بہت زور لگایا مگر این ڈی اے کی تیسری بار سرکار بننے سے نہیں روک پایا۔مرکزی سرکار کو شکست دینے کا دوسرا طریقہ ریاستی اسمبلی انتخاب میں شکست دینا ہے۔یہ دیوانے کا خواب نہیںبلکہ ایک حقیقت ہے۔لوک سبھا الیکشن کے بعد ہریانہ اور جموںوکشمیر میں انتخابات ہوئے،ہریانہ میں بی جے پی اور جموں وکشمیر میں این سی کی حکومت بنی اور اب جھار کھنڈ اور مہاراشٹر میں اسمبلی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ان ریاستوںمیں بی جے پی کی حالت خراب ہے،یہاں ان کا جیتنا کسی معجزے سے کم نہیں۔ان ریاستوں میں غیر بی جے پی سرکاروں کے آنے کے زیادہ آثار ہیں۔
مہاراشٹر میں شیو سینا(ادھو ٹھاکرے ) زخمی شیر کی مانند ہے۔بی جے پی نے شیو سینا کو دو حصوں میںتقسیم کرکے جس کھیل کا آغاز کیا ہے،اس کھیل کا اصل وقت اب آیا ہے اور ادھو ٹھاکرے بدلہ لینے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔انہیں شرد پوار کا بھر پور ساتھ مل رہا ہے،جن کی پارٹی کو بھی بی جے پی نے دو حصوں میں بانٹ دیا تھا۔ شردپوار بھی بی جے پی سے انتقام لینے کو بالکل تیار ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ان دونوں کو کانگریس کی حمایت حاصل ہے،بلکہ یہ سب انڈیا گروپ کی خاص پارٹیاں ہیں۔انڈیا مرکز میں بی جے پی کو نہ صرف ٹکر دے رہا ہے بلکہ بی جے پی کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ایسی صورت میں انتخابات۔ایسا لگ رہا ہے کہ یہاں مہاراشٹر مہا اگھاڑی اتحاد کو فتح ملے گی،لیکن بی جے پی اتنی آسانی سے اقتدار سے بے دخل نہیں ہو سکتی،وہ جیت کے لیے ’’ کچھ بھی‘‘ کر ے گی۔اس لیے انڈیا کو بیدار رہنے کی اشد ضرورت ہے۔
[email protected]