لندن کی سڑکوں پر نفرت کا سیلاب

0

یوروپ کی سیاسی فضا میں جو زہر برسوں سے سرایت کرتا رہا ہے، وہ 13 ستمبر 2025 کو لندن کی شاہراہوں پر کھلے عام لہو کی طرح دوڑتا دکھائی دیا۔ اس روز ایک ایسا اجتماع ہوا جس نے ’آزادی اظہار‘ کے نعرے کے پردے میں تعصب اور قوم پرستی کا اصل چہرہ آشکار کر دیا۔ ٹومی رابنسن جیسے بدنام زمانہ دائیں بازو کے کارکن کے زیر اہتمام ’یونائیٹ دی کنگڈم‘مارچ بظاہر ’آزادی اظہار‘ اور’غیر قانونی امیگریشن‘ کے خلاف تھا، مگر حقیقت میں یہ ایک پورے سماجی بیانیے کی بازگشت تھی جو تارکین وطن کو ملک کیلئے خطرہ اور’دشمن اندرون خانہ‘ کے طور پر پیش کرتا ہے۔

لندن کی میٹروپولیٹن پولیس نے اندازہ لگایا کہ تقریباً ایک لاکھ دس ہزار افراد شریک ہوئے، لیکن فضائی مناظر اور عینی شاہدین کی رائے اس سے کہیں زیادہ ہجوم کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ مارچ واٹر لو برج سے وائٹ ہال تک پھیلا ہوا تھا، پرچموں، لکڑی کی صلیبوں اور نعرہ بازی کے ساتھ۔’ہمارا ملک واپس دو‘، ’غیر قانونی امیگریشن بند کرو‘اور ’آزادی تقریر کو بچائو‘ جیسے نعرے مسلسل گونجتے رہے۔ اس احتجاج نے لندن کی چندکیلومیٹر سڑکوں کو نفرت کے قافلوں سے بھر دیا۔مگر جیسے ہی دن ڈھلنے لگا‘ مارچ کا پرامن چہرہ نقاب اتار بیٹھا۔ مظاہرین نے پولیس پر بوتلیں اور پتھر پھینکے،لاتوں اور گھونسوں سے حملے کئے۔ نتیجہ یہ ہواکہ 26 پولیس اہلکار زخمی اور کم از کم 9 مظاہرین گرفتار کر لئے گئے۔پولیس نے ایک ہزار چھ سو سے زائد افسران تعینات کئے تھے،لیکن پھر بھی جھڑپوں پر قابو پانے کیلئے ہرطرح سے لیس مزید کمک لانی پڑی۔

ٹومی رابنسن، جس کا اصل نام اسٹیفن یاکسلے-لینن ہے، انگلش ڈیفنس لیگ کا بانی ہے۔ اس کے اسلام مخالف اور امیگریشن دشمن بیانات کسی سے پوشیدہ نہیںہیں۔ کئی فوجداری مقدمات،جیل کی سزائیں اور عدالت کی توہین کے کیسز کے باوجود وہ برطانوی دائیں بازو کی سیاست میں اب بھی ایک مضبوط علامت ہے۔ جیل سے رہائی کے بعد اس نے اسی مارچ کو اپنے سیاسی احیا کے طور پر پیش کیا۔ اس احتجاج کی خطرناک جہت اس وقت مزید واضح ہوئی جب ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعہ مظاہرین کو خطاب کیا۔ ایک طرف ٹومی رابنسن اپنے مخصوص جارحانہ لہجے میں دعویٰ کر رہا تھا کہ تارکین وطن کو برطانوی شہریوں سے زیادہ حقوق حاصل ہیں تو دوسری طرف مسک یہ کہہ رہے تھے کہ یا تو لڑو یا مرو اور یہ کہ برطانیہ اپنی شناخت کھو رہا ہے۔

یہ بھی قابل ذکر ہے کہ مظاہرے میں نہ صرف مقامی لوگ بلکہ یوروپ کے کئی دائیں بازو کے سیاست دان شریک ہوئے۔ فرانسیسی سیاست دان ایرک زیمور نے یہ کہہ کر مزید زہر گھولا کہ یوروپ کو مسلم ثقافت اور جنوبی دنیا سے آنے والے لوگوں کے ذریعہ دوبارہ نوآبادیات بنایا جا رہا ہے۔ یہ بیان پورے براعظم یوروپ کی فکری سمت کا عندیہ دیتا ہے جہاں مذہب اور نسل کی بنیاد پر نفرت کی سیاست کو عام کیا جا رہا ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ جب یہ احتجاج جاری تھا تو قریب ہی ’اسٹینڈ اپ ٹو ریس ازم‘ کے زیر اہتمام ایک جوابی مارچ بھی ہوا جس میں تقریباً پانچ ہزار افراد شریک تھے۔ ان کے نعروں میں ’مہاجرین کو خوش آمدید‘اور’نسل پرستی مردہ باد‘ کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ یوں وسطی لندن میں ایک ہی وقت میں دو متضاد بیانیے آمنے سامنے تھے یعنی ایک طرف ہم اپنا ملک واپس چاہتے ہیں کا دعویٰ تھاتو دوسری جانب سب کیلئے برابری کی مزاحمت تھی۔ یہ ٹکرائو صرف سڑکوں پر نہیں بلکہ برطانوی سماج کے باطن میں بھی شدت اختیار کر رہا ہے۔یہ مظاہرہ محض ایک دن کا واقعہ نہیں بلکہ برطانیہ میں پھیلتی مہاجر دشمنی کا تسلسل ہے۔ ان ہوٹلوں کے باہر بھی احتجاج ہوئے جہاں پناہ کے متلاشی افراد کو رکھا گیا تھا اور ایک ایتھوپیائی شخص کی گرفتاری کے بعد حالات مزید بگڑ گئے، جس پر الزام تھا کہ اس نے ایک 14سالہ لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ ایسے واقعات کو بنیاد بنا کر اجتماعی نفرت کی لہر کھڑی کرنا دراصل سیاسی مقاصد کی تکمیل ہے اور ’یونائیٹ دی کنگڈم‘ اسی منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے۔

اگر اس ریلی کو لندن کی تاریخ کے دیگر مظاہروں کے ساتھ تولا جائے تو یہ واضح ہے کہ دائیں بازو کی سیاست کس تیزی سے عوامی حمایت حاصل کر رہی ہے۔ نومبر 2023 میں فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے مظاہرے میں تین لاکھ افراد شریک ہوئے تھے، مگروہاں پرامن رویہ غالب تھا اور یہاں تشدد نمایاں رہا۔ یہ مارچ ایک اور خطرناک حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ برطانوی سیاست اب معیشت یا قانون کے سوال پر نہیں بلکہ ’ہم‘ اور ’وہ‘ کی تفریق پر مرکوز ہو رہی ہے۔ جب قوم پرستی کے نام پر ایک لاکھ سے زیادہ لوگ نفرت کے پرچم تلے جمع ہوں،سیاست داں، سرمایہ دار اور میڈیا سب مل کر اس بیانیے کو طاقت بخشیں تو پھر جمہوریت کی زمین دھیرے دھیرے کھوکھلی ہونے لگتی ہے۔لندن کی تاریخ میں13 ستمبر 2025 صرف ایک احتجاج کا دن نہیں بلکہ ایک انتباہ ہے۔ یہ انتباہ ہے کہ اگر برطانیہ نے تعصب،نسل پرستی اور مہاجر دشمنی کے بیانیے کو لگام نہ دی تو اس کی جمہوری بنیادیں متزلزل ہو جائیں گی۔ لندن کی سڑکوں پر بہنے والا یہ نفرت کا سیلاب یوروپ کے مستقبل پر ایک خوفناک سائے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

edit2sahara@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS