ایک خواب جو ابھی تک خواب ہی ہے : پروفیسر اسلم جمشید پوری

0

پروفیسر اسلم جمشید پوری

ہندوستان میں 90 کے بعد کئی ریاستوں کا وجود عمل میںآ چکا ہے۔وجود میں آنے والی ریاستوں کی قربانیوں اور جدوجہد کی ایک تاریخ رہی ہے۔ہندوستانی سیاست کی بات کی جائے تو کل کی حقیقت آج خواب بن کر رہ گئی ہے۔ سیاست سے ہرت پر دیش بالکل غائب ہے۔آپ کو یاد ہوگا کہ آج سے تقریباً ایک دہائی پہلے تک ہرت پردیش،یوپی کی سیاست کا ایک اہم ایشوبنا ہوا تھا۔خاص کر راشٹریہ لوک دل کایہ ایک اہم انتخابی منصوبہ تھا۔اجیت سنگھ اور ان کی پارٹی آرایل ڈی کئی بار اس کے سبب الیکشن جیت چکے ہیں۔پھر اچانک کیا ہوا کہ یوپی کی سیاست کا یہ اہم ایشوٹھنڈے بستے میں چلا گیااور بالکل سرد ہوگیا جبکہ اب بھی اس کی گرم ہوائیں چلتی محسوس ہو تی ہیں۔

ہرت پردیش کیا ہے ؟ دراصل یہ مغربی اترپر دیش کے 22 اضلاع کو ملا کر ایک خاص علاقہ بنتا ہے،جسے ہرت پردیش کا نام دیا گیا تھا۔یوں تو سبھی سیاسی پارٹیاں اس کو انتخاب میں موضوع بناتی تھیں، مگر راشٹریہ لوک دل کا یہ خاص اور محبوب موضوع تھا۔یہ آنجہانی چودھری اجیت سنگھ کا اٹھایا ہوا ایشو تھا۔ انہوں نے ہی اترپردیش سے الگ ریاست کا خواب دیکھا تھا۔یہ خواب 90کی دہائی میں دیکھا گیا تھا۔آپ کو بتا دوں اسی کے آس پاس تین اور ریاستوں کا خواب بھی دیکھا گیا تھا۔ جھارکھنڈ،اترا کھنڈ اور چھتیس گڑھ ریاستوں کے لیے جدوجہد شروع ہوئی تھی۔ 2000 میں یہ تینوں ریاستیں وجود میں آئیں۔آج ان ریاستوں کے قیام کو تقریباًچوتھائی صدی کا زمانہ ہوچکا ہے۔ ان کی ترقی اور معیشت سب کچھ زمانے کی نظروں میں ہے۔ ان ریاستوں کی خوشحالی بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ہرت پردیش کا خواب،خواب ہی رہ گیا۔بلکہ بہت بعد میں تلنگانہ کا خواب بھی پورا ہوگیا۔2جون2014 کو تلنگانہ الگ ریاست کے طور پر آندھراپر دیش سے الگ ہوا۔ ادھر ’’بھیل پردیش ‘‘( ایم پی سے الگ ریاست کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔)کو الگ ریاست کادرجہ دینے کی مانگ زور پکڑ رہی ہے۔سیمانچل کی بھی آواز بلند ہو رہی ہے۔پھر ہرت پردیش کو کیا ہوا؟کیا اس پردیش کو کسی کی نظر لگ گئی؟ کیا اس کے لیے کی گئی جدوجہد رنگ نہیں لائی؟ کیا اس کے لیے کم قربانیاں دی گئیں؟کیا یہ خواب دیکھنے والوں کی نیت میں فرق آگیا؟آئیں ان سوالوں کے جواب ڈھونڈتے ہیں اور پتہ لگاتے ہیں کہ یہ ایشو سیاست سے کیوں غائب ہوا۔

ہرت پردیش مغربی اترپر دیش کو یوپی سے الگ کرکے ایک نئی ریاست کا قیام تھا۔اس طرح 22 اضلاع پر مشتمل ایک نئی ریا ست عمل میں آتی،جس طرح اترا کھنڈ بھی اترپردیش سے الگ ہو کر بنی ریاست ہے۔ ہرت پردیش ہی نام کیوں؟ چوں کہ ان صوبوں میں ہریالی ہی ہر یا لی ہے۔ یہ علاقہ خاص طور پر گنا،گیہوں اور مکئی کی بہت زیادہ کاشت کے لیے جانا جاتا ہے۔آم بھی اس علاقے کی شناخت ہے۔سہارنپور میں اعلیٰ قسم کا باسمتی چاول پیدا ہوتا ہے۔ان سب فصلوں سے سال بھر یہ علاقہ ہرا بھرا رہتا ہے،اسی لیے کہا جا تا ہے کہ اس ریاست کا نام ’’ہرت پردیش‘‘ رکھا جائے۔

ہرت پردیش میں مغربی اترپردیش کے چھ منڈل(کمشنری) شامل تھے۔ میرٹھ ڈویژن، مرادآباد ڈویژن، آگرہ ڈویژن، سہارنپور ڈویژن، علی گڑھ ڈویژن، بریلی ڈویژن خاص کر شامل تھے۔ بریلی، بدایوں، پیلی بھیت،سہارنپور،مظفر نگر،شاملی،میرٹھ،بلند شہر،ہاپوڑ،غازی آباد، گوتم بدھ نگر، باغپت، علی گڑھ، ہاتھرس، کاس گنج، ایٹہ، آگرہ، متھرا، فیروزآباد، مین پوری جیسے اضلاع شامل تھے۔ اس ریاست کی راجدھانی میرٹھ کو رکھا گیا تھا۔اس کا رقبہ تقریباً 79.832 اسکوائر کلومیٹر اور اس کی کل آبادی 7.50کروڑ تھی،جس میں74.29فیصد ہندو آبادی، 24.21فیصد مسلم آبادی اور 1.5فیصددیگر لوگوں کی آبادی ہے۔

ہرت پردیش کے کئی اور نام بھی تھے۔ مثلاً جاٹ لینڈ، مغربی اترپر دیش،برج پردیش وغیرہ مگر ہرت پر دیش ان سب میں سب سے مقبول تھا۔لیکن آج کے نو جوان شاید اس نام سے بھی واقف ہوں۔ہرت پردیش کا ایشو خاص طور پر راشٹریہ لوک دل کا تھا۔لوک دل نے اس کے لیے کئی سال تک جدوجہد اور تحریک بھی چلائی تھی۔آنجہانی اجیت سنگھ کا ماننا تھا کہ اگر ہرت پردیش، اترپر دیش سے الگ ہو کر نئی ریا ست بنتی ہے تو اس میں آر ایل ڈی کا بڑا فائدہ ہوگا۔ اور واقعی آ ر ایل ڈی کا بہت بڑاسیاسی فائدہ ہوتا۔ ہرت پردیش میں راشٹریہ لو ک دل کی حکومت ہوتی، مگر ایسا نہیں ہوپایا۔اس کی وجہ لوک دل کی ڈھیلی ڈھالی پالیسی تھی۔ کسی بھی ریاست کا قیام گڑیا گڈے کا کھیل نہیں۔بہت سے لوگوں کو قربانیاں دینی ہوتی ہیں۔دن رات کی نیندیں گنوانی پڑتی ہیں۔جیلیں بھرنی ہو تی ہیں۔ہر طرح کی پرزور تحریک چلانی پڑتی ہے۔ برسوں جدو جہد کرنی پڑتی ہے مگر اجیت سنگھ اور آر ایل ڈی نے کبھی اسے اپنا واحد مقصد اور جنون نہیں بنا یا بلکہ جب اجیت سنگھ کو اس حقیقت سے آگاہی ہوئی تو جیسے اس ایشو کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا۔

انہیں پتہ چلا کہ ہرت پردیش میں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے اور مستقبل میں الگ ریاست کا فائدہ مسلمانوں کو پہنچ سکتا ہے۔اس وقت کے اہم مسلم لیڈروں میں شفیق الرحمن برق، اعظم خان، رشید مسعود، نواب کوکب حمید، شاہد منظور، یعقوب قریشی، شاہد اخلاق، ڈاکٹر معراج الدین،محبوب خان،امیر اعظم،غلام محمد،عمران مسعود،رفیق انصاری وغیرہ تھے۔یہ لیڈر مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ تھے۔ ان کو بہت زیادہ سیاسی فائدہ مل سکتا تھا۔سب سے زیادہ فائدہ رالود کو ہی پہنچتا۔اس نکتے کو راشٹریہ لوک دل کے لوگوں نے نہیں سمجھا۔راشٹریہ لوک دل کے علاوہ کسی کو بھی اتنی گہری جڑیں جمانے میں ایک لمبی مدت درکار تھی۔ہرت پردیش کا فائدہ مسلمانوں کو بھی پہنچ سکتا تھامگر یہ نکتہ بھی مسلمانوں نے آج تک نہیں سمجھا،ورنہ ایک بڑا فائدہ ہوتا۔یہ بات اجیت سنگھ نے محسوس کر لی تھی،جس کے سبب انہوں نے اپنی سیا ست کا رخ ہی پلٹ دیا۔ویسے بی جے پی نے اترپر دیش ریاست کے تین ٹکڑے کرنے کا پلان بنا رکھا ہے۔شمالی اترپر دیش (سیمانچل)، وسطی اترپر دیش (مدھیانچل یا اودھ پر دیش ) اور مغربی اترپردیش (دہلی این سی آر)میں تقسیم کا پلان ہے۔

آج بھی یہ ایک اچھا ایشو ہے۔مغربی اترپر دیش میں سر گرم سیاسی جماعتیں خاص کر راشٹریہ لوک دل( جینت سنگھ )اور آزاد سماج پارٹی( چندر شیکھر ) اگر اس ایشو کو دوبارہ ہوا دیتی ہیں تو نہ صرف یہاں کے عوام کا فائدہ ہو گا بلکہ ان کا بھی بڑا سیا سی فائدہ ہو گا۔اس پورے علاقے میں ہندوئوں اور مسلمانوں کا آپسی میل جول ہے۔یہاں کسانوں کی ایک بڑی آبادی ہے۔ان کی مختلف جماعتیں ہیں۔ یہاں کی زمینیں سونا اگلتی ہیں۔سونا بازار، کھیل کے سامان، ریوڑی گزک، سوتی کپڑا، سہارنپور کی لکڑی صنعت، مراد آباد کی پیتل صنعت،رامپور کا چاقو،میرٹھ کی قینچی،خور جہ کی چینی مٹی کے برتن،،علی گڑھ کے تالے، مظفرنگر کا گڑ اور لوہا، باغپت، میرٹھ، مظفرنگر، شاملی کی گنا پیداوار،بلند شہر،ہاپوڑ، علی گڑھ،امروہہ کا گیہوں۔یہاں کی پیداوار سے پورے اترپردیش کا کام چلتا ہے۔ مگر افسوس ابھی تک ہائی کورٹ بنچ کی مانگ لٹکی پڑی ہے۔ایئر پورٹ کا منصوبہ ہوا میں جھول رہا ہے۔چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کو مر کزی یونیورسٹی کا درجہ اب تک نہیں ملا۔

اس علاقے میںکئی معروف درس گاہیں،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، دارالعلوم، مظاہرالعلوم، سی سی ایس یو، سبھارتی یونیورسٹی،شوبھت یونیورسٹی،آئی آئی ایم ٹی یونیورسٹی،مہاویر یونیورسٹی،کھیل یونیورسٹی،ماں شاکھمبری یونیورسٹی،بھیم رائو امبیڈ کر آگرہ یونیورسٹی،سردارولبھ بھائی پٹیل ایگری کلچرل یونیورسٹی، موناڈ یونیورسٹی، میواڑ یونیورسٹی، تیرتھنکر یونیورسٹی، امیٹی یونیورسٹی،گلگوٹیہ یونیورسٹی،گوتم بدھ یونیورسٹی،شاردا یونیورسٹی،جی ایل اے یونیورسٹی، گلوکل یونیورسٹی، محمد علی جوہر یونیورسٹی، شری وینکٹیشور یونیورسٹی، ودیا یونیورسٹی،آئی ایف ٹی ایم یونیورسٹی،منگلایم یونیورسٹی،راجہ مہندر پرتاپ سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ کالج،بریلی کالج،ڈی این کالج،کئی میڈیکل کالج،مینجمنٹ کالج وغیرہ۔یہ علاقہ بہت زر خیز ہے۔

تعلیم کے معاملے میں کافی آگے ہے۔الگ ریاست ہوتی،بڑی خوشحالی چھائی ہوتی۔اس کی باگ ڈور بھی ہوسکتا ہے راشٹریہ لوک دل کے ہاتھوں ہوتی۔چودھری جینت سنگھ اس کے سروے سروا ہوتے۔ مگر یہ سب ابھی تک خواب، آرزو اور امید بن کر دور کی کوڑی ہوگئی ہے۔راشٹریہ لوک دل نے بی جے پی سے ہاتھ ملا لیا ہے اورمرکز میں حکومت میں شامل ہوگیا ہے۔اب بھی اگر لوک دل کے سپریمو اور اعلیٰ عہدیداران چاہیں تو یہ ایشو زندہ ہو سکتا ہے۔اس کا بڑا فائدہ پہلے تو آر ایل ڈی کو ملے گا،پھر یہاں کے کسانوں کو،یہاں کی پیداوار کو،پھر یہاں کے سیاسی رہنمائوں کو پہنچے گا۔ مگر یہ بھی شرط ہے کہ سب کو مل کر تحریک چلانی ہوگی۔ قربانیاں دینی ہوں گی۔اپنا ہر عیش و آرام چھوڑنا ہو گا۔تب ہی برسوں کاخواب ’’ ہرت پردیش‘‘ شرمندۂ تعبیر ہوگا۔کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ خواب،خواب ہی رہ جائے۔

aslamjamshedpuri@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS