حکومت اور قیادت انسانی معاشرہ کی ضرورت ہے۔ انسانوں کی اس ضرورت کی تکمیل کیلئے مختلف طرح کی حکومتیں اورقیادتیں دنیا بھر میں کام کرتی ہیں۔کہیں آمریت ہے توکہیں بادشاہت اور کہیں جمہوری طرز حکمرانی رائج ہے۔ آمریت اور بادشاہت منتخب نہیں کی جاتی ہے بلکہ یہ انسانوں پر اوپر سے مسلط کی جاتی ہے۔لیکن جمہوریت جیسے طرز حکمرانی میں، جس میں عام انسان بالواسطہ حکومت کرنے کیلئے اپنا نمائندہ منتخب کرتا ہے اور پھر اس نمائندہ کو تمام اختیارات سونپ دیتا ہے۔اس طرز حکمرانی کی تمام خامیوں اور خوبیوں کا ذمہ دار عام آدمی ہوتا ہے۔ اگرنمائندہ کے انتخاب میں چوک ہوجائے، فیصلہ غلط ہوجائے تو اس کے نتائج بھی عوام کو ہی بھگتنے ہوتے ہیں جیسا کہ آج ہندوستان جنت نشان کے عوام بھگت رہے ہیں۔ عوام نے اپنے انتخاب میں قیادت کے کردار کو سامنے رکھنے کے بجائے وقتی جذبات اور ذاتی مفادات کو ترجیح دی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بدعنوان، بدکردار، بددیانت، خائن، مجرم، حتیٰ کہ قتل و زنا اور زمین پر فساد پھیلانے جیسے سنگین جرائم کے مرتکب افراد کو بھی حکومت و قیادت کے اختیارات سونپ دیے ہیں۔
ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر )اور نیشنل الیکشن واچ (این ای ڈبلیو)کی تازہ ترین رپورٹس سے پتہ چلا ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین مقننہ (لوک سبھا اور راجیہ سبھا پر مشتمل پارلیمنٹ) میں شامل763افراد میں سے 306 افراد سنگین قسم کے مجرمانہ مقدمات میں ماخوذ اور ملوث ہیں۔ان میں سے 194 کے خلاف مقدمات سنگین نوعیت کے ہیں جو قتل، اقدام قتل، اغوااور خواتین کے خلاف جرائم وغیرہ سے متعلق ہیں۔ مجرمانہ رجحانات کے حامل یہ نمائندے اور لیڈرکسی ایک ریاست یا کسی ایک پارٹی کے نہیں ہیں بلکہ یہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ سنگین مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کا تعلق کئی ریاستوں اور زیادہ تر جماعتوں سے ہے۔ یعنی حمام میں سب ننگے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے ممبران پارلیمنٹ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے 385 میں سے 139(36 فیصد)، کانگریس کے81 میں سے 43 (53 فیصد)، ترنمول کانگریس کے 36 میں سے 14 (39 فیصد)، راشٹریہ جنتا دل کے 6 میں سے5(83 فیصد)، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) 8 میں سے 6 (75 فیصد)، عام آدمی پارٹی کے 11 میں سے 3 (27 فیصد)، وائی ایس آر کانگریس پارٹی کے 31 میں سے 13(42فیصد) اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے8میں سے 3 (36 فیصد) شامل ہیں۔
یہ صورتحال عوام کی استعداد انتخاب کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کی ہوس حکمرانی اور جمہوریت سے کھلواڑ کا بھی مظاہر ہے۔ کسی بھی حال میں اسے بہتر نہیں کہاجاسکتا ہے۔ پارلیمنٹ کو مجرموں کی آماجگاہ نہ بنانے کے لاکھ دعوئوں کے باوجود سیاسی جماعتیں اس پر عمل کرتی نظر نہیں آتیں۔افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ یہ رجحان صرف پارلیمنٹ تک محدود نہیں ہے بلکہ ریاستی قانون ساز اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں میں بھی یہی صورتحال ہے۔ اے ڈی آر کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیاہے کہ نیک، دیانت دار، ایماندار اور روشن و پاکیزہ کردار کے لوگوں کے بجائے سیاسی جماعتیں مجرموں کواس لیے ٹکٹ دیتی ہیں کیونکہ ان کے جیتنے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں اوران کو ٹکٹ دینے کے بعد یہ بے فکر ہوجاتی ہیں کہ یہ خود ہی اپنے جیتنے کے انتظامات بھی کرلیں گے۔وزیراعظم نے اپنی ابتدائی انتخابی مہمات میں بار بار یہ دعویٰ کیاتھا کہ وہ داغی ارکان کو بیک بینی دو گوش نکال باہر کریں گے، اس کیلئے انہوں نے مجرمانہ مقدمات میں ماخوذ عوامی نمائندوں کے معاملات کی فوری سماعت کیلئے نظام انصاف کو مہمیز دینے کی بھی بات کی تھی۔ لیکن 10برس ختم ہونے کو آئے ہیں، اس سمت میں کوئی پہل بھی نہیں ہوئی ہے۔ اس کے برخلاف پارلیمنٹ، ریاستی اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں تک مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے عوامی نمائندوں کی بھرمار ہوگئی ہے۔
مجرمانہ پس منظر کے حامل افراد سے نہ تو قانون بنانے اور نہ ہی ان کے نفاذ میں دیانتداری کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اگر ملک اور معاشرے کی قیادت و سیادت اور تقدیر کا فیصلہ کرنے والے ہی مجرم، بدعنوان، قاتل، زانی اور مجرم ہوں تو اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس سمت جارہاہے۔صحت مند جمہوریت کی بنیاد صرف اور صرف صاف ستھرے کردار کے حامل نمائندے ہی ہوسکتے ہیں۔ اس سمت سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی اور عام ووٹروں کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ورنہ مجرموں سے پاک مقننہ کاخواب کبھی تعبیر تک نہیں پہنچے گا۔
[email protected]
مجرموں سے پاک مقننہ کا خواب
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS