اودھیش کمار
دہلی کے ایک کوچنگ سینٹر میں تین طلبا کی ناقابل تصور المناک موت ہر سوچنے والے شخص کو اندر سے ہلا کر رکھ دینے والی ہے۔ اگر یہ واقعہ ہم سب کو اندر سے نہیں جھنجھوڑتاتو مان لیجیے کہ ہم نے اپنے ماضی کو ٹھیک سے دیکھنے، حال کو سنبھالنے اور مستقبل کی حقیقی فکر کرنے سے خود کو الگ کر لیا ہے۔ یقینا کوچنگ کے لیے آئے ان تین بدقسمت طلبا کا کوئی قصور نہیں تھا۔ راؤ آئی اے ایس اسٹڈی سرکل ہندوستانی سول سروسز کی کوچنگ میں سب سے پرانا اور معزز نام ہے۔ تاہم گزشتہ ڈھائی دہائیوں میں کئی ایسے کوچنگ ادارے سامنے آئے ہیں جن کی عزت اور امیج امیدواروں کی نظر میں تقریباً راؤ کے برابر ہی ہے۔ سوچئے، اگر اتنے پرانے اور معزز ادارے کا انفرااسٹرکچر ایسا ہے جہاں بحران میں طلبا کو بچانے کے لیے کوئی ایمرجنسی سسٹم موجود نہیں ہے تو دوسرے اداروں کا کیا حال ہوگا؟ حادثہ کے بعد دہلی پولیس اور انتظامیہ جس تیز رفتار سے کارروائی کررہے ہیں، اگر ان سب نے اپنی ذمہ داری نبھائی ہوتی تو شاید یہ خوفناک واقعہ رونما نہ ہوتا۔ شاید اس لیے کہ اس کے اور بھی پہلو ہیں۔ تجارتی شعبے میں تجارتی عمارتوں کی تعمیر، ان کی اندرونی ساخت، اس میں حفاظتی اقدامات وغیرہ کے واضح معیارات ہیں۔ ان کے بغیر کسی عمارت کی تعمیر مکمل ہونے کا سرٹیفکیٹ نہیں دیا جا سکتا۔ حفاظتی اقدامات کی مکمل چھان بین کے بعد ہی اس میں کاروباری سرگرمیاں چلانے کے قوانین اور معیارات موجود ہیں۔ پہلی نظر میں دیکھیں تو عام طور پر ہماری آپ کی سب کی نظر میں روزانہ نظر آنے والی انتظامی سماجی بدعنوانی کی یہ ایک مکمل طور پر المناک مثال ہے۔
حادثہ کے بارے میں معلومات اتنی ہی ہے کہ اولڈ راجندرنگر میں بارش کا پانی سڑکوں پر بھر گیا جو دکانوں اور گھروں میں گھسنے لگا اور بڑی گاڑیوں کے یو ٹرن لینے کی وجہ سے پانی اتنی تیزی سے آیا کہ اسٹڈی سرکل کے بیسمنٹ میں لگے شیشے کے دروازے ٹوٹ گئے اور چند منٹوں میں اندر پانی بھر گیا۔ کچھ خوش نصیب طلبا بچ کر نکل گئے، یہ تینوں باہر نہیں نکل سکے۔ اگر ہم اس کا عمومی نقطہ نظر سے بھی جائزہ لیں تو نالیوں، سڑکوں پر پانی بھرنے کے دوران ٹریفک کا انتظام، تجارتی مقامات کی حفاظت اور عمارتوں کی تعمیر میں ایسے محفوظ دروازے وغیرہ کے پہلو سامنے آئیں گے۔ اس کے لیے کتنے محکمے اور لوگ قصوروار نظر آتے ہیں، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب بارش بہت زیادہ ہو تو اچانک پانی کی نکاسی ممکن نہیں ہوتی۔ یہ بالکل درست ہے۔ کیا اس بنیاد پر اس طرح کے ہولناک واقعہ کو فطری قرار دیا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کا بیان ہے کہ قصوروار بخشے نہیں جائیں گے۔ یہ ایک عام سا بیان ہے۔ قصوروار کون کون ہیں، اس کی شناخت اپنے آپ میں سب سے بڑا سوال ہوتا ہے۔ حادثہ بالکل تازہ ہے، پورے ملک کی توجہ اس پر ہے، لوگوں میں غم و غصہ ہے توایسے وقت کارروائی ہوتی ہے۔ اس کے بعدعدالتی لڑائی، نیز پوری صورت حال کا جائزہ اور پھر مستقبل میں ایسا نہ ہونے کو یقینی بنانے کے لیے حفاظتی اقدامات، ہمارے معاشرے اور حکمران اسٹیبلشمنٹ کے کردار میں بہت کم نتائج میں نظر آتا ہے۔ کوچنگ سینٹر کو سیل کر دیا گیا۔ کیا سڑک کی اس جگہ کو سیل کیا جا سکتا ہے جہاں سے پانی کا تیز بہاؤ اندر آیا؟ کیا ان گاڑیوں کی شناخت کرکے سزا دی جاسکتی ہے جنہوں نے ڈرائیونگ کے اصولوں کی خلاف ورزی کرکے غلط طریقہ سے یو ٹرن لیا اور حادثہ ہوگیا؟ کیا اس کمرشیل ایریا کی تعمیر کی اجازت اور تکمیل کا سرٹیفکیٹ دینے والے سارے لوگوں کی شناخت کرنا ممکن ہے؟ کیا اسی طرح نوجوانوں کا کریئر بنانے کے نام پر ہر جگہ نظر آ رہے کوچنگ سینٹرز میں سے کم سے کم بڑے ناموں کی بھی ایک بار مکمل جانچ ممکن ہے؟
ان سوالات کے جوابات ہم آپ بخوبی جانتے ہیں۔ ایک مسئلہ کو مکمل طور پر دیکھنے اور دوررس سوچ کے ساتھ مستقل حل کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم نے اپنے پورے تعلیمی، سماجی، اقتصادی نظام کو ایسی حالت میں پہنچا دیا ہے ، جہاں سے لگتا ہی نہیں کہ اس کا امکان باقی ہے۔ شہروں میں تعمیرات اور اس کے آپریشن کا مسئلہ یہاں سرفہرست نظر آتا ہے۔ اس سے آگے دیکھیں تو کیا واقعی تعلیم کے لیے ایسے کوچنگ سینٹرز کی ضرورت ہے؟ صرف دہلی ہی نہیں پورے ملک میں شاید ہی کوئی ایسا شہر یا قصبہ ہو گا جہاں امتحانات کی تیاری کے نام پر چھوٹے بڑے کوچنگ سینٹرز نہ ہوں۔ عام ردعمل یہی ہوتا ہے کہ سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں پڑھانے اور سیکھنے کی حالت اتنی کمزور ہے کہ اگر طلبا الگ سے کوچنگ کے لیے نہ جائیں تو ان کے لیے موجودہ مسابقتی دور میں کامیابی حاصل کرنا مشکل ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہمارا تعلیمی نظام اتنا بے بس کیوں ہوگیا؟ تعلیم کسی بھی معاشرے اور قوم کی بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ جیسی تعلیم، ویسی ہی ملک اور معاشرے کی تعمیر۔ جن لوگوں نے اس بات پر گہرائی سے سوچا کہ اگر ہمارا ملک ہندوستان کبھی دنیا کی توجہ کا مرکز تھا تو اس کا تعلیمی نظام کیسا تھا، انہیں اس کا جواب ملا۔ قدیم ادب میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ ہماری تعلیم اس بات پر مرکوز تھی کہ طلبا حقیقی علم کی اعلیٰ ترین کیفیت حاصل کرکے عظیم انسان بنیں اور معاشرے کو سمت دینے جیسے فرائض سرانجام دیں۔ ملک، کل اور حالات کے مطابق اس میں موضوعات گھٹتے بڑھتے رہے، لیکن بنیادی مقصد ایک ہی رہا۔ معلوم تاریخ میں ایسی یونیورسٹیاں پورے ملک میں شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک موجود تھیں، جہاں بیرونی ممالک سے بھی طلباء آتے تھے۔ اس لیے ہندوستان کو کبھی بھی موجودہ نظام تعلیم جیسا ڈھانچہ بنانے کی ضرورت نہیں ہوئی۔ ہمارے یہاں آزادی کے بعد تعلیمی اصلاحات کے نام پر تبدیلیاں لانے کی کوششیں کی گئیں لیکن بنیادی ڈھانچہ وہی رہا جو ہمیں انگریزوں نے دیا۔ اس تعلیمی نظام میں ہم طلبا کو صرف کریئر کا ہی آپشن دیتے ہیں۔ کسی بھی شعبہ میں جب خشک کریئر سب سے اہم ہو گا تو سخت مقابلہ ہوگا اور پھر اس میں کامیاب کرنے کے لیے لاکھوں کی تعداد میں ایسے ہی ادارے قائم ہوں گے۔ کوچنگ کو تو چھوڑیں، ملک میں پرائمری سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک کتنے پرائیویٹ ادارے قائم ہوچکے ہیں، اس کا شمار بھی ناممکن ہے۔ جو تعلیم قدرتی طور پر ہمارے معاشرتی نظام میں بغیر کسی اضافی خرچ کے دستیاب تھی، وہ اتنی مہنگی ہوگئی کہ کسی عام آدمی کے لیے آج کے مقابلے میں معیاری تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہے۔
بدقسمتی سے سارا نظام اس تعلیمی نظام سے نکلے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اس سے متعلق بیانیہ اور ماحولیاتی نظام اسی طرح کا قائم ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی میں موجودہ حالات کے مطابق ڈھانچے اور طرز عمل کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن اس پورے ماحولیاتی نظام اور بیانیے سے کھڑے لوگ اسے آسانی سے عملی جامہ پہنانے نہیں دیں گے۔ اس میں شامل لوگوں کا تجربہ یہی ہے کہ نصاب میں بھی ہندوستانی نقطہ نظر سے ایک باب شامل کرنے کے لیے کمیٹیوں میں کتنی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ پورا ماحول گزشتہ 150سالوں سے ایسا ہے کہ جس میں اس سے باہر نکل کر نئے نظام تعلیم کی طرف بڑھنے کا سوچ کر ہی لوگ خوفزدہ ہونے لگتے ہیں۔ دارالحکومت دہلی کا واقعہ ہونے کی وجہ سے یہ ملک بھر میں موضوع بن گیا۔ آپ ملک بھر کے بڑے شہروں کی صرف ایک سال کی ہی اس سے متعلق خبریں دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ طرح طرح کے کئی سانحات اس تعلیمی نظام کے سبب رونما ہوتے رہے ہیں۔ فریضہ کو سمجھیں، اس کی ادائیگی صحیح طریقے سے کریں اور اس کے اندر اتنا اعتماد ہوکہ ہماری زندگی میں کل کیا ہوگا یہ فکر ذہن میں آئے ہی نہیں۔ سچے، ایماندار اور محنتی خوداعتمادی سے پُر اپنی ہندوستانی اقدار سے متاثر ایسے نوجوان ہی ملک اور دنیا میں انسانوں کی فلاح و بہبود کا ماحول بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔ لہٰذا، ایسے واقعات سے سبق لیتے ہوئے ہم سب کو اس سمت میں تعلیم، کریئر وغیرہ سے وابستہ پورے بیانیے اور ماحولیاتی نظام کو بدلنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔
[email protected]