انصاف کی دہلیز پر لٹکتی لاش: مالیگائوں دھماکہ اور بریت کا فیصلہ

0

سترہ برسوں پر محیط ایک خونیں باب آخرکار ایک ایسے موڑ پر آپہنچا ہے جہاں سوالات کے انبار،جوابوں کی راکھ تلے دب چکے ہیں۔ 29 ستمبر2008 کی شام،رمضان کے مہینے میں، مالیگائوں کی زمین اس وقت لرز اٹھی جب بھیکو چوک پر کھڑی ایک موٹر سائیکل میں نصب بم نے چھ معصوم جانیں نگل لیں اور 100 سے زائد زخمیوں کو زندگی بھر کا داغ دے گیا۔ دھماکے کی شدت نے صرف اجسام کو نہیں،سماج کے شعور کو بھی چیر ڈالا۔ لیکن 31 جولائی 2025 کو ممبئی کی ایک خصوصی عدالت نے اس اندوہناک سانحہ کے تمام ساتوں ملزمان کو بری قرار دے کر گویا یہ پیغام دیا کہ انصاف اب محض قانونی موشگافیوں کا کھیل بن چکا ہے، جہاں ثبوت کی کمی سچائی کی لاش پرآخری مہر لگاتی ہے۔

یہ کیس،جسے ابتدا میں مہاراشٹر اے ٹی ایس نے ہیمنت کرکرے کی قیادت میں سنبھالا اور بعدازاں 2011 میں این آئی اے کے حوالے کیا گیا،ہندو دہشت گردی کی اصطلاح کے تحت قومی سطح پر موضوع بحث بن گیا تھا۔ اے ٹی ایس نے پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو بم سے جڑی موٹر سائیکل کی ملکیت کے الزام میں گرفتار کیا، جبکہ لیفٹیننٹ کرنل پرساد پروہت پر کشمیر سے آر ڈی ایکس لانے اور منصوبہ سازی میں مرکزی کردار ادا کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ الزام تھا کہ ابھینو بھارت نامی تنظیم کے تحت ایک نیا ہندو راشٹر قائم کرنے کی سازش تیار کی گئی تھی۔ لیکن فیصلہ اس قدر صاف گو اور غیر متزلزل آیا گویا یہ سب محض قیاس آرائیاں تھیں۔

خصوصی جج اے کے لاہوٹی نے اپنے فیصلے میں کہا کہ استغاثہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ دھماکہ جس موٹر سائیکل میں ہوا وہ پرگیہ سنگھ کے قبضے میں تھی۔ این آئی اے نے خود مانا کہ موٹر سائیکل تقریباً ڈیڑھ سال سے رام چندر کلسانگرا کے قبضے میں تھی،جو تاحال مفرور ہے۔ کرنل پروہت کے گھر سے آر ڈی ایکس برآمد ہونے کا کوئی ثبوت نہ ملا۔ جائے وقوعہ سے کوئی فنگر پرنٹس، کال ڈیٹا یا قابل بھروسہ فورنسک شواہد بھی حاصل نہ کیے جا سکے۔ یو اے پی اے کے تحت تفتیش کی منظوری میں خامیاں تھیں اور فون ٹیپنگ کی اجازت غیرقانونی قرار دی گئی۔

عدالت کے مطابق،محض شک کی بنیاد پر کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی۔ یہ بات اصولی طور پر درست سہی،لیکن سوال یہ ہے کہ پھر 17 برس تک یہ تماشا کیوں جاری رہا؟ اگر شواہد اتنے کمزور تھے تو ضمانتیں اتنی تاخیر سے کیوں دی گئیں؟ اگر موٹر سائیکل کسی اور کے قبضے میں تھی تو اس شخص کو گرفتار کیوں نہ کیا گیا؟ اگر پرگیہ اور پروہت بے گناہ تھے تو اصل مجرم کون ہے؟ ان تمام سوالات کا عدالت نے جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔

یہ فیصلہ صرف قانونی نوعیت کا نہیں،بلکہ اس کے دور رس سیاسی اور سماجی مضمرات ہیں۔ پرگیہ ٹھاکر نے فوراً ہی اسے ہندوتو کی جیت قرار دیا۔ کرنل پروہت نے قوم کی خدمت جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔بری ہوجانے والے ملزمین کے یہ بیانات متاثرین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کیلئے کافی ہیں۔ نثار بلال،جن کا حافظ بننے کا خواب دیکھنے والا 19 سالہ بیٹا اظہر اس دھماکے میں جاں بحق ہوا،کہتے ہیں کہ مجھے سکون کبھی نہیں ملے گا۔ اسی طرح عرفان خان کے چچا عثمان خان نے کہا کہ ہمیں زندہ رہنے کیلئے درد کو دبا دینا پڑا۔جن خاندانوں نے سپریم کورٹ تک انصاف کی جنگ لڑی، انہیں عدالت نے صرف 2 لاکھ یا 50 ہزار روپے معاوضے کے نام پر تسلی دینے کی کوشش کی،جیسے یہ خونیں سانحہ محض ایک ٹریفک حادثہ ہو۔ فیصلے میں متاثرین کے دکھ،ان کے سوالات اور ان کے خوابوں کا کوئی ذکر نہیں۔ اس فیصلے نے نہ صرف قانون پر عوام کے اعتماد کو متزلزل کیا،بلکہ انصاف کی دیوی کی آنکھوں پر بندھی پٹی کو خون آلود کر دیا۔

سیاسی ردعمل بھی دو رخی ہے۔ جہاں بی جے پی اسے من گھڑت مقدمہ کہہ کر بریت کو سچائی کی جیت قرار دے رہی ہے،وہیں کانگریس،ٹی ایم سی اور دیگر اپوزیشن جماعتیں اس فیصلے کو حکومت کے دبائو کا نتیجہ قرار دے رہی ہیں۔ سینئر وکیل ماجد میمن نے درست ہی کہا کہ یہ فیصلہ متاثرین اور ملزمان دونوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔

ہیمنت کرکرے،جنہوں نے اس کیس کی ابتدائی تفتیش کی، 26/11کے حملوں میں مارے گئے۔ ان کی موت پر آج بھی سوالات اٹھتے ہیں۔ کیا ان کی تفتیش کسی بڑی سازش کے دروازے کھولنے والی تھی؟ کیا ان کی جان لینے کے پیچھے کوئی خاموش منصوبہ چھپا تھا؟ آج،جب کہ تمام ملزمان بری ہوچکے ہیں،ان سوالوں کی معنویت اور بھی گہری ہو جاتی ہے۔

اصل دکھ اس بات کا نہیں کہ کوئی بری ہوا،بلکہ اس بات کا ہے کہ 17 سال بعد بھی کوئی یہ بتانے والا نہیں کہ دھماکہ کس نے کیا؟ اگر یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہوتا جب ملک میں سیاسی توازن اور شفافیت کی فضا قائم ہوتی،تو شاید کچھ اور ہوتا۔ لیکن جب متاثرین سوال اٹھاتے ہیں کہ پرگیہ کو ایم پی بنایا گیا،یہ ہمارے زخموں کا مذاق ہے، تو یہ طنز نہیں،ایک اجتماعی ماتم کی گونج ہے۔

یہ محض ایک عدالتی فیصلہ نہیں،یہ تاریخ کا وہ ورق ہے جس پر خون کے دھبے تو ہیں،لیکن جرم کا سراغ ندارد۔ انصاف،جو کبھی مقدس تھا،اب ایک بے حس دیوار بن چکا ہے،جس پر چیخیں ٹکرا کر لوٹ آتی ہیں۔ مالیگائوں کا فیصلہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ سچ کا گلا گھونٹا جا سکتا ہے،ثبوت مٹا دیے جا سکتے ہیں اور درد کو سیاسی بیانیے میں بدل دیا جا سکتا ہے لیکن سوال زندہ رہتے ہیں اور کبھی کبھاروہی سوال تاریخ لکھتے ہیں۔

edit2sahara@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS