عباس دھالیوال
ابھی گزشتہ دنوں مغربی بنگال سمیت جن 5 صوبوں میں ووٹنگ کا کام مکمل ہوا تھا، آج ان 5 ریاستوں مغربی بنگال، آسام، کیرالہ، تمل ناڈو اور پڈوچیری میں جیسے ہی ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی تو ایک مرتبہ پھر میڈیا کا دھیان کورونا سے ہٹ کر اس کے نتائج کی طرف لگ گیا۔ حالانکہ اس سے پہلے ان مذکورہ اسمبلی الیکشن کو لے کر گزشتہ تقریباً دو مہینوں سے لوگوں میں لگاتار بحث و مباحثے اپنے عروج پر تھے لیکن گزشتہ دو ہفتوں سے جیسے جیسے ملک میں کورونا کی دوسری لہر نے زور پکڑنا شروع کیا تو ویسے ویسے مذکورہ الیکشن کے بجائے اکثر لوگوں کا دھیان اس کورونا وبا کی طرف منتقل ہوتا چلا گیا۔ ویسے جب سے کلکتہ ہائی کورٹ اور مدراس ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو جھاڑ لگائی ہے اور کورونا وائرس کی دوسری لہر کو پھیلانے کے لیے اس کو سیدھے طور پر ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اس کے افسران پہ قتل کا مقدمہ چلانے جیسی سخت باتیں کہیں تو محسوس یہ ہونے لگا تھا کہ کہیں عدالت ان انتخابات اور نتائج کے عمل کو بیچ میں ہی نہ روک دے مگر آج جیسے ہی 2 مئی کو یعنی مقررہ دن مذکورہ چناؤ کے ووٹوں کی گنتی کا کام شروع ہوا اور آہستہ آہستہ رجحانات آنے شروع ہوئے تو میڈیا نے ایک بار پھر سے کورونا وبا سے لوگوں کا دھیان ہٹاتے ہوئے انتخابی نتائج کی طرف موڑ دیا ۔
باقی ماہرین کی مانیں تو بی جے پی کی شکست کے پیچھے جہاں کسان آندولن کا بڑا ہاتھ رہا ہے وہیں کورونا وبا کی اس دوسری لہر کے دوران ضرورت مند مریضوں کو آکسیجن کا نہیں ملنا بھی ایک بڑی وجہ بنی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر میڈیا میں جس طرح سے مودی سرکار کی کورونا وبا سے لڑنے پر مذمت ہوئی، وہ بھی ایک بڑا فیکٹر رہا۔ باقی ہم سمجھتے ہیں کہ بنگال کا الیکشن جس طرح سے 8 مرحلوں میں لمبا کھینچا گیا، وہ بھی بی جے پی کی ہار کی ایک بڑ ی وجہ بنی ہے۔
ویسے جن ریاستوں میں الیکشن ہوئے تھے، ان میں لوگوں کی توجہ کا سب سے زیادہ مرکز جو صوبہ بنا ہوا تھا، وہ مغربی بنگال تھا جہاں ممتا بنرجی، جنہیں لوگ پیار سے ’دیدی‘ کہتے ہیں، جیت کر جیت کی ہیٹرک بنانے کے موڈ میں تھیں۔ وہیں بھارتیہ جنتا پارٹی ممتا کو حکومت سے بے دخل کر کے صوبہ کی حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے بے قرار تھی اور بی جے پی کے تمام بڑے رہنما اس کے لیے بہت پر امید بھی تھے کہ اس بار وہ ممتا کو ہرا کر ہی دم لیں گے جبکہ ادھر کانگریس اور کمیونسٹ پارٹیوں کا گٹھ بندھن مغربی بنگال میں اپنی کھوئی ہوئی زمین کی تلاش میں سرگرداں نظر آ رہا تھا۔ ویسے اگر یہ کہا جائے کہ کانگریس اور بایاں محاذ کی پارٹیوں کے لیے بنگال میں کچھ کھونے کو زیادہ نہ تھا تو یہ بے جا نہ ہوگا لیکن جیسے ہی رجحانات نتائج میں تبدیل ہونے لگے تو بنگال میں دیدی کے جادو کے آگے سبھی بڑے بڑے نامی لیڈروں کی قوت و طاقت جیسے تاش کے پتوں کی طرح بکھرنے لگی۔ پھر جیسے ہی دوپہر کے قریب ایک بجے کا وقت ہوا تو مانو ممتا دیدی کا جادو ہر ایک کے سر چڑھ کر بولنے لگا اور الیکشن کے دوران ’دیدی او دیدی‘ جیسے طنزیہ جملے والوں کو ممتا نے جواب دے دیا۔ ممتا کی صاف ستھری امیج کے سامنے سبھی بڑے بڑے نامی تیس مار خان اور سیاست کے چانکیہ سمجھے جانے والے لیڈران دھول چاٹنے پر مجبور ہوئے ہیں، دیدی کو ہرانے کی ان کی سبھی حکمت عملی جیسے مکڑی کے جالے کی طرح ٹوٹتی سی گئی ہے اور ان کے ووٹ بینک کو پولرائزڈ کرنے کے تمام داؤ پیچ جیسے الٹے پڑگئے ہیں ۔
ادھر تمل ناڈو میں جہاں پہلی بار الیکشن دو بڑی سیاسی شخصیتوں جے للتا اور کرونا ندھی کے بغیر ہو رہا تھا وہاں پر بھی گزشتہ 10سال سے حکومت میں چلی آرہی اے آئی اے ڈی ایم کے کو حکومت سے بے دخل کرتے ہوئے تمل ناڈو کے ستّہ سنگھاسن پر ڈی ایم کے کے صاف طور پر اکثریت کے ساتھ براجمان ہونے میں اندیشہ نہیں رہ گیا جبکہ ادھر کیرالہ میں لیفٹ پارٹی نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ ایک بار پھر سے حکومت میں رہے گی۔ آسام جس میں 2016 سے بھارتیہ جنتا پارٹی بر سر اقتدار ہے، دوبارہ سے واپسی کرنے میں کامیاب رہی ہے یا یوں کہہ لیں کہ اپنا قلع بچانے میں کامیاب رہی ہے جبکہ مرکزکے زیر انتظام علاقے پڈوچیری میں بی جے پی کا اتحاد کامیاب ہوا ہے۔
اسمبلی انتخابات کے نتائج کا مختصراً یا فوری تجزیہ کریں تو بھارتیہ جنتا پارٹی کو ایک بڑی مایوسی کا سامنا ہے، کیونکہ جس طرح سے وہ مغربی بنگال کو جیتنے کے لیے پوری تیاری کے ساتھ چناؤ میدان میں اتری تھی وہاں اس کو جس طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، وہ یقینا اس کے لیے اپنی مخصوص وچاردھارا والی امیج سے باہر نکلنے کا واضح اشارہ کرتا ہے اور زمینی سطح پر عوام کے لیے کام کر کے دکھانے کا سبق دیتا ہے۔ بھلے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی آسام میں اپنی حکومت کو ایک بار پھر بر سر اقتدار لانے میں کامیاب ہوئی ہو لیکن جس طرح سے کیرالہ، تمل ناڈو اور پڈوچیری میں اس کو سیٹیں ملی ہیں، وہ یقینا ایک قومی سطح کی پارٹی کے لیے فکر مندی اور خود احتسابی کا موضوع ہے۔
باقی ماہرین کی مانیں تو بی جے پی کی شکست کے پیچھے جہاں کسان آندولن کا بڑا ہاتھ رہا ہے وہیں کورونا وبا کی اس دوسری لہر کے دوران ضرورت مند مریضوں کو آکسیجن کا نہیں ملنا بھی ایک بڑی وجہ بنی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر میڈیا میں جس طرح سے مودی سرکار کے کورونا وبا سے لڑنے پر مذمت ہوئی، وہ بھی ایک بڑا فیکٹر رہا۔ باقی ہم سمجھتے ہیں کہ بنگال کا الیکشن جس طرح سے 8 مرحلوں میں لمبا کھینچا گیا، وہ بھی بی جے پی کی ہار کی ایک بڑ ی وجہ بنی ہے۔
اس کے علاوہ ماہرین کے مطابق بنگال کے لوگوں نے جس طرح مذہبی تفریق کو بالائے طاق رکھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہے، وہ بھی بی جے پی کے شکست کی ایک بڑی وجہ بنی ہے۔ جہاں تک کانگریس کا سوال ہے تو اس کی کارکردگی بنگال اور تمل ناڈو میں کوئی خاص نہیں رہی ہے۔ ہاں! آسام اور کیرالہ میں وہ ضرور ایک مضبوط حزب اختلاف پارٹی کے طور پر سامنے آئی ہے لیکن پھر بھی ایک قومی پارٹی کے طور پر جو توقعات اس سے عوام رکھتے ہیں، اس پر وہ کھری اترنے میں فی الحال چوک سی گئی ہے۔ باقی جہاں تک کمل ہاسن کی پارٹی اور دیگر صوبائی پارٹیوں کی بات ہے تو انتخابی نتائج سے لگتا ہے کہ انہیں ابھی اور زمینی سطح پر محنت کرنی چاہیے۔
[email protected]