عبدالسلام عاصم
تشدد کی تازہ وارداتیں مظہرہیں کہ برصغیر کے معاشرے میں زندگی کو ہر اُس حوالے سے تحفظ کا گلہ ہے جن کا تعلق دنیاوی مسائل سے زیادہ عقائد سے ہے ۔ارتقا رُخی علمی سوچ پر قدغن لگائے جا رہے ہیں، صنفی امتیازبھی کم و بیش ہر حلقے میں عام ہے، رنگ اور نسل، ذات اور مذہب کے بے جا فرق کو ختم کرنا تو درکنار، اُسے مزید تکلیف دہ شکل نہیں دی جا رہی ہے۔ اسی کے ساتھ طبقاتی فرق نے بھی بدستور عام لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ اس تکلیف دہ صورتحال کو پیدا کرنے والے جہاں آج بھی مٹھی بھر لوگ ہیں وہیںاسے دہائیوں پر محیط کرنے کا عملاً ذمہ داروہ ہجوم ہے جس کا تہذیب کے متعارف ہونے کے پہلے دن سے استحصال جاری ہے۔
اس منظر نامے کی ایک طویل تاریخ ہے جس کے تازہ موڑ کے گواہ ہم اور آپ ہیں۔ آج کل بیشتر چھوٹی بڑی نشستوں میںانہی حوالوں سے گفتگو شروع ہو کر بے نتیجہ ختم ہو جاتی ہے۔ بباطن سب پریشان ہیں اور اسباب سے بھی خوب آگاہ ہیں لیکن ازالے کے رُخ پر اظہار خیال کرنے میں لوگ اس قدر محتاط ہیں کہ کوئی بھی یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ عصری منظر نامہ ایسا کیوں ہے! بنیادی خرابی کیا ہے!! آج کے غیر پوشیدہ عہد میں بھی عام لوگ اتنی آسانی سے اُن لوگوں کے ہتھے کیسے چڑھ جا رہے ہیں جو گنتی میں کل ہی کی طرح تھوڑے ہیں لیکن وہ گڈریا بن کر ہجوم کو جانوروں کے غول کی طرح رگیدنے میں کامیاب ہیں!!! وغیرہ وغیرہ۔ میرے خیال میں اِن سوالوں کو دوٹوک زیر غور اس لیے نہیں لایا جا تا کہ ہمارے معاشرے میں اہلِ خرد اور اربابِ جنوں دونوں ہمیشہ بھیڑ کے ذریعہ ہی وہ سارے کام لیتے آئے ہیں جن سے ایک کے خلاف دوسرے کے جذبات کی تسکین تو ہو سکتی ہے، اجتماعی فائدہ کبھی نہیں ہو سکتا۔
دنیا کے ایک سے زیادہ انقلابات کا بے لاگ جائزہ بتاتا ہے کہ ذہنی طور پر غیر ارتقا پذیر حلقوں میں عوامی شعور کو بیدار کرنے کے رُخ پر چلائی جانے والی تحریکوں کے ابتدائی نتائج کو مستحکم بنانے کی دوراندیشانہ کوشش کبھی نہیں کی گئی۔ نتیجے میں وہاںہر اچھی کوشش بُرے لوگوں کے ہاتھوں ہائی جیک ہوتی رہی ہے۔ ان میں صنعتی انقلاب سے اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے انقلاب تک سبھی کم و بیش شامل ہیں۔ دوسری طرف جن حلقوں میں ایسا نہیں ہوا وہاں عوامی شعور کی بیداری کے ارتقا پذیر سفر میں کسی پڑاؤ کو منزل نہیں سمجھا گیا۔ یوروپ کی مثال سامنے ہے۔ ایسا نہیں کہ یوروپ اور دوسرے مغربی ممالک میں سب خیریت ہے، وہاں کوئی خرابی نہیں ۔ وہاں بہر حال موت کو حتمی حقیقت مان کر زندگی کی ناقدری اس طرح عام نہیں جس کا نظارہ ہم بر صغیر اور بعض دوسرے ملکوں میں کرتے ہیں ۔ ہمارے یہاں علم اور عقائد دونوں کے علم بردار بس بھیڑکو اپنی طرف کرنے سے غرض رکھتے ہیں۔ یہ اُسی کا نتیجہ ہے کہ عوامی شعور میں زندگی رخی بیداری لانے سے کہیں زیادہ عوامی سوچ کایک رخی استحصال ہوتا نظر آتاہے۔ بھیڑ سے فائدہ اٹھانے کی روش نے ہر ترقی کا رخ رنگ ونسل پرستی اور فسطائیت کے مذموم مقاصد کی طرف موڑنے میں قدامت پسندوں کی مدد کی ہے۔ امریکہ میں آج بھی آتشیں ہتھیاروں تک عام رسائی اور خواتین سے حمل ساقط کرنے کا حق چھین لینے کے اقدامات بے ہنگم بھیڑ کو ساتھ رکھنے کی سوچ کا ہی نتیجہ ہے۔
میں جو آج بھی ایک طالب علم ہوں شاید اتنا باصلاحیت نہیں جتنا سلیکون ویلی کے لوگ ہوتے ہیں، جو دنیا کی ایک سے زیادہ نئی صنعتوں کی آماجگاہ ہے۔ میری واقفیت بھی وال ا سٹریٹ کے لوگوں سے مختلف ہے، بلکہ ہونی بھی چاہیے اور میں شاید جاپان یا چین کے لوگوں کی طرح محنتی بھی نہیں ہوں، باوجودیکہ میری واقفیت اور شعور دونوں بتاتے ہیں کہ بر صغیر بشمول ہندوستان میں اب بھی مذکورہ جگہوں سے کہیں زیادہ زندگی کے وسائل ہیں جنہیں مثبت رُخ پر بروئے کار لا کرکسی بھی بھیڑکو بے ہنگم ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ اس کوشش کی راہ مسدود ہرگز نہیں، البتہ رکاوٹیں ہیں جنہیں حکمت سے دور کیا جا سکتا ہے۔
بلا شبہ یہ مسئلہ حقیقی تعلیم کے فروغ سے ہی حل ہو سکتا ہے۔ وطن عزیز میں مختلف تہذیبی حلقوں میں ایک سے زیادہ لوگوں نے اس کا ادراک کرکے عملی اقدامات کی راہ بھی ہموار کی لیکن تاریکی کی انتہا اس روشنی کو کہیں محدود کرنے تو کہیں سرے سے نگل جانے میں کامیاب رہی۔ تعلیم خاص طور پر رسمی تعلیم کے حوالے سے بہت سے مسائل صنعتی انقلاب کے زمانے سے بہت پہلے سے چلے آ رہے ہیں۔ جہاں تک نظریاتی تعلیم کا تعلق ہے تو اس میں بنیادی ساختیاتی شدت پسندی ہوتی ہے، جس کا زور براہ راست کبھی نہیں توڑا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کامیاب ملکوں میںاس سے نجات کی ہمیشہ بالواسطہ لیکن مربوط کو شش کی جاتی رہی ہے۔ اس کوشش کا پہلا قدم یہ ہوتا ہے کہ غیر مساوی تعلیم کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی کی جاتی ہے،ابتدائی اور مِڈل درجات کے اساتذہ اور ثانوی درجات کے مدرسین کے علاوہ لیکچرار کے ذہنی معیار کو ماننے سے جاننے تک بلند کیا جاتا ہے، اقتصادی انفرا اسٹرکچر کو ڈھنگ سے درست کیا جاتا ہے اور ٹیکنالوجی کی عام رسائی میں اس بات کا سخت دھیان رکھا جاتا ہے کہ اِس سے منفی استفادہ کر نے والوں کی چاندی نہ ہو جائے۔ اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے محاذ پر اور زیادہ چوکسی کی ضرورت ہے۔ ان کوششوں میں راست کامیابی ہی مہلک نظریاتی تعلیم کی بالواسطہ لیکن مربوط بیخ کنی کرسکتی ہے۔
علم سے زیادہ عقائد سے متاثر سماج میںبدقسمتی سے وہ لوگ جو سیاسی، معاشرتی، اقتصادی اور تعلیمی زندگیوں میں خوش آئند تبدیلی چاہتے ہیں وہ بھی علم کی تشریح میں زائد از ایک غلط فہمیوں کے شکار ہیں۔ برصغیر میں بہ کثرت لوگ (بالخصوص والدین) اپنے بچوں کیلئے تعلیم کو محض کریئر کے حصول کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں، جو مطلق غلط نہ ہوتے ہوئے بھی آج کے GPS کے زمانے میں انتہائی گمراہ کن ہے۔ بہ الفاظ دیگر اس طرح ہم از خود تعلیم کی صلاحیت کو کم کر دیتے ہیں۔ تعلیم اپنے آپ میں اگر انقلاب آفریں عمل ضرور ہے لیکن اس کے علم برداروں کی ذمہ داری انقلاب برپا کرنے کے ساتھ ختم نہیں ہو جاتی۔ کسی بھی انسان دوست انقلاب کو بھیڑ کے ذریعہ محدود مفادات کیلئے بھنانے والوں سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ سب کچھ پرشور جشن کی نذر ہونے سے بچایا جائے ورنہ دیکھتے ہی دیکھتے سب کیے کرائے پر پانی پھر سکتا ہے۔ ماضی میں اس کی ایک سے زیادہ مثالیں موجود ہیں جن میں سے ایک مثال پیرس کی ہے، جہاں خوف کی علامت سمجھے جانے والے ایک قلعہ پر لوگوں نے دھاوا بول کر اسے بے نام و نشاں کر دیا تھا۔ دوسری نسبتاً تازہ مثال برلن کی دیوار گرانے کی ہے۔ دونوں کام بھیڑ سے لیے گئے لیکن کام کو انجام تک نہیں پہنچایا جا سکا کیونکہ بھیڑ کی ذہنی کیفیت غیر مستحکم رہی۔اسی طرح سوویت انقلاب، شمالی کوریائی انقلاب اور ایرانی انقلاب کا حشر بھی پوشیدہ نہیں۔
انقلاب اگر علم اور عقائد کے مابین توازن کی راہ ہموار نہیں کرتا تو وہ کسی بھی موڑ پر مقصد کی راہ سے بھٹک سکتا ہے۔ پچھلے دنوں نئی نسل کے ایک نمائندے سے اسی حوالے سے بات ہو رہی تھی۔ نوجوان کی جستجو پسند طبیعت کی روانی نے مجھے کچھ اتنا متاثر کیا کہ میں نے اسے بتائے بغیر باہمی کردار میں تبدیلی کر کے خود کو اُس کی جگہ رکھ کر بات کرنے سے زیادہ سننے لگا۔ مقصداپنی سوچ کو کسی دوسرے کے ذہن سے سمجھنا تھا۔ نوجوان کا خیال تھا کہ تعلیم صرف حقائق جاننے کا نام نہیں، یہ ذہن کو سوچنے کی تربیت دینے کا ایک ذریعہ ہے۔ بصورت دیگر لوگ پڑھ لکھ کر بھی ’’تعمیر‘‘ اور ’’تجاوزات‘‘ کے فرق کو سمجھ نہیں پائیں گے جیسا کہ ہم اور آپ منظم اور غیر منظم دونوں طرح کی کالونیوں میں دیکھ رہے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ ہمارے یہاں جہل ہی تنہاعذاب نہیں، تعلیم بھی ہمارے انسان ہونے کے احساس کو تیز کرنے کا موثر ذریعہ نہیں بن پا رہی ہے۔ اگر بالواسطہ کوئی اس رخ پر فائدہ اٹھا لے تو وہ اتفاق سے خوش نصیب ہوگا۔
میں اس ملاقات کے بعد جب گھر لوٹ رہا تھا تو راستے میں مجھے محمد جان ہائیر سکنڈری اسکول کے اپنے ایک مدرس کی کچھ باتیں یاد آنے لگیں جن میں سے ایک سبق آموز بات کچھ اس طرح تھی کہ اگر تم کسی پریشانی کو برقرار رکھنا چاہتے ہو تو ہر وقت اُس کے بارے میں سوچتے رہو۔ اوراگر اس پریشانی کا ازالہ مقصود ہے تو عملی اقدام کرو۔یہ مت بھولو کہ زیادہ تر پریشانیاںذہنی پیداوار ہوتی ہیں اور سوچتے رہنے کے ناموافق انداز سے پنپتی چلی جاتی ہیں۔دنیا کے زیادہ تر مسائل فیصلے، ہمت اور حکمت انگیز عمل سے حل کی طرف بڑھتے ہیں۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]
ہمارے واٹس ایپ گروپ میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 bit.ly/35Nkwvu