سیف الرحمن
انسانی سماج کی تشکیل گھروں اور خاندان کی شکل میں موجود چھوٹی چھوٹی یونٹس سے مل کر ہوتا ہے اور سماج کا عروج و زوال بھی انہیں چھوٹی چھوٹی یونٹس پر منحصر ہوتا ہے، سماج میں موجود یہ یونٹس جتنی زیادہ ایماندار و محنتی ہوگی سماج اتنی ہی ترقی کریگا اور سماج کے ان چھوٹی یونٹس میں جتنے تخریبی ذہن کے فیملی و خاندان ہونگے اتنا ہی زوال سماج کو دیکھنا ہوگا! لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ دور میں مائیکرو سطح کی منصوبہ بندی،محلہ کمیٹی،بوتھ سطح کی منصوبہ بندی جیسے الفاظ عام ہے جو کہ ایوان اقتدار کی پالیسی سازی سے لیکر سیاسی اور سماجی تنظیموں تک کی منصوبہ بندی میں استعمال ہوتا ہے۔ خاص کر ہم دیکھتے ہیں کہ جب سے جمہوری انتخابات میں انتخابی مہمات کیلئے پروفیشنل کمپنیوں کا کلچر آیا ہے تب سے وارڈ سطح اور محلہ سطح پر لوگوں کا نظریاتی و مقداری تجزیہ کرکے چھوٹی چھوٹی سطح پر انتخابی منصوبہ سازی کی جا رہی ہے اور اس طرح سے ایک ایک ووٹ کو خاص سیاسی جماعت یا خاص سیاسی امیدوار کیلئے یقینی بنایا جاتا ہے! اسی طرح موجودہ زمانے میں کیڈر بیسڈ تنظیموں کا بھی ایک نظریہ ہے جس میں تنظیمیں دس-بیس افراد پر مشتمل ہزاروں چھوٹی چھوٹی یونٹس کی بنیاد پر ایک منظم سسٹم کے ساتھ قائم ہوتی ہے جسکی بڑی مثال ہمارے ملک ہند کی سب سے بڑی تنظیم آر.ایس.ایس ہے جو کہ انہیں چھوٹی چھوٹی یونٹس کی بنیاد پر لاکھوں تربیت یافتہ ارکان تیار کرکے ایسی طاقت بنی کہ آج ملک کے سسٹم پر مکمل طور پر قابض نظر آتی ہے اور اسی بنیاد پر ملک کی پوری فضا کو بدل چکی ہے، اِسکی دوسری بڑی مثال دلتوں کی تحریکِ بام سیف ہے جو کہ آزادی کے بعد ملک ہند میں دلت تحریکِ کی روح مانی جاتی ہے اور تیسری بڑی مثال مسلم قیادت والی سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا ہے جو کہ اسی سسٹم کی بنیاد پر بغیر رکن پارلیمنٹ و رکن اسمبلی کے کسی بھی مسئلہ کو قومی سطح پر بحث میں لے آنے میں کامیاب ہو جایا کرتی ہے اور اسکے صدر کے ایک حکم پر چند گھنٹوں میں ملک بھر میں سینکڑوں مقامات پر احتجاج منعقد ہوجایا کرتا ہے۔ ان کیڈر بیسڈ تنظیموں کی پوری بنیاد محلہ سطح کی چھوٹی چھوٹی یونٹس پر قائم ہے۔ اب اگر ہم بطور قوم کے غور کریں تو ایک بہت اہم موضوع ہمارے گفتگو میں ہمیشہ ہوتا ہے کہ ہماری مسلم قوم میں منصوبہ سازی تو بہت ہوتی ہے اور تنظیمیں تو بہت بنی ہیں لیکن کوئی بھی منصوبہ کامیاب کیوں نہیں ہوتا ہے؟ اس کے جواب میں بہت سے اسباب بیان کیے جا سکتے ہیں اور کیے جاتے ہیں مگر ایک اہم سبب جو کہ سبھی مانتے ہیں وہ یہ ہیکہ ہمارے پاس زمینی سطح پر کام کیلئے کوئی سسٹم اور نیٹ ورک موجود نہیں ہے اور ہماری تنظیموں کے پاس منصوبوں کو زمین پر نافذ کرنے کیلئے افراد ہی موجود نہیں ہے ۔ جب کہ اگر ہم اسلامی فکر کے ساتھ سونچیں اور دنیا کے عظیم ترین رہبر پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی االلہ علیہ وسلم کی زندگی سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کریں تو ہم دیکھیں گے کہ اللہ کے رسول صلی االلہ علیہ وسلم نے مسجد کی شکل میں مکمل ایک سسٹم ہمیں مہیا کرا دیا تھا جو کہ آج مائکرو سطح کی منصوبہ بندی کے نظریہ میں نظر آتا ہے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں ایک طرف مسجد نبوی کی شکل میں ایک ایسے مرکز کا نمونہ پیش کیا جس میں کہ ایک طرف عبادت الہی ہوتا تھا تو وہیں دوسری طرف مسلمانوں کی تذکیر،غیر مسلموں تک دعوت اسلام،جہاد فی سبیل اللہ،زکو کے جمع ہونے،غریبوں کو مدد،عدالتی کارروائیاں اور دیگر تمام سیاسی،سماجی اور معاشی معاملات کی منصوبہ بندی و اس کا نفاذ بھی مسجد نبوی سے ہی ہوتا تھا،جنگوں میں گرفتار سردار کو بھی مسجدِ نبوی میں ہی باندھ کر رکھا جاتا اور انکے فیصلے بھی وہیں ہوتے تھے۔ ایسا نظام دینے کے ساتھ ہی اس نظام یعنی مسجد کے زیادہ سے زیادہ تعمیر کی ترغیب بھی دی گئی مطلب کہ ہر محلہ میں محلہ سطح کا مرکز بنانے کا مزاج دیا گیا ہے لہذا اللہ کے رسول صلی االلہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ’محلوں میں مسجدیں بنائی جائیں اور انہیں پاک صاف رکھا جائے اور ان میں خوشبو لگائی جائے‘(سنن ابن ماجہ)مگر ساتھ ہی اس بات پر تنبیہ بھی کی گئی کہ مسجد کے قیام کے بعد اس کے اصل مقصد کی جگہ اس کو سجانے سنوارنے اور خوبصورت بنانے پر دھیان نہ لگا دیا جائے چنانچہ رسول اللہ صلی االلہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’اپنی مساجد کو جب تم مزین اور مصاحف کو خوبصورت بناگے تو پھر تم پر بربادی مسلط ہو جائیگی‘(مصنف ابن ابی شیبہ)اور اسی نظام کے مطابق رسولِ اکرم صلی االلہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور اسکے بعد کے لمبے وقت تک عمل ہوتا رہا لیکِن دھیرے دھیرے باقی نظام زندگی کے ساتھ اسے بھی فراموش کردیا گیا۔لیکِن آج جب کہ ملت اسلامیہ خطرناک ترین دور میں زِندگی گزار رہی ہے کہ ایک طرف انسانی زندگی کے تمام محاذوں پر زوال کی گہری کھائی میں نظرآتی ہے، ان کا جان و مال ہر وقت خطرے میں ہے تو وہیں ارتداد و مذہب بیزاری اور بے حیائی،نشہ اور زنا جیسے وبا بھی پورے معاشرے میں پھیل کر ان کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔
تو ضرورت ہے کہ مسائل کے حل کے لئے ماہرین و قائدین کی طرف سے بتائے جانے والے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اور قوم کو تحفظ و ترقی کی راہ پر لگانے کیلئے وقت رہتے ہی اس محلہ سسٹم کو زندہ کیا جائے اور محلہ کمیٹی کا کلچر عام کیا جائے جس کا مرکز مساجد کو بنانا عین مزاج شریعت ہوگا اور زیادہ مفید ہوگا ،اس محلہ کمیٹی میں پورے محلہ کی نمائندگی رکھی جائے و اسلام کے شورائی نظام کے مطابق فیصلے لئے جائے اور لوگوں میں شورائی نظام کو ماننے کا مزاج پیدا کیا جائے ساتھ ہی اسلام میں احتساب اور ذمہ داری کا جو نظام و مزاج ہے اسے بھی نافذ کیا جائے، اس محلہ کمیٹی کا مقصد ہو کہ مسجد کو عبادت الہی کی جگہ بنانے کے ساتھ ہی پورے محلہ کے فکری تربیت و پورے محلہ کے تحفظ و تقویت کا مرکز بنایا جائے ۔اس کام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہر شخص خود کو ذمہ دار سمجھے کیونکہ ہر شخص کا مفاد پورے محلے سے جڑا ہے کہ اگر ایک گھر میں آگ لگی اور اسے بجھایا نہ گیا تو پورا محلہ چپیٹ میں آجاتا ہے تو ویسے ہی اگر محلہ کی ایک لڑکی یا ایک لڑکا خراب ہوا تو ہر گھر کی بیٹی و ہر گھر کا بیٹا خراب ہو جائیگا چہ جائیکہ شاید آپ اس خوش فہمی میں رہے کہ آپ کی بیٹی و آپ کا بیٹا اس سے محفوظ ہے لیکن حقیقت میں آپ کی اولاد بھی وہ سب کر رہی ہوگی جوکہ دوسروں کے یہاں دیکھ کر آپ ان پر لعنت کر رہے ہوںگے۔