کیا ہم واقعی مصروف ہیں؟

0

 

علیزے نجف

آج کی اس بھاگتی دوڑتی دنیا میں ایک جملہ زبان زد خاص و عام ہو چکا ہے وہ ہے ‘میں بہت مصروف ہوں، کیا کروں وقت ہی نہیں ملتا’ بیشک ہم بہت مصروف ہو چکے ہیں اتنے مصروف کہ اب ہمارے پاس خود کے لئے بھی وقت نہیں ہوتا۔ بیشک مصروف ہونا اچھی بات ہے لیکن اس مصروفیت کے موضوع پہ بات کرتے ہوئے ذہن میں جو سوال سب سے پہلے آتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم کہاں مصروف ہیں اور جن مصروفیات نے ہم سے ہمارا وقت چھین لیا ہے اس کے نتائج ہماری زندگی پہ کیسے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ کیا ہم سچ میں مصروف ہیں یا ہم محض خود کو مصروف ظاہر کرنے کے لئے منفی و مثبت اور اچھے و برے کی تمیز کئے بغیر اردگرد کی کسی بھی سرگرمی میں خود کو مصروف کر رکھا ہے۔ یہ مصروفیت واقعی میں ہے یا ہم خلائی نکتوں پہ نظریں جمائے خود کو ذہنی طور پہ بیبنیاد مشاغل میں مصروف کئے ہوئے ہیں یہ سارے سوال ایسے ہیں جو کہ ہمیں خود سے ضرور پوچھنا چاہئے اور پھر جو جواب ملے اس کی روشنی میں آگے کا لائحہ عمل طئے کرنا چاہئے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہم زندگی گذارتے ہوئے کبھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ ہم کس راستے پہ رواں ہے اور ہماری منزل تک رسائی حقیقت میں ممکن ہے کہ نہیں۔ میں مصروف ہوں یہ ایک ایسا جملہ ہے جو کہ ہم اس لئے بھی بولتے ہیں تاکہ ہم سامنے والے پہ یہ تاثر ڈال سکیں کہ وہ ہم کو ارزاں خیال کرنے کی غلطی نہ کرے۔
میں نے کچھ وقت پہلے برصغیر کے مشہور دانشور اور مفکر علامہ واصف علی واصف کا مصروفیت کے حوالے سے ایک مضمون پڑھا تھا جس میں انھوں نے ایک جگہ لکھا تھا “مصروفیت کا عالم یہ ہے کہ کسی کے پاس کسی کے لئے وقت نہیں ہمیں اپنے لئے وقت میسر نہیں آتا ہم مصروف ہیں ہمارے لئے ہماری مصروفیت ہی خود گریزی، خودفریبی، خودشکنی اور خود فراموشی کا جواز فراہم کرتی ہیں۔ ہم ایک کام کرتے ہیں تو دوسرا کام بھول جاتے ہیں۔ ہمارے پاس بہت سے مقاصد ہیں۔ بڑے منصوبے ہیں طویل پروگرام ہے کثیر ارادے ہیں، بیشمار عزائم ہیں۔ بس ہر شئے کی کثرت ہے صرف وقت کی قلت ہے زندگی مختصر ہے اور مصروفیات بیانداز ہم کیا کریں ہم سوچتے ہیں تو ندامت ہوتی ہے اس لئے ہم سوچنے کے بجائے کام میں مصروف ہو جاتے ہیں”
واصف علی واصف صاحب نے بہت ہی مدبرانہ انداز میں ہماری بیبنیاد مصروفیت کی حقیقی منظر کشی کی ہے کہیں نہ کہیں انھوں نے یہ بھی کہنے کی کوشش کی ہے ہماری مصروفیات اکثر حقیقی معنوں میں اتنی بیبنیاد ہوتی ہے کہ ہم پوری زندگی مصروف رہ کے بھی نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم کی تصویر بنے رہتے ہیں۔ پھر بھی ہمیں احساس نہیں ہوتا کہ ہم نے کیا گنوایا ہے اور اس کی قیمت کیا ہے۔
مشاہدہ و مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ محض مصروف رہنے کے لئے کسی بھی سرگرمی کو اپنا لیتے ہیں آج کے دور میں مصروفیت کا سب سے بڑا ذریعہ سوشل میڈیا ہے جس میں گھنٹوں سرفنگ کرتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بہت مصروف ہوں اب فلاں فلاں کام بعد میں ہوں گے جن کاموں کو وہ ملتوی کرتے ہیں ان کا کرنا ضروری ہوتا ہے اور اس کے نہ ہونے سے مسائل پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ذہنی سکون بھی متاثر ہوتا ہے۔ اور زندگی بیترتیبی کا شکار ہو جاتی ہے جس میں بننے والے کام بھی بگڑنے لگتے ہیں کیوں کہ بیترتیبی کسی بھی معاملے کو مسئلہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
مصروفیت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر تجزیاتی صلاحیت کو بیدار کریں جس کو دوسرے لفظوں میں محاسبہ ذات کہہ سکتے ہیں۔ بیشک مصروف رہنا یونہی خالی رہنے اور تصور میں ٹامک ٹوئیاں مارنے سے بہتر ہے لیکن اس مصروفیت سے مراد محض وقت گذاری کے لئے کسی بھی سرگرمی کو اپنانا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ایسی مصروفیت ہے جس کے نتائج زندگی کو بہتر بنانے میں معاون ہوں ہر شخص کے لئے مصروفیت کی نوعیت الگ الگ ہوتی ہے، ایک مصنف کے لئے لکھنے میں وقت گزارنا اس کی صلاحیتوں کو جِلا دینے کے لئے ضروری ہے اس کے برعکس اگر وہ انسان جو لکھنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوئے قلم سے آڑی ترچھی لکیریں بناتا رہے اس کے لئے وہی قلم کاغذ کوئی نتیجہ نہیں پیدا کر سکتا اور یہ بیجا مصروفیت ہی ہو گی، اس لئے ضروری ہے کہ ہر انسان اپنے لئے ان مصروفیات کا باقاعدہ سوچ سمجھ کر انتخاب کرے جو کہ اس کے لئے مقصد حیات بھی ہو اور اس سے اس کی جذباتی تسکین بھی ہو سکے۔ مصروف رہنا اور صحیح جگہ پہ مصروف رہنا اس لئے بھی ضروری ہے کیوں کہ جب ذہن خالی ہوتا ہے تو شیطان بڑی آسانی کے ساتھ اسے اپنا اسیر بنا لیتا ہے چوں کہ ایسے میں اس کے پاس نہ اپنے نظریات ہوتے ہیں اور نہ ہی مقصد حیات اس لئے وہ بآسانی کسی بھی طرح کے خیالات کو قبول کر لیتا ہے اسی لئے تو کہتے ہیں خالی دماغ شیطان کا کارخانہ۔ اور شیطان صرف تخریبی سرگرمیوں کے لئے پہچانا جاتا ہے اور انسان ایسی تخریب کاری کے نتائج کا متحمل نہیں ہو سکتا۔انسان کا بائیولوجیکل سسٹم خودکار طریقے سے کام کرتا ہے اسی طرح دماغ کی سوچنے کی صلاحیت بھی خود کار طرز کے ساتھ ایکٹو رہتی ہے جب اس کے پاس کچھ مثبت اور بامقصد سوچنے کو نہیں ہوتا تو وہ آس پاس کی منفی عناصر میں دلچسپی لینا شروع کر دیتا ہے یہاں تک کہ اس کا اس قدر اسیر ہو جاتا ہے کہ اس کی منفیت کو وہ تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتا اور مثبت پہلو اس کے لئے بیبنیاد اور غیر ضروری ہو جاتے ہیں اس کے اثرات اس کی خاندانی اور معاشرتی دونوں ہی زندگیوں پہ پڑتے ہیں جو کہ مسائل کو جنم دینے والے ہوتے ہیں۔ مثبت تعمیری ذہن ہمیشہ غیر ضروری مسائل سے بچنے کی کوشش کرتا ہے جب کہ منفی پسند ذہن معمولی مسائل کو بھی اس قدر گمبھیر کر دیتا ہے کہ رشتے و معاملات سب تباہ ہونے لگتے ہیں اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مصروفیت کے ساتھ مصروفیات کی نوعیت کا خیال رکھنا سب سے زیادہ ضروری ہے۔
جدید تکنیکی دور نے نئی نئی مصروفیات کے دروازے کھول دئیے ہیں جو کہ اس قدر پر کشش ہیں کہ یہ بآسانی کسی کو بھی اپنی طرف راغب کر لیتے ہیں اور جب ہمارے پاس زندگی کے لئے کوئی لائحہ عمل ہی نہ ہو تو اس طرح کی بیبنیاد مصروفیات سے بچنے کا کوئی راستہ بھی نہیں ہوتا ایک سیاح جو اپنی صحیح معنوں میں مصروف ترین زندگی سے کچھ وقت نکال کر قدرت کے حسین نظاروں کی سیر کو نکلتا ہے چوں کہ اس کا مقصد تفریح ہی ہوتا ہے اس لئے وہ کسی بھی پرلطف منظر میں کھو کر گھنٹوں گزار دیتا ہے پھر وہ واپس اپنی زندگی کے مقاصد کی تکمیل میں مصروف ہوجاتا ہے ایک غیر نتیجہ خیز زندگی گزارنے والے انسان کا حال اس سے بالکل مختلف ہوتا ہے وہ مقصدیت سے دور ہو کر ساری زندگی یوں ہی تفریح میں گزار دیتا ہے مقصدیت سے خالی زندگی کسی بھی تفریح کی خوشی کو تادیر باقی نہیں رہنے دیتی ایسے ہی افراد کا ذہنی و جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں ایسے افراد ساری زندگی مصروفیت کا واویلا کرتے ہوئے زندگی گزار دیتے ہیں حالانکہ وہ نہ مصروف ہوتے ہیں اور نہ ہی خود کو میسر۔ وہ ایسی جلدبازی میں زندگی گزار دیتے ہیں جس میں اسے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اسے کس بات کی جلدی ہے۔
ہم نے بامقصد مصروفیت اور بیجا مصروفیت کی بات کر لی اب ضروری ہے کہ ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ہمارے لئے بہتر کیا ہے مصروفیت یا فرصت ۔۔۔ سچ یہی ہے کہ ہم کو فرصت اور مصروفیت دونوں کو ہی اپنی زندگی میں رکھنا چاہئے اس دنیا میں ہمارا پیدا کیا جانا مقصد سے خالی نہیں اس لئے اس مقصد کی تکمیل کے ساتھ ہمارے لئے اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لئے مطلوب وسائل کے حصول کے لئے بھی مصروف رہنا ضروری ہے وہیں ہمارے لئے فرصت بھی اس لئے ضروری ہے کہ ہم کچھ وقت خود کے ساتھ بھی گزار سکیں فطرت کے حسن سے آنکھوں کو سیراب کر سکیں فاطر کائنات کی تخلیقات پہ غور کر سکیں ہم ایک جسمانی وجود کے ساتھ ساتھ ذہنی اور روحانی وجود بھی رکھتے ہیں ان کے بھی اپنے تقاضے ہوتے ہیں جو ہمیں ہی ادا کرنے ہوتے ہیں جب ہم بیجا مصروفیات سے آزاد ہوں گے تبھی ان تقاضوں کی ادائیگی کر پائیں گے ہمارے یہاں جو ہر سو ہیجان برپا نظر آ رہا ہے اس کے پیچھے وجہ یہی ہے کہ ہم صحیح جگہ پہ اپنی توجہ دینے کے بجائے بیجا مشاغل میں مصروف ہو چکے ہیں ذہن اور روح کے تقاضوں کو نظر انداز کر کے خوش رہنے کے خواب دیکھنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے ۔ کسی بھی عمل کے صحیح اور غلط ہونے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ اس کی نتیجہ خیزی پہ غور کیا جائے کیوں کہ ہم کوئی اقدام محض اقدام سے لطف اندوز ہونے کے لئے نہیں کرتے بلکہ اس سے ایک مطلوبہ نتیجے تک پہنچنا چاہتے ہیں اگر وہ نتیجہ حاصل ہو جائے تو ہم ہر طرح کی تکلیف اور اذیت کو بھلا دیتے ہیں۔ آج کی تاریخ میں میں جبکہ دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے معلومات کا ایک طوفان ہے جو امنڈا چلا آ رہا ہے سب کچھ محض ایک کلک کی دوری پہ ہے ایسے میں منصوبہ بندی کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے، یہ منصوبہ بندی ہمیں توازن کے ساتھ جینے میں معاون ہوتی ہے مصروفیت اور فرصت دونوں کے اپنے فائدے ہیں اس سے استفادہ کرنے کے لئے شعور کو ڈیولپ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، شعور معلومات کے ذخیرے سے نہیں بلکہ غور و فکر کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS