فیروز بخت احمد
مولانا ابوالکلام آزادؔ کے بہن بھائی بھی زبردست ادبی و علمی بصیرت کے مالک تھے مگر مولانا کی عالمانہ فضیلت کے ہوتے وہ سب ان ستاروں کی مانند گُم سے رہے کہ جیسے سورج کے نکلنے سے اس کی روشنی ہر جگہ وہرچیز پر غالب آتی ہے۔ مولاناآزاد کے ایک بڑے بھائی مولانا ابوالنصر آہؔ غلام یٰسین اور تین بہنیںخدیجہ بیگم، فاطمہ بیگم آرزو اورمحمودہ بیگم آبرو تھیں۔ مولانا کے والد حضرت مولانا خیر الدین ؒ شیخ محمد ہادی کے فرزند تھے اوران کاشجرہ ممتاز عالم و فاضل وعہد اکبری کے مشاہیر علماء و اصحاب اصلوب میں شمار کئے جانے والے شیخ جمال الدین عرف بہلول دہلوی سے ملتا ہے۔ شیخ جمال الدین اپنے عہد میں علوم دینیہ کی تدریس میں اپنا عدیل نہیںرکھتے تھے۔ درس و تدریس کے ساتھ ارشادو طریقت کا سلسلہ بھی قائم تھا۔مولانا خیرالدین بڑے خوش نصیب شخص تھے کہ عزت و نیک نامی کے ساتھ خلق و خدا کی خدمت میںزندگی بصر کی ۔ ان کی خوش نصیبی کا دوسرا پہلو ان کی اولاد صالح تھی جس نے دین دنیا کی حتی المقدور خدمت گزاری کی ابو النصرآہ غلام یٰسین دہلوی اور ابولکلام محی الدین احمد آزاددہلوی مجموعئہ کمالات تھے۔ تو صاحبزادیوں میں فاطمہ بیگم آرزو، اورحنیفہ بیگم آبرو نے شعر وسخن سے شغف جاری رکھنے کے ساتھ خواتین وطن کی بیداری ، معاشرتی اصلاح، جدو جہد آزادی اورتعلیم نسواں کے سلسلہ میں اہم فعال کردار ادا کئے۔
پچھلی صدی کے بالکل ابتدائی زمانہ سے ان کا معاشرتی زندگی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ان کی بیدار مغزی اور سماجی شعور کی غمازی کرتا ہے۔ اس زمانے میں پردے کی رسم و دیگر قیود اس طرح عائد تھیں کہ عورتوں کی ہستی چہار دیواری تک محدود ہو کررہ گئی تھیں۔ صاحب کمال خواتین معاشرتی آداب رسوم کی وجہ سے اپنے ہنر کا سر عام اظہار نہ پسند کرتی تھیں اور نہ ہی اس کے لئے ذرائے اور وسائل موجود تھے ۔
مولاناابو الکلام آزاد ؒ کی سب سے بڑی بہن خدیجہ بیگم قسطنطنیہ میں پیداہوئیں تھیں۔ ان کی شادی نہیں ہوئی تھی اور جوانی میں ہی ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ مولانا آزاد نے اپنے ایک خط میں(مورخہ ۲۵ جولائی ۱۹۰۲ء،صفحہ ۲؎)میں لکھا ہے کہ جب والدہ (زینب) کا انتقال ہو گیا تو خدیجہ کی عمر چودہ برس کی تھی مگر خدا جانے کیوں اس زمانے میں ان کی شادی نہیں ہوئی اور اس نہ ہونے نے’’آج وہ فساد پیدا کردیا جس نے میری زندگی تلخ کردی ہے اورمیں خود کشی پرآمادہ ہوں۔فاطمہ بیگم مولانا آزاد کی دوسری بہن تھیں جو ۱۸۷۹ء میں مکہ میں پیداہوئیں۔ ان کاتخلص ’’آرزوؔ‘‘ تھا ۔ وہ اپنے نام سے زیادہ اپنے اس تخلص سے یا د کی جاتی ہیںمعین الدین عرب سے ان کی شادی ہوئی تھی اوربھوپال۸۲ برس کی عمر میں ۱۳؍ اپریل ۱۹۶۶ء کو ان انتقال ہوا۔
حنیفہ بیگم جن کا تخلص ’’آبرو‘‘ تھا ۱۸۸۱ءمیں پیدا ہوئیں۔ کلکتہ کے احمد ابراہم اورپھر واجد علی خاں سے ان کی شادی ہوئی۔ واجدعلی خاں سکریٹری حکومت بھوپال تھے۔ حنیفہ بیگم کا انتقال بھوپال میں ہی جون ۱۹۴۳ء میں ہوا۔مولانا آزاد کے احترام کا یہ حال تھا کہ یہ دونوں بہنیں مولانا کو ’’بھائی ‘‘کہہ کر بلا تی تھیں جب کہ عمر میںوہ ان سے چھوٹے تھے۔مولانا خیر الدین باوجود انتہائی مذہبی خیالات اور قدیم رجحانات کے لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم میںکوئی فرق رواں نہیں رکھتے تھے۔ ان کے خیال میں لڑکیوں کو زیور علم لڑکوں کی طرح آراستہ ہونا چاہئے۔بقول مولانا آزاد ، ’’انہوں نے ہماری بہنوں کو بھی اتنا ہی اور ایسے ہی تعلیم کا اہل سمجھا جیسا کہ ہم کو ۔‘‘مولانا خیر الدین نے سبھی کو ’’خلاصئہ ہندی‘‘ اور ’’مصدر فیوض‘‘ پڑھائے خلاصے میں نماز و روزہ کے مسائل ہیں اورمصدر فارسی قواعد کی کتاب ہے ۔اس کے بعد انہوں نے نحو گلستان و بوستان ، منطق ، شرع تہذیب فقہ میں ، وقایہ ، ہدایہ، آخرین ، مشکوٰۃاور دیگر کتابوں کے درس دئے جو اس وقت تک چلتے رہے کہ جب وہ سخت بیمار ہو گئے۔ اس کے بعد مولانا آزاد اور مولوی غلام یٰسین دیگر اساتذہ سے پڑھنے لگے۔آرزو بیگم اس کے بعد بھی مزید ڈیڑھ برس پڑھتی رہیںاور انہوں نے حدیث و فقہ کی تمام کتابیں ختم کر لیں البتہ آبرو بیگم مسلسل بیمار رہتی تھیں جس کی وجہ سے سلسلہ تعلیم منقطع ہو گیا۔آرزو بیگم پورے اعتما دکے ساتھ والد کے علمی کاموں ان کی اعانت کر تی تھیں ۔ بڑھاپے اور بیماری میں والد کی بینائی جب کمزور ہو گئی تو جس قدر کام لکھنے کا ہوتا، وہی انجام دیتی تھیں۔تصانیف و تالیفات کے مسوّدے لکھناان کو صاف کرنا ، خطوط کے جوابات لکھنا وغیرہ ان کے ذمہ تھا ۔ان کا خط والد کے خط سے اس قدر ملتا تھا کہ وہ والد کی جانب سے خطوط لکھتی رہیں مگر کبھی کسی کو شبہ بھی نہ ہوا۔ شادی تک وہ ان فرائض کو انجام دیتی رہیں۔خواتین یونیورسٹی کے قیام کی اولین تحریک کو ان کی مکمل حمایت حاصل تھی ۔ ۴؍ مارچ،۱۹۱۸ء میں لاہور میں آل انڈیا مسلم لیڈیز کانفرنس کے ایک سالانہ اجلاس میں ان کا پیغام پڑھا گیا جس میں تحریر تھا ، ’’یہ جلسہ مسلم یونیورسٹی سے مستدعی ہے کہ وہ سرمایہ مسلم یونیورسٹی سے کچھ حصہ خاص قوانی و قواعد کے ما تحد ایک ایسی جماعت مقرر کرنے کے لئے منتقل کریں جو لڑکیوں کے لئے اپنے خاص حالات و روایات کے مطابق مدار س کا اجراء ، ترتیب نصاب ، تالیف و تصنیف، اشاعت کتب نصاب اوراپنے معینہ نصاب میںا متحانات کا کام انجام دیں اوراس طرح تمام ہندوستا ن کی عورتوںکے لئے حقیقی معنوں میں ایک جامعہ اسلامیہ یا یونیورسٹی وجود میں آئے۔‘‘
اسی طرح سے ایک اور اہم تاریخی تقریر میں محترمہ فاطمہ بیگم آرزو نے بطورسکریٹری انجمن خواتین ہند بھوپال، نے کہا تھا کہ تمام مسلمان زن و مرد اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ خواتین کے لئے مخصوص طرز تعلیم اور نصاب و کتب کی ضرورت ہے سرکاری یا امدادی مدارس جن میں سرشتہ ٔ تعلیم کا مجوزہ نصاب پڑھایا جاتا ہے، خواتین کے لئے مفید نہیں ہے۔ اس کے علاوہ خواتین کی تعلیم میں مذہب کا بڑاحصہ ہونا چاہئے اوروہ قطعی مفقو د ہے ۔انہوں نے کہا کہ آج تک کانفرنس کے اجلاس شبعۂ تعلیم نسواں میں جس قدر صدارتی تقریریں ہوئی ہیں ،ان میں انہیں باتوں پرزور دیا گیا ہے۔ اس لئے یہ مسئلہ بالکل طے شدہ مسئلہ ہے۔ لیکن باوجود اس احساس کے ہنوز ایسی تدابیر پر عمل نہیں کیا گیاجو خواتین کی ضرورتوں کو پورا کرے جیسا کہ ان کے رزولوشن میں پیش کیا گیا ہے۔ انہوںنے پونہ کی زنانہ یونیورسٹی کی بھی مثال دی کہ جو بالکل آزاد ہے۔ لہٰذا ہندو بہنوں کے مقابلہ میں مسلمانو عورتوں کو پردے کے باعث اور بھی زیادہ ایسی آزاد یونیورسٹی کی ضرورت ہے۔
محمودہ بیگم عرف حنیفہ بیگم آبروبہنوں میں سب سے چھوٹی مگربھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ ان کی پیدائش ۱۸۴۸ء میں مکہ معظمہ میں ہوئی اور دیگر بہن بھائیوں کی طرح ان کی تعلیم بھی گھر پر ہوئی۔ انہوں نے عربی ،فارسی اوراردو پر عبور حاصل کیا وہ اکثر بیمار رہا کرتی تھیں جس کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ یہی وجہ رہی کہ درسی علوم و کتب میں وہ آرزو بیگم سے پیچھے رہ گئی۔ مگر بعد میں اپنی خدا دا د ذہات، صلاحیت اورشوق کی وجہ سے مطالعہ کے ذریعہ بہن سے بھی آگے بڑھ گئیں۔ انہیں فن خطابت ورثہ میں ملا تھا ۔ انہوں نے شاعری اور نثر نگاری میں جوہردکھائے۔ تعلیمی اور سماجی امور میں اپنی بہن سے زیادہ سرگرم اور فعال رہیں۔ بچپن سے ہی ان کے اور مولانا آزادؔ کے درمیان غیر معمولی انس تھا ۔ ان دونوں میں اتنی ذہنی قربت اور یگانگت تھی کہ جب مولانا آزاد مذہب اور روایت سے برگشتہ خاطر تھے اور ہر طرف سے مخالفت کا سلسلہ جاری تھا تو وہ تنہا ہستی تھی جنہوں نے انہیں کا ساتھ دیا اور ذہنی خلفشار کو دور کرنے کی کوشش کی۔ آبرو بیگ کی شادی والد کی زندگی میں احمد ابراہیم سے ہو گئی تھی ۔ وہ کلکتہ کے معروف تاجر مولو ی احمد علی فاروقی صاحب کے فرزند تھے ۔ وہ تعلیم نسواں کی زبردست حامی تھیں۔ ساتھ ہی ساتھ آبرو بیگم عشق نبی سے سرسارتھیں اور جب کبھی اس قسم کی محفلوں میں ذکر رسول فرماتی تو ان کے جذبات وارفتگی عیاں ہونے لگتے ۔ جوش خطابت میں ایسا سماں باندھتی کہ حاضرین مسحور ہو کر رہ جاتے۔ تحریک آزادی کے سلسلہ سے بھی انہوں نے بہت سی تقریریں کیں جن میں سے شاید کچھ آل انڈیا ریڈیو بھوپال کے آرکائیوز میں محفوظ ہیں۔ انہوں نے بھوپال میں ایک لیڈیز کلب کا قیام کیا جس کی وہ خود سکریٹری رہیں اور آرزو بیگم یعنی ان کی بڑی بہن اسسٹنٹ سکریٹری تھیںپیر اور جمعہ کو یہ کلب کھلتا تھا جس میں خواتین خانہ کو ہندوستان کی جدو جہد آزادی کی تحریک سے روشناس کرایا جاتا۔ان محفلوں میں نواب سلطان جہاں بیگم ، دلہن شاہ بانو بیگم واثرو رسوخ رکھنے والی دیگر خواتین مستقل مزاجی کے ساتھ نہ صرف قومی آزادبی بلکہ ،دستور پردہ ، پابندی رسم وواج، ہمدردی قوم، ہمسائگی ، تعلیم نسواں، تندرستی نسواں، تلاوت قرآن پاک وغیرہ جیسے موضوعات پر تقاریر بھی کرتیں۔محفل میلا کا انعقاد بھی کیا جاتا۔ ایک مرتبہ جب آبرو بیگم نے محفل میلاد میں اپنی خطابت کے جوہر دکھائے تو ایک خاتون زکیہ بیگم نے ایک خراج تحسین پیش کیا کہ مجلس میلاد شریف میں جو سماں انہوں نے دیکھا وہ ان کی نظروں پہلے کہیں نہیں گذرا ۔ انہوں نے ایک نظم ان کی تاریخ میں پڑھی جس کی شروعات کی لائنیں کچھ اس طرح ہیں :آبر و بیگم ہماری آبرو قوم ہیں/جو کہ حد درجہ کی پابند ِ صلوٰۃ صوم ہیں/ہو مبارک آپ کو اے انڈیا کی مسلمات/ان کے آنے سے ہوا دن عید اور شب برات/جیسے سر سید نے بنایا مردوں کو علم دوست/آبرو بیگم بنائیں گی ہمیں علم دوست/رات کوہم نے سنا میلاد میںجب ان کا وعظ/مولویِ رومی و جامی کا آیا یاد وعظ۔
مولانا ابو الکلام آزاد اپنی بہنوں کوبے حد چاہتے تھے اورباوجود جزمعاش ہونے کے، ان کے ایک خط بنام مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی سے پتہ چلا کہ وہ اپنی بہنوں کی خدمت میں رقم بھجواتے رہتے تھے ۔ بہنوں سے ملنے کے لئے ترستے رہتے تھے۔ اپنی سیاسی مصروفیات کی وجہ سے انہیں موقع ہی نہ ملتے۔ بہنیں ہی ان سے ملنے کے لئے آجا یا کرتی تھیں۔
آبرو بیگم کی سماجی و اصلاحی سرگرمیاں محض بھوپال تک محدود نہیں تھیں بلکہ ان کا دائرہ پورے بر صغیر تک وسیع تھا۔ ان کا اشتراک عمل آل انڈیا مسلم لیڈیز کانفرنس سے کہ جس کی بنیاد ۱۹۱۴ء میں پڑی تھی، ہمیشہ قائم رہا۔ آبرو بیگم کی تقاریر داد و تحسین بٹورنے کے لئے نہیں ہوتی تھی بلکہ ان کا نقطہ نظر ہمیشہ تعمیری اور اصلاحی ہوتا۔ ان کے خطبات پر مغز اور معنی آفرین ہوتے تھے ۔وہ تعلیم نسواں کو لازمی سمجھتی تھیںاور اس شعبے کو مردوں کو دستبرد سے آزادر کھنا چاہتی تھیں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ مرد خواتین کی تعلیم کی ضرورتوں اورتقاضوں کو پوری طرح سے نہیں سمجھ سکتے ۔ لہٰذا اسی نظام و نصاب تعلیم کو عورتوں پر عائد کرتے رہے ہیں جو کہ مردوں کے لئے رائج ہے ۔اسی طرح سے آبرو بیگم کی نہ صرف تمام تحریریں و تقریریں مقصدیت کی حامل ہیں بلکہ ان کی تمام زندگی ایثا ر و قربانی کی ایک پائندہ مثال ہے ۔