اسد مرزا
’’مصنوعی ذہانت کے شعبے میں ChatGPT نے ایک تہلکہ مچا دیا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس نے ہمیں یہ سوچنے پر بھی مجبور کر دیا ہے کہ انسان اپنی زندگی میں مصنوعی ذہانت کو کس حد تک شامل کرسکتا ہے۔‘‘
امریکہ کے شہر سان فرانسسکو میں مقیم مصنوعی ذہانت کی کمپنی OpenAI نے 30 نومبر 2022 کو ChatGPT نامی ایپ جاری کیا اور جنوری2023تک اس کے صارفین کی تعداد 100 ملین تک پہنچ گئی تھی۔ اس کے بعد اوپن اے آئی کے سائنس دانوں نے مائیکروسافٹ کے ساتھ10 بلین ڈالر کے معاہدے پر اتفاق کیا، جو اب اسے مائیکروسافٹ آفس سافٹ ویئر اور بنگ سرچ انجن میں ضم کر رہا ہے۔ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ ChatGPT کیا ہے اور ساتھ ہی یہ فیصلہ کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت آپ کی روز مرہ کی زندگی میں کس حد تک استعمال کی جانی چاہیے۔ دراصل ChatGPT بہت سے مصنوعی ذہانت، یا AI پلیٹ فارمز میں سے ایک ہے۔ AI گزشتہ کئی دہائیوں سے ہماری زندگی کے مختلف پہلوؤںپر شامل ہونے کے ساتھ ساتھ اثر انداز ہونے کی بھی کوشش کر رہا ہے اور فی الوقت وہ سائنس اور تعلیم کے شعبوں میں بہت حد تک داخل ہوچکی ہے۔
چیٹ جی پی ٹی قدرتی زبان کی پروسیسنگ کا استعمال کرتا ہے، اربوں ویب صفحات سے معلومات حاصل کرتا ہے اور الفاظ کو ایک ساتھ جوڑنے کے لیے پیشین گوئی کرنے والے ماڈل کا استعمال کرتا ہے۔ تاہم اس کی اپنی حدود ہیں۔
ایک مبصر کے مطابق اس کے منفی پہلوؤں کا تعلق درستگی سے ہے۔ جیسا کہ ChatGPT ماڈل کو دی جانے والی معلومات ستمبر 2021 میں بند ہو جاتی ہیں۔ اگر آپ پوچھیں کہ 2022 کا ورلڈ کپ کس نے جیتا ہے، تو اسے وہ معلومات نہیں معلوم ہوں گی کیونکہ اسے ماڈل میں فیڈ نہیں کیا گیا ہے۔ مزید برآں، تعصب بھی ایک مسئلہ ہے جو کہ ChatGPT میں شامل ہوسکتا ہے۔ اگرچہ ماہرین تعلیم طلبا میں ChatGPT کے بڑھتے ہوئے استعمال کے بارے میں فکر مند ہیں، لیکن پھر بھی انہیں یقین ہے کہ اس ٹیکنالوجی کو تعلیم کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اب اساتذہ کو اس بات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے کہ وہ اس ٹیکنالوجی کے ساتھ کیا کر سکتے ہیں، جو وہ پہلے نہیں کر سکتے تھے تاکہ اساتذہ کے لیے تدریسی عمل اور طلبہ کے لیے سیکھنے کے عمل کو بہتر بنایا جا سکے۔ حال ہی میں امریکہ میں کچھ ماہرین تعلیم نے ChatGPT کے ذریعے مہیا کرائی جانے والی معلومات کا مشاہدہ کرنے کے لیے ایک سروے کیا۔ اس سروے کے مطابق اگرچہ ChatGPT کی کارکردگی متاثر کن تھی، تاہم طلبا نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ طلبا نے ChatGPT کے 47.4% کے اسکور کے مقابلے میں مجموعی طور پر 76.7% اسکور کیا۔ 11.3% سوالات پر، ChatGPT نے طالب علم کی اوسط سے زیادہ اسکور کیا، خاص طور پر AIS اور آڈیٹنگ پر اچھا کام کیا۔ لیکن AI بوٹ نے ٹیکس، مالیاتی، اکاؤنٹنگ اور انتظامی جائزوں پر بدتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا، ممکنہ طور پر اس لیے کہ ChatGPT نے بعد کی قسم کے لیے درکار ریاضیاتی عمل کے ساتھ جدوجہد کی۔جب سوال کی قسم کی بات کی گئی تو، ChatGPT نے سچے/ جھوٹے سوالات (68.7% درست) اور متعدد انتخابی سوالات (59.5%) پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا، لیکن مختصر جواب والے سوالات (28.7% اور 39.1% کے درمیان) کے ساتھ جدوجہد کی۔ عام طور پر، ChatGPT کے لیے اعلیٰ درجے کے سوالات کا جواب دینا مشکل تھا۔ درحقیقت، بعض اوقات ChatGPT غلط جوابات کے لیے مستند تحریری وضاحت فراہم کرتا ہے، یا ایک ہی سوال کا مختلف طریقوں سے جواب دیتا ہے۔ محققین نے مطالعہ کے ذریعے کچھ دوسرے دلچسپ رجحانات کا بھی انکشاف کیا ہے، بشمول: ChatGPT ہمیشہ یہ نہیں پہچانتا ہے کہ وہ کب ریاضی کے سوال حل کر رہا ہے اور بے ہودہ غلطیاں کرتا ہے جیسے دو ہندسے جمع کرنے کے بجائے گھٹا دیتا ہے۔ جو مختلف نمبر شامل نہیں کرتا ہے، یا نمبروں کو غلط طریقے سے تقسیم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ChatGPT کبھی کبھی حقائق بناتا یا گڑھ بھی لیتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک حوالہ فراہم کرتے وقت، وہ ایک حقیقی نظر آنے والا حوالہ تیار کرتا ہے، جو مکمل طور پر من گھڑت ہے۔ یعنی کہ آپ کو وہ جو معلومات فراہم کررہا ہے وہ مکمل طور پر درست نہیں ہیں۔ لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ جو چیز سب سے زیادہ امید افزا ہے وہ یہ ہے کہ چیٹ بوٹ تدریس اور سیکھنے کو بہتر بنانے میں کس طرح مدد کر سکتا ہے، بشمول طالب علموں کے لیے مشقیں ڈیزائن کرنے اور جانچنے کی صلاحیت، یا شاید کسی پروجیکٹ کے کچھ حصوں کو ڈرافٹ کرنے کے لیے ChatGPT کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن دوسروں کا کہنا ہے کہ اساتذہ کو طالب علموں کو ایک نئی حقیقت کے لیے تیار کرنے کے لیے ChatGPT جیسی طاقتور ٹیکنالوجیز کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ تعلیم کے علاوہ جس دوسرے شعبے میں AI نے اپنی نمایاں کارکردگی دکھائی ہے وہ ہے صحت۔ آج کے دور میں ہمارے سائنس دانوں نے ایسی مشینیں ایجاد کرلی ہیں جو AI کی مدد سے نہ صرف ڈاکٹروں اور سرجنوں کی مدد کر رہی ہیں بلکہ سائنس دانوں نے ایسے روبوٹ بنالیے ہیں، جو کہ دیکھنے میںبالکل انسان کی طرح کام کرتے نظر آرہے ہیں۔ اب یہاں یہ سوال زیادہ ضروری ہے کہ ہم AI پرکب قدغن لگائیں کہ وہ ہماری زندگی میں زیادہ شامل نہ ہوسکے۔ محققین نے تحقیق کرکے یہ انداز لگایا ہے کہ مصنوعی ذہانت ایسی شکل اختیار کرنے جا رہی ہے، جس کو مستقبل میں قابو کرنا مشکل ہوگا اور اس کی انسانیت پر تباہ کن اثرات ظاہر ہوسکتے ہیں۔ سائنس دانوں کو یہ خوف ہے کہ اگر مصنوعی ذہانت کا نظام یہ سیکھ جائے کہ وہ اپنے تخلیق کاروں کے بنائے گئے اصول توڑ سکتا ہے تو وہ مزید خطرناک ہوجائے گا۔ دراصل جدت کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے جنون نے انسان کو انقلابی چیزیں تیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہم چوتھے صنعتی انقلاب سے دور سے گزر رہے ہیں۔ جس میں مصنوعی ذہانت کا استعمال بہت زیادہ بڑھ جائے گا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ہماری زندگیوں پر غالب آجائے گی۔ 1960 سے دنیا بھر کے سائنس دانوں اور تحقیق کاروں کے لیے یہ دلچسپ موضوع رہا ہے۔ قریباً نصف صدی کے اس سفر کی محنت کی بدولت آج انسان نے مصنوعی انسانی دماغ ’’ایم مورٹیلٹی ٹیکنالوجی‘‘یعنی کہ لافانی رہنے کا آغاز کردیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے سائنس اور ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے انسانی کاوش کو ’’آرٹی فیشیل انٹیلی جنس‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح سائنس دن جان میک کارتھی نے سب سے پہلے استعمال کی تھی۔یعنی کہ ہم AI اور اس سے بنائی گئی نئی ایپس اور ٹیکنالوجی کا استعمال کس حد تک کرتے ہیں اس کا فیصلہ خود ہمیں ہی لینا پڑے گا کیونکہ جس طریقے سے AIکا فروغ ہو رہا ہے ، اس سے یہ ظاہر ہے کہ آنے والے آئندہ 20-25 سالوں میں انسان AI کی مدد سے ایسی مشینیں یا روبوٹ بنانے میں کامیاب ہوجائے گا جو کہ بالکل انسانوں کی طرح سوچ سکیں، موازنہ کرسکیں اور فیصلہ کرسکیں۔ لیکن جس دن ایسا ممکن ہوسکے گا، وہ دن ہمارے لیے بہت بڑی چنوتی کا دن ہوگا۔ کیونکہ اس کے بعد کیا ہوگا وہ بہت سی امریکن فلموں میں دکھایا جاچکا ہے کہ روبوٹ انسانوں پر حاوی ہوگئے ہیں اور انسان روبوٹ کے قیدی بن کر رہ گئے ہیں۔
ہم یہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ AI کی مدد سے ہم کیا چیز حاصل کرسکتے ہیں لیکن اس کا فیصلہ کہ ہم AIکو کس حد تک استعمال کریں گے ہمیں خود لینا ہوگا ورنہ مستقبل قریب میں ہوسکتا ہے کہ ہم درحقیقت روبوٹس کے قیدی بن کے رہ جائیں۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں)