اسرائیل: جبرواستبداد کے 75سال

0

اسرائیل نے 25اپریل کو اپنا 75واں یوم آزادی منا یا مگر اس مرتبہ کے آزادی کے جشن پر اسرائیل کے اندر اور یہودیوں کے درمیان بھی کافی مایوسی نظرآئی۔ اسرائیل کی عوام کو اندیشہ ہے، بنجا من نتین یا ہو کی قیادت والی سرکار اب تک کی سب سے رجعت پسند حکومت ، اسرائیل کے نظام حکومت کی بنیادی اساس کو بھی منہدم کرنے کے درپے ہے۔ پچھلے دنوں جوڈیشیل اصلاحات کے نام پر جو کھیل موجودہ حکومت نے کھیلنے کی کوشش کی ہے، اس پر یہودیو ں نے یک زبان ہو کر احتجاج کیا۔ اسرائیل کی سڑکوں پر غیر معمولی مناظر دیکھے گئے۔ ایک وقت تو ایسا لگا کہ شاید اسرائیل خود اپنے وجود کے بوجھ کے نیچے مسمار ہوجائے گا ۔ اگرچہ آج اسرائیل مستحکم اور طاقتور ملک ہے مگر اس کی بنیاد استبداد اور ظلم پر رکھی ہوئی ہے، وہ صرف اور صرف نسل پرستی پر کھڑا ہے۔ 75سال کی تاریخ کا ہر دن مذہبی نسلی بنیادوں پر قائم ملک کی دردناک کہانی سنانا ہے۔
اسرائیل کی راجدھانی یروشلم دنیا تمام ابراہیمی مذاہب کا مرکز ہے اور پوری دنیا کے مسلمان، عیسائی اور یہودی اس شہر اور اس خطہ کو اپنی اپنی مذہبی اور روحانی اہمیت کا مرکز اور محورمانتے ہے، اسرائیل کی جارح حکومت نے اور بین الاقوامی شہر کی اہمیت کو نہ سمجھتے ہوئے اپنے تنگ ذہنی پر مبنی عزائم کو فروغ دے رہی ہے اور پر اسرائیل کی صہیونی حکومت اپنا اصل جارح کا مکروہ چہرہ دکھارہی ہے، اس مرتبہ کے ایسٹر کے موقع اور رمضان پر قابض فوج نے حسب روایت جارحیت کے ریکارڈ توڑ دیتے اور پوری دنیا کے لیے امن شانتی او ررواداری کے اس مقدس شہرمیں اور بیت المقدس میں خواتین بچے اور بوڑھے شامل تھے ۔ سب کے ساتھ بدسلوکی کی ، دوران نماز انتہائی جدید ہتھیاروں سے لیس فوجیوں نے زدکوب کرکے مسلمانوں کو مسجد سے باہر نکلنے کے لیے مجبور کیا۔ اسرائیل کسی مذہب کے ساتھ رواداری اور صلہ رحمی کا قائل نہیں ہے ۔ عیسائی عقیدت مندوں کے ساتھ جو سلوک اس مرتبہ ایسٹر کے موقع پر کیا گیا اس کو پوری دنیا نے دیکھا اور یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا، دنیا بھر کے عیسائیوں کے اہم ترین تہوار پر بیت الحلم میں عقیدت مندوں کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جس کے بارے میں بتایا جا تا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام یہی پیدا ہوئے تھے۔ اس سے قبل انسانیت جمہوریت پسندی میڈیا کی آزادی کا خون ہوتے پوری دنیا کے لوگوں نے براہ راست ویڈیو میں دیکھا جب ایک عالمی شہریت یافتہ ٹیلی ویژن چینل کی خاتون فلسطینی ، مگر عیسائی فرقہ سے تعلق رکھنے والی عرب صحافی، جو امریکی شہری بھی تھیں، کو گولی ماری گئی اور یہی نہیں بلکہ اس کے جنازے کی بھی توہین کی گئی۔ اس جارح ملک کی دیدہ دلیری کے آگے امریکہ جیسی سپر پاور واجبی سا احتجاج درج کرا کر رہ گئی۔
پورے رمضان اور اس سے پہلے کے دور میں اسرائیل کی افواج، انتظامیہ اور حکومت کی شدت میں کمی نہیں آئی اور یہ شدت بڑھتی ہی جارہی ہے۔ اسرائیل کی موجودہ حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے ، حالات سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں۔ نئے حکمرانوں کے دور میں شدت پسند یہودی زیادہ حوصلے دکھارہے ہیں، دوسرے ملکوں سے لا کر بسا ئے گئے یہودی راستہ چلتی خواتین اور بچوں سے بدسلوکی کی کرتے ہیں اور’’پاس اور‘‘ کے موقع پر دیوار گریہ پر ہجوم جمع کرنے کا نیا رواج شرو ع ہوگیا ہے۔ عقیدت مندوں کے علاوہ شرپسند صہیونیوں کے حربے اور ہتھکنڈے غیر متوقع نہیں تھے یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی جسارت دکھانے والے مصر اور اردن نے مذکورہ بالا مواقع پر امن برقرار رکھنے کے لیے اعلیٰ سطحی مذاکرات کیے مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ ہوا وہی جوہر سال بھی ہوتا تھا ، وہ اس سال ہوا ۔ بس فرق اتنا تھا کہ غزہ پر اس طرح بمباری نہیں ہوئی جس طرح پچھلے سال اور اس سے قبل ہوئی تھی۔ شاید اس ’ صبر ضبط‘ کے پس پشت یوکرین جنگ سے پیدا ہونے والی بین الاقوامی سیاسی تبدیلیاں ہیں جن سے مجبور ہو کر- امریکہ اور اس کے حواریوں کے دبائو کی وجہ سے اسرائیل کو باز رکھا گیا کہ وہ غزہ یا لبنان پر بم نہ برسائیں۔ مغربی ایشیا طویل عرصہ سے ہی میدان جنگ بنا ہوا ہے، کبھی دو ملک آپس میں لڑ رہے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی جستجو کررہے ہوتے ہیں یا امریکہ اور کے فوجی حلیف بطور خاص، برطانیہ وغیرہ ان ملکوں کے معصوم بھولے بھالے عوام پر بموں ، میزائیلوں کی بارش کررہے ہوتے ہیں۔ اپنی حکومتیں بچانے کی فکر میں مصروف ان ملکوں کے حکمراں مغربی اقوام کی فوجی طاقت اور بین الاقوامی ادارے جسے اقوام متحدہ کے موجودہ ڈھانچہ کی مجبوریوں اور منمانے پر مبنی نظام کی بے بسی کی وجہ سے جنبش لب کی جرأت نہیں دکھاپاتے تھے، عراق، شام، لبنان ، افغانستان، لیبیا پر بمباری ہوتی رہی اور کوئی بھی انصاف پسند، انسانی حقوق کا حامی، جمہوریت کا علمبردار مغربی نہ مشرقی، نہ کسی اور سمت کا ملک یا فوجی طاقت کچھ نہیں کرپائی ۔ عراق پر جارحیت کے 20سال پورے ہونے کے بعد جو حقائق سامنے آرہے ہیں اور چشم کشا ہیں۔
سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا اس جدید دور میں جب مویشیوں کے انسانی حقوق اور بنیادی حقوق کی فریاد لگائی جاتی ہے۔ یہ سرزمین مقدس اب ان مہذب اقوام کی مصلحت کوشی کا اسی طرح شکار رہے گی۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS