مولانا مفتی خلیل احمد
اسلام، خواتین کیلئے ان صحابیات کی مثالیں پیش کرتا ہے جنہوں نے اپنے آپ کو زیور علم سے آراستہ کر لیا تھا، علم وفضل میں اس قدر فائق ہو گئیں تھیں کہ خودا کا بر صحابہ حل مسائل کیلئے ان سے رجوع ہوتے۔ پھر تابعات کے علم و فضل سے بھی تاریخ اسلام کے اوراق جگمگا رہے ہیں۔ ایسے میں ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی لڑکیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں۔اس کے لئے ماں باپ ابتداء ہی سے اپنی اولاد کے دلوں میں مذہب حق کی محبت پیدا کریں اور انہیں اسلامی احکام کی خوبیوں سے باخبر کریں۔ مسلمان رسوم و رواج اور اغیار کے طور طریق سے اپنے آپ کو بچائیں۔ آپسی معاملات کو محبت اور سہولت کی بنیاد پر طئے کریں جیسا کہ حدیث شریف میں حکم دیا گیا ہے۔ یسروا ولا تعسروا۔ یعنی آسانی پیدا کرو‘ تنگی پیدا مت کرو۔
مسلمان اپنے اندر اخلاق و کردار پیدا کریں۔ امانت و دیانت کو اس طرح اپنا شعار بنا ئیں کہ اغیار بھی ہمارے کردار کو دیکھ کر متاثر ہوں۔ بیوی بچوں کے حقوق‘ ماں باپ کے حقوق‘ رشتہ داروں اور دوست و احباب کے حقوق کو کامل طورپر ادا کریں۔اسلام تو قیامت تک کی خواتین کیلئے صحابیات کی وہ مثالیں پیش کرتا ہے جنہوں نے اپنے آپ کو زیور علم سے آراستہ کر لیا تھا‘ علم و فضل میں اس قدر فائق ہو گئیں تھیں کہ خود اکابر صحابہ حل مسائل کیلئے ان سے رجوع ہوتے۔ پھر تابعات کے علم و فضل سے بھی تاریخ اسلام کے اور اق جگمگا ر ہے ہیں ‘ ان سب مثالوں کے باوجود عورتوں کی تعلیم کی مخالفت کرنا عجیب معلوم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اصلاح کیلئے بھی اسلام نے مناسب اور معقول طریقوں کی طرف رہنمائی کی ہے‘ عہدنبویؐ میں کئی ایک اصلاحات ہوئے کیا ہمارے سامنے اس کی مثال نہیں ہے؟ پھر بربریت آمیز راہ کو اپنانا کہاں تک درست ہے؟۔ان حالات میں ہمیں اپنا جائزہ لینا ہوگا کہ آج مسلم معاشرہ کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ پہلے تو ہمارے گھروں میں اسلامی تربیت نہیں اوپر سے مخلوط تعلیم کا جو رواج چل پڑا ہے وہ مسلم بچیوں کے لئے سم قاتل ثابت ہورہا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ مسلم لڑ کے تعلیمی میدان میں پیچھے ہوتے جارہے ہیں، ان کا فیصد ہر سال گھٹتا جا رہا ہے اور لڑکیاں آگے بڑھتی جارہی ہیں‘ ان کا فیصد بڑھتا جارہا ہے۔ اس کی وجہ سے لڑکیاں زیادہ تر مغربی تہذیب کی طرف مائل ہوتی جارہی ہیں‘ بعض تو نعوذ باللہ بالکلیہ طورپر مرتد ہورہی ہیں اور بعض آزادی فکر کے تحت غیر مسلموں سے اس طرح نکاح کر رہی ہیں کہ وہ اپنے مذہب پر قائم ہیں اور غیر مسلم اپنے مذہب پر قائم ہے اس کا نام ’’انسانیت کی بنیاد پر نکاح‘‘ دیا جارہا ہے اور اس کو ارتداد میں سمجھا جارہا ہے۔
مسلم معاشرہ میں معاشی انحطاط و پسماندگی کے ساتھ ساتھ رسوم و رواج کی وجہ سے بڑی خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ ماحول کے اثرات کی وجہ سے گھوڑا جوڑا ‘ لین دین اور جہیز کے مطالبات اور دیگر فرمائشیں اس قدر بڑھا چکے ہیں کہ اس کا علاج مشکل نظر آتا ہے، ان کا غریب تو کجا متوسط آدمی بھی متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس سے متعلق جلسے ، سمینار‘ اخبارات و رسائل میں مضامین و بیانات‘ ٹی وی ریڈیو پر تقاریر و اشتہارات سبھی کچھ ہورہے ہیں مگر کسی چیز کا کچھ اثر ہوتا نظر نہیں آتا۔ آج جس قدر مسائل ہم کو نظر آرہے ہیں، ہوا کا رخ تو یہ بتا رہا ہے کہ آئندہ اس سے زیادہ سنگین حالات پیدا ہونے والے ہیں۔ مسلمان وہی ہے جس کے دل میں دین کی حقیقت اور ایمان کی صداقت اتر جائے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہرنبی کے ابتدائی ایمان لانے والے غریب غرباء ر ہے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی تبلیغ نے ان لوگوں کے دل کی کیفیت کو بدل دیا اور وہ حقیقت آشنا ہو گئے۔ اس کے بعد دنیا کی کوئی لذت ان کو متاثر نہ کر سکی اور نہ ہی کوئی مصیبت ان کو اپنے عزم سے ہٹا سکی۔
تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں صحابہ کرام پر اغیار کی جانب سے طرح طرح کے ظلم و ستم ڈھائے گئے ، جزیرۂ عرب کی تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر سینے پر گرم پتھر رکھ دیئے جاتے اور کبھی بوریے میں بند کر کے دھواں دیا جاتا اور کبھی مال و متاع اور زمین و جائیداد پر قبضہ کرکے بے وطن کر دیا جاتا۔ الغرض دین سے منحرف کرنے کے لئے وحشت ناک زیادتیاں کی جاتیں لیکن وہ حقیقت آشنا شخصیات ہر مصیبت کو گوارا کرتیں۔ ہر تکلیف کو برداشت کرتیں اور کہتیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ یعنی بے شک ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔دین کی تبلیغ واشاعت کا کام عہد در عہد آج تک چلا آ رہا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ زمانہ جوں جوں زمانہ رسالت سے دور ہوتا جا رہا ہے اور اسی طرح حالات میں تیزی سے تبدیلی واقع ہوتی جارہی ہے اور فتنوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری وصیتوں میں عورتوں کے حقوق سے متعلق وصیت فرمائی۔ ان پر ظلم و زیادتی سے منع فرمایا۔ اسلامی تعلیمات کے اعتبار سے تعلیم عورت کا حق ہے اور ہر عورت کو اس کا حق ملناچاہئے۔ اگر اس کے حق کو ختم کرنے کی کوشش کریں اور اس پر تسلط‘ جبر و دباؤ کا رویہ اختیار کریں تو یہ سراسر اسلامی تعلیمات کے منافی ہے‘ ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے اعمال کا سنجیدگی سے جائزہ لیں‘ اخلاص نیت کے ساتھ اصلاح کی طرف توجہ کریں اور حال و ماحول کو پر امن و پر سکون بنائیں۔ اللہ تعالیٰ ہدایت عطاء کرے اور مسلمانوں کو اتباع شریعت کی توفیق دے۔