لیلۃ القدر: نزول القرآن اور مکمل سلامتی کی رات

0

سید خالد حسین (سنگاپور)
’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔‘‘ (القرآن: سورۃ البقرہ، آیت 185)
جیسا کہ اس آیت سے واضح ہے، قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے آخری نبی محمد مصطفیٰ ؐ پر رمضان کے مقدس مہینے میں نازل ہوا۔ رمضان المبارک کی ایک خاص رات میں جبرائیل علیہ السلام اسے وحی کے ذریعے حضور ؐ کے پاس لائے۔ قرآن مجید میں اس رات کو لیلۃالقدر اور لیلۃ المبارکہ (انتہائی بابرکت رات) قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ہم نے اِس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔‘‘ (سورۃ القدر، آیت 1) اور ’’ہم نے اسے ایک بڑی خیر و برکت والی رات میں نازل کیا ہے‘‘(سورۃ الدخان، آیت 3)
قرآن مجید حضور ؐ پر 23 سال عرصے کی مدت میں تدریجاً نازل ہوا، جس کا آغاز آپ ؐ کی 40 سال کی عمر میں نبوت عطا سے ہوا تھا۔ چنانچہ مندرجہ بالا دو آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام غار حرا میں حضورؐ کے پاس پہلی بار وحی لیلۃ القدر میں لے کر آئے تھے۔
لیلۃ القدر کی اہمیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ فرشتے اور روح اْس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں۔ وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک۔” (سورۃ القدر، آیت 3-5)
قرآن کریم کے بعض مفسرین نے یہاں ’’قدر‘‘ سے مراد تقدیر سے تعبیر کیا ہے، یعنی یہ وہ رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ تقدیر کے فیصلے فرشتوں کے سپرد کرتا ہے۔ اس کی تائید سورۃ الدخان کی آیت نمبر 3 سے ہوتی ہے: ’’یہ وہ رات تھی جس میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ ہمارے حکم سے صادر کیا جاتا ہے۔‘‘ اس کے برعکس امام ابن شہاب الزہری فرماتے ہیں کہ ’’قدر‘‘ سے مراد عزت و تکریم ہے۔ اس معنی کی تائید ان الفاظ سے ہوتی ہے:’’لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے‘‘۔
جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ یہ کون سی رات تھی تو جمہور علماء کا عقیدہ ہے کہ رمضان المبارک کی آخری دس راتوں میں سے ایک طاق رات لیلۃ القدر ہے، اور ان میں سے اکثر علماء کہتے ہیں کہ رمضان کی 27 ویں رات لیلۃ القدر ہے۔ بعض صحابہ کرام سے مروی بعض معتبر احادیث کی بنیاد پر اول دور کے علماء کی ایک بڑی تعداد 27 رمضان کو لیلۃ القدر مانتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا: ’’لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے تلاش کرو۔” (بخاری، مسلم، احمد، ترمذی) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور عبداللہ بن عمر نے یہ بھی روایت کیا ہے کہ رسول اللہؐ نے اپنی زندگی میں رمضان کی آخری دس راتوں میں مسجد میں اعتکاف کیا تھا۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اس (لیلۃ القدر) کو رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو جب مہینے میں ابھی نو دن باقی ہوں یا سات دن یا پانچ دن۔” (بخاری) اکثر علماء نے اس کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ اس سے رسول اللہؐ نے طاق راتیں مراد لی ہیں۔ غالباً اللہ اور اس کے رسول ؐ نے کسی ایک رات کو لیلۃ القدر اس لیے متعین نہیں کیا ہے تاکہ لوگ لیلۃ القدر کی فضیلت سے مستفید ہونے کے شوق میں زیادہ سے زیادہ راتیں عبادت و ریاضت میں گزاریں اور صرف ایک رات کے ساتھ قناعت نہ کریں۔ بخاری اور مشکوۃ کی روایت کے مطابق عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں شب قدر کی خبر دینے کے لیے تشریف لا رہے تھے کہ دو مسلمان آپس میں جھگڑا کرنے لگے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آیا تھا کہ تمہیں شب قدر بتا دوں لیکن فلاں فلاں نے آپس میں جھگڑا کر لیا۔ پس اس کا علم اٹھا لیا گیا اور امید یہی ہے کہ تمہارے حق میں یہی بہتر ہو گا۔ پس اب تم اس کی تلاش (آخری عشرہ کی) نو یا سات یا پانچ (کی راتوں) میں کیا کرو۔‘‘
دور اول سے آج تک مسلمانوں کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ ہر زمانے میں رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اس رات کی تلاش میں عبادت کے ذریعے راتوں کا احیاء کرتے ہیں، چونکہ یہ آخری عشرے میں بھی متعین طور پر کسی ایک رات میں نہیں ہوتی، بدلتی رہتی ہے ،لہٰذا حدیث مبارکہ کے اندر اس رات کی علامات کے طور پر بعض نشانیاں بتائی گئی ہیں کہ وہ رات کھلی ہوئی چمکدار ہوتی ہے، صاف شفاف ہوتی ہے، نہ تو زیادہ گرم ،نہ زیادہ ٹھنڈی ہوتی ہے۔
حضور ؐ نے لیلۃالقدر کے نیک اعمال اور عبادت کی بڑی فضیلت اور خوبیاں بیان فرمائی ہے۔ بخاری اور مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا: ’’جس نے شبِ قدر میں حالت ایمان میں ثواب کی غرض سے قیام کیا اْس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔‘‘
مسند احمد میں عبادہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: “لیلۃ القدر رمضان کی آخری عشرہ کی راتوں میں سے ہے۔ جو شخص ان (راتوں) کے ثواب سے فائدہ اٹھانے کے لیے نماز کے لیے کھڑا ہوا، اللہ تعالیٰ اس کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ معاف کر دے گا۔‘‘
اْمتِ محمدؐ کو جن انعامات اور اعزازات سے سرفراز فرمایا گیا ہے ان میں یہ عظیم ترین انعام لیلۃ القدر بھی ہے۔ اس رات میں عبادت کا اجر و ثواب ایک ہزار مہینے کی عبادت و ریاضت سے بڑھ کر ہے۔ اس کی مقدار سالوں کے اعتبار سے تراسی سال چار ماہ بنتی ہے، جسے قرآن نے ’’لیلۃ القدر خیرمن الف شہر‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔
لیلۃ القدر کے دوران زمین کا آسمان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے بھر جاتا ہے، کچھ مومنوں کی دعا کی وجہ سے اور کچھ فرشتوں کے نزول کی وجہ سے جن میں حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی ہیں اور جن کا ذکر ان کی منفرد عظمت، عزت اور قابلیت کے پیش نظر مندرجہ بالا سورۃ القدر کی آیت میں کیا گیا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا کہ لیلۃ القدر میں جبرائیل علیہ السلام بے شمار فرشتوں کے ساتھ اللہ کے حکم سے زمین پر اترتے ہیں اور جو لوگ نماز، عبادت اور اللہ کے ذکر میں مشغول پائے جاتے ہیں ان پر اللہ کی رحمت کی دعا کرتے ہیں۔ یہ رات اپنے آغاز سے صبح صادق کے آغاز تک سراپا سلامتی ہے، تمام رات ملائکہ کی طرف سیاہل ایمان کے ساتھ سلام وکلام ہوتا رہتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سلامتی رات کے کسی حصے میں مخصوص نہیں ہے، بلکہ اس کی برکات صبح ہونے تک ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔
ایک حدیث میں آپؐ نے ارشاد فرمایا: “جو شخص شبِ قدر سے محروم ہوگیا، وہ گویا پوری بھلائی سے محروم ہوگیا، اور شبِ قدر کی خیر سے وہی محروم ہوتا ہے جو کامل محروم ہو۔” (سنن ابنِ ماجہ)
خوش قسمتی سے ہم آخری عشرے میں ہیں اورشب قدر کی قدر و منزلت کے پیش نظر شب قدر کے حصول میں اپنی توانائیاں صرف کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری عبادتوں اور دعائوں کو قبول فرمائے۔ ہمیں چاہیے کہ جہاں اپنی اور اپنے رشتے داروں کے لیے دنیا و آخرت کی بھلائیاں مانگیں وہاں اپنے ملک میں امن و امان اور عالم اسلام کے مسلمانوں کی خیر و فلاح کے لیے دعائیں مانگیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS