عبدالماجد نظامی: مولانا رابع حسنی ندویؒ کی وفات سے ایک عہد کا خاتمہ

0

عبدالماجد نظامی

بیسویں صدی کے بالکل آخری دن یعنی 31دسمبر 1999کو جب مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ کا انتقال ہوا تھا تو اس وقت مسلم دنیا میں غم اور سوگ کا ماحول چھا گیا تھا اور یہ گمان کیا جا رہا تھا کہ شاید ان کا بدل مل پانا ممکن نہیں ہوگا۔ اس گمان میں گرچہ پوری سچائی اور حقیقت پسندی پائی جاتی تھی اور یقینا مولانا علی میاںؒ کا نعم البدل آج تک اس ملک کو نہیں مل سکا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اتنی ہمہ جہت شخصیت صدی میں پیدا ہوتی ہے جنہیں دینی و دنیوی علوم پر یکساں دسترس حاصل ہو اور جن کی ایمانی غیرت و حمیت اس قدر بلند ہو کہ دنیا کے شہنشاہوں کے سامنے بھی اپنی ایمانی جرأت کا اظہار کرنے سے ایک لمحہ کے لیے نہ ہچکچاتے ہوں۔ جن کی مومنانہ فراست کا عالم یہ ہو کہ وہ حالات کے رُخ کو پرکھنے اور اس کی روشنی میں مستقبل کا لائحۂ عمل طے کرنے کا ہنر رکھتے ہوں۔ جیسا کہ مولانا علی میاںؒ نے اپنی زندگی میں کیا اور اپنی قوم کے لوگوں اور اس ملک کے عوام کو جن خطرات سے آگاہ کیا تھا، وہ آج حقیقت بن کر مسلمانان ہند کے ہوش اڑا رہے ہیں کیونکہ ان کی پیش گوئیوں پر توجہ نہیں دی گئی تھی۔ البتہ مولانا علی میاںؒ نے اپنی زندگی میں اس مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا خاص التزام فرمایا تھا کہ مسلم نوجوانوں کی ایک ایسی نسل تیار کر دی جائے جو ان کی عدم موجودگی میں ملک و ملت کی رہنمائی کا فریضہ بخوبی انجام دے سکے۔ حضرت مولانا رابع حسنی ندویؒ ایسے نوجوانوں کے سرخیل کے طور پر ابھرے اور چونکہ ان کی دینی، فکری اور علمی و ادبی تربیت ان کے باکمال ماموں جان حکیم عبد العلیؒ اور مولانا علی میاںؒ کی رہنمائی میں تکمیل پائی تھی، اس لیے ان میں وہی ولی اللہی دینی جوش، فکری صلابت اور علمی بلندی پائی جاتی تھی جو ان کے خاندان کا تمغۂ امتیاز بن چکا ہے۔ مولانا رابع حسنی ندویؒ نے ندوہ جیسے عالمی اسلامی ادارہ کی قیادت کی ذمہ داری ایسے وقت میں سنبھالی تھی جب صرف ملکی سطح پر ہی نہیں بلکہ عالمی پیمانہ پر اسلام اور مسلمانوں کو کٹہرہ میں کھڑا کیا جا رہا تھا اور امریکہ پر نائن الیون حملہ کی وجہ سے اسلاموفوبیا کا جو طوفان مغرب کی اسلام دشمنی کے نتیجہ میں اٹھ چکا تھا، اس کی زد میں اسلامی مدارس کو خاص طور سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ خود ہندوستان میں تشدد پسند ہندوتو کی سیاست حکومت و اقتدار پر قابض تھی اور مدارس اسلامیہ ہند پر بیجا طور پر یہ الزام عائد کیا جاتا تھا کہ یہ مدارس دہشت گردی کے اڈے ہیں اور انہیں بند ہونا چاہیے۔ ایسے مشکل ترین تاریخی مرحلہ میں مولانا نے مدارس اسلامیہ سے وابستہ افراد اور تنظیموں میں یہ حوصلہ پیدا کیا کہ وہ جرأتمندی کے ساتھ اس منفی پروپیگنڈہ کا نہ صرف مقابلہ کریں بلکہ پوری قوت کے ساتھ یہ پیغام سماج اور معاشرہ میں پھیلائیں کہ اسلام پر دہشت گردی کا الزام صرف نام نہاد تنگ نظر مغربی مفکرین اور ان کے حاشیہ بردار ہندوستانی دانشوروں کی ذہن کی اُپج ہے جو اسلام سے ناواقفیت بلکہ دانستہ عداوت پر مبنی ہے۔ مولانا نے اس مقصد کی خاطر عملی کوشش یہ کی کہ مدارس اسلامیہ پر عوام کا اعتماد بحال کیا جائے اور خود علماء کے اندر یہ شعور بیدار کیا جائے کہ وہ پروپیگنڈوں سے متاثر ہوکر مدارس سے وابستگی میں خوف و عار محسوس نہ کریں بلکہ پہلے سے زیادہ قوت اور خود اعتمادی کے ساتھ مدارس کی اہمیت و افادیت کو ملک میں ثابت کریں۔ اس کے لیے خود ندوۃ العلماء میں بڑے پیمانہ پر توسیع کا کام کیا گیا، طلبا کے لیے نئے ہاسٹلوں کی تعمیر عمل میں آئی، ندوہ کی شاندار مسجد کی توسیع ہوئی اور ندوہ سے ملحق اداروں اور مدارس میں بھی اس کام کو خوب ترقی ملی۔ اس انتھک کوشش اور بے لچک قیادت کا اثر یہ ہوا کہ اسلاموفوبیا کا سیلاب ہندوستانی مدارس کو بہا نہ سکا بلکہ پہلے سے زیادہ بڑی تعداد میں ہندوستانی مسلمانوں نے اپنے جگر گوشوں کو چمکتی دمکتی ماڈرن کلاسوں کے بجائے مدارس کی سادہ بوریوں پر بیٹھنے اور اسلام سے اپنا گہرا علمی و فکری ربط پیدا کرنے کے لیے بھیجنا شروع کر دیا۔ اس کے علاوہ دوسرا چیلنج ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے یہ تھا کہ ان کے پرسنل لاء کو کیسے مضبوط قیادت فراہم کرائی جائے۔ چونکہ مولانا رابع صاحب سے قبل مولانا مجاہدالاسلام قاسمی بورڈ کی صدارت فرما رہے تھے جو اپنی فقہی بصیرت میں امتیازی شان رکھتے تھے۔ اس حساس عہدہ کے لیے بھی جب ایسی شخصیت کی تلاش شروع ہوئی جو تمام پہلوؤں سے اس کی کمر توڑ ذمہ داریوں کو سنبھالنے کی اہل ہو تو متفقہ طور پر تمام ممبران کی نظر مولانا رابع حسنی ندویؒ پر ہی جم گئی اور ان کی شخصیت سے ایسا لگاؤ اور اعتماد محسوس کیا گیا کہ اتفاق رائے سے2002کے حیدرآباد اجلاس میں آپ کو پرسنل لاء بورڈ کا صدر منتخب کر لیا۔ اس میں ان کی علمی بلندی، فکری پختگی اور دینی غیرت کے علاوہ امت کے مسائل کے تئیں ان کی مسلسل بے چینی اور ان کا حل تلاش کرنے کی لگن جیسے اوصاف شامل تھے۔ ندوہ کی نظامت کے ساتھ ساتھ پرسنل لاء بورڈ کی قیادت بھی آپ نے عمر کے آخری لمحہ تک فرمائی۔ گرچہ پرسنل لاء بورڈ کو بابری مسجد تنازع پر سپریم کورٹ کے فیصلہ اور طلاق ثلاثہ معاملوں پر تنقیدوں کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن حالات پر گہرائی سے نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ ایسے مشکل دور میں اس سے بہتر قیادت کی امید نہیں کی جا سکتی تھی جس میں مولانا کی دل پذیر شخصیت کو بڑا دخل تھا۔ اس کے علاوہ آپ نے آکسفورڈ سے لے کر ہندوستان کے بے شمار تصنیفی و تحقیقی اداروں کی رہنمائی اور سرپرستی فرمائی اور انہیں وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے والے لٹریچر کی فراہمی کی طرف راغب کیا جس میں وہ پورے طور پر کامیاب ہوئے۔ خود ان کا اپنا سیّال قلم اس روانی سے چلتا رہا ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ اتنی مشغولیات کے باوجود کوئی شخص اتنی وقیع تصنیفات اتنی بڑی تعداد میں کیسے لکھ سکتا ہے۔ لیکن چونکہ انہوں نے اپنی پوری زندگی نظم و ضبط کے ساتھ گزاری تھی اور علم و ادب سے اپنا گہرا رشتہ قائم کیا تھا، اس لیے علمی مقالات و تصنیفات منظر عام پر لانا ان کی طبیعت کا خاصہ بن چکا تھا۔ وہ ایک کامیاب مصنف و ادیب اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب معلم تھے جنہوں نے اپنے طلبا کی ایک بڑی کھیپ تیار کردی ہے جو ان کے بعد بھی ان کے کاموں کو آگے بڑھاتے رہیں گے اور اسلام کے چراغ کو ہر آندھی میں بجھنے سے بچانے کا فریضہ انجام دیتے رہیں گے۔ ان کی کتابیں جو جغرافیۂ عرب، عربی ادب و تاریخ، سیرت و سوانح اور قرآن و سنت تمام موضوعات پر موجود ہیں، آئندہ نسلوں کی رہنمائی کا کام انجام دیں گی۔ لیکن اس کے باوجود ہندوستان کے مسلمان اور ان کے ادارے مولانا رابع حسنی ندویؒ کی موت سے پیدا ہونے والے خلا کو ہمیشہ محسوس کریں گے۔ اب یہ ذمہ داری ان کے بعد کی نسل کی ہے کہ وہ ان کے کام بحسن و خوبی انجام دے اور ندوہ و پرسنل لاء بورڈ کی قیادت کے لیے ایسی شخصیتوں کا انتخاب کرے جو اس مشکل دور میں امت کو صحیح سمت میں لے جانے کی اہلیت رکھتی ہوں۔ ان کی موت سے ایک شاندار عہد کا خاتمہ ضرور ہوا ہے لیکن یہ امت بانجھ نہیں ہے اور اس کی پوری امید کی جاسکتی ہے کہ اللہ پاک ان کا نعم البدل امت اسلامیہ ہند کو فراہم کرے گا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS