کرناٹک میں انتخابی ماحول گرم ہوگیا ہے۔ ایک طرف کانگریس پارٹی پورے دم خم کے ساتھ انتخابی میدان میں اتری ہوئی ہے اور اس کے امیدواروں کی لسٹ کافی پہلے جاری ہوگئی ہے۔ مگر بی جے پی کی پہلی لسٹ میں جس میں 189امیدواروں کا نام کا اعلان کیا گیا ہے اس میں بہت سے چہرے بالکل نئے ہیں اور پرانے لوگ اس فہرست سے غائب ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ایما پر یہ فہرست نظر ثانی کے بعد سامنے آسکتی ہے۔ وزیر اعظم نریند رمودی نے داغدار امیدواروں کو اس لسٹ میں ٹکٹ دیے جانے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ خیال رہے کہ کرناٹک کی سیاست میں بی جے پی کے وزرا اور ممبران اسمبلی اور پارٹی عہدیداروں کے کرپشن کے معاملات میں ملوث ہونے کی خبریں مسلسل آتی رہی ہیں اور دیکھاجاتا ہے کہ موجودہ بی جے پی سرکار ریاست کی انتہائی کرپٹ سرکار ہے۔ اس کے علاوہ بی جے پی پر بدنظمی اور ترقیاتی کاموں کو نظرانداز کرنے کے بھی الزامات ہیں۔ کانگریس پارٹی پہلے ہی 166امیدواروں کے نام کا اعلان کرچکی ہے اور جنتا دل سیکولر نے بھی اپنے لیڈروں کو ٹکٹ دے دیا ہے۔ بی جے پی پر تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے امیدواروں کے لسٹ کو فائنل کرنے میں ناکام ہے۔ کانگریس نے الزام لگایاہے کہ پارٹی کے اندر زبردست خلفشار ہے اس کی وجہ سے امیدوارو ںکے نام نہیں فائنل کیے جا رہے ہیں۔ مگر بی جے پی کے کئی لیڈروں کا کہناہے کہ وزیراعظم نریندر مودی امیدواروں کے نام سے مطمئن نہیں ہے اور اس کی وجہ سے لسٹ میں تاخیر ہورہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی خواہش ہے کہ ریاست میں بی جے پی کو مکمل اکثریت حاصل ہو اور اسی وجہ سے کوشش کی جا رہی ہے کہ جن لوگوں کو ٹکٹ دیا جائے وہ وزیراعظم کی اس خواہش پورا کرنے والے ہوں۔ کرناٹک میں 10مئی کو الیکشن ہونے ہیں اور تمام سیٹوں پر ایک ہی دور میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔
بی جے پی کا ذرائع کا ماننا ہے کہ امیدوارو ںکی پہلی لسٹ میں کم از کم ایک درجن ممبران اسمبلی کو ٹکٹ نہیں دیا ہے۔ ریاستی بی جے پی نے جن تین اصولوں کو اختیار کیا ہے۔ پارٹی کے ذریعہ ذات پات کو کافی اہمیت دی گئی ہے۔ بی جے پی کو یہ بھی ڈر ہے کہ ایسا نہ ہو کہ ہماچل کی طرح بی جے پی کے باغی ممبران اس کو کسی صدمے سے دوچار کریں۔ اسی خدشے کے تحت ایک احتیاطی تدابیر کی جا رہی ہیں۔ بی جے پی ریاستی اسمبلی کی انتخابات میں اینٹی ان کمبنسی کا مقابلہ کرنے کے لیے وزراء اعلیٰ کو الیکشن سے کچھ ماہ قبل تبدیل کرنے ممبران اسمبلی کو ٹکٹ نہ دینے اور اسی طرح کے کئی اقدامات کرتے ہیں جس سے کہ اس کو الیکشن میں نقصان نہ ہوں۔ شمال مشرقی ریاستو ںکے حالیہ انتخابات میں بی جے پی نے یہی حربہ استعمال کرکے کسی حد تک اپنی پوزیشن کو برقرار رکھا ہے۔
بی جے پی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ ممبران اسمبلی جو کہ اخلاقی کمزوریوں یا ہراساں کرنے کے الزامات کا سامنا کررہے ہیں ان کو ٹکٹ نہیں دیا جا رہاہے۔ اس کے علاوہ بی جے پی ان لوگوں کو بھی ٹکٹ نہیں دی رہی ہے جو کہ عمر کے ایسے پڑائو پہنچ گئے ہیں جہاں سے ان کے کسی طرح بہتر کارکردگی کی امید نہیں لگائی جاسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ پارٹی نوجوانوں کو ٹکٹ دینا چاہتی ہے۔ کئی ماہرین مانتے ہیں کہ بی جے پی اگرچہ حکومت بننے کی شکل میں کسی چہرے کو منظر عام پر نہیں لارہی ہے مگر بنگلور کے ممبر پارلیمنٹ تجسوی سوریا جو کہ نوجوان ہیں ان کو آگے کرنے کی سرگوشیاں کی جارہی ہے۔ شاید بھارتیہ جنتا پارٹی کسی ایک خاص ذات کے وزیراعلیٰ کو ذمہ داری نہیں سونپنا نہیں چاہتی۔ ان کو ڈر ہے کہ آگے چل کر ذات اور برادریوں کے اعلیٰ لیڈر اس کے لیے مسئلہ بن جاتے ہیں۔ اس کا تجربہ سابق وزیراعلیٰ یدی یرپا اور موجودہ وزیراعلیٰ بی بومائی کے اوپر دائو لگانے سے سامنے آیا ہے۔ پہلی لسٹ میں جن ناموں کو ٹکٹ نہ دینے پر زیادہ چرچا ہورہی ہے ان میں کے ایس ایشویرپا اور جگدیش شیکٹر کا نام لیا جا رہا ہے۔ ایشویرپا نے پہلے ہی اپنے ریٹائرڈ منٹ کا اعلان کردیا ہے مگر شیکٹر چاہتے ہیں کہ وہ انتخابی سیاست میں برقرار رہیں۔ شمونگا شہر سے اسمبلی سیٹ پر امیدوار کا نام سامنے نہیں آیا ہے وہ حلقہ ہے جہاں سے ایشویرپا کے بیٹے ٹکٹ مانگ رہے ہیں۔ بی جے پی کے 51امیدواروں کی پہلی لسٹ میں کرناٹک کی بااثر برادری لنگیات کو اہمیت دی گئی ہے۔ برادری کے کئی سینئر لیڈر امیدواروں کی لسٹ میں شامل کیے گئے ہیں۔ بی جے پی نے اس مرتبہ اپنی حکمت عملی بھی بدلی ہے اور وہ بڑی پارٹی کے لیڈروں کو آسان راہ فراہم کرنے کے لیے اپنی روایت ترک کرچکی ہے۔ جنتا دل ایس اور دیو گوڑا کے خاندان کے لیڈرو ںکو آسان مقابلہ دینے کے لیے بی جے پی کمزور امیدوار کھڑی کرتی تھی۔ اسی طرح کانگریس اور بی جے پی کے درمیان بھی اسی طرح کا تال میل ہوتا تھا۔ اس پالیسی کی وجہ سے کرناٹک کی سیاست میں پرانے اور سینئر لیڈروں کا دبدبہ برقرار رہتا تھا۔ مگر اس دفعہ کانگریس اور جنتال ایس کے کسی بھی لیڈر کے ساتھ اس قسم کی کوئی بھی تال میل نہیں کیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ صاف ہے کہ کرناٹک میں اس مرتبہ کی الیکشن بڑے کانٹے کا ہونے والاہے اور کوئی بھی پارٹی اور اس کا کوئی بھی بڑا لیڈر یہ امید نہیں لگا سکتاکہ اس کے لیے راستہ بہت زیادہ مشکل نہیں ہے۔ بی جے پی نے کانگریس کے سابق وزیراعلیٰ سدا رمیا کے خلاف وزیر مکانات وی سومنا کو ٹکٹ دیا ہے جبکہ ڈی کے شیو کمار (کانگریس کے ریاستی صدر)کے مقابلے میں سابق نائب وزیراعلیٰ ایم آر اشوک کو میدان میں اتارا ہے۔ یہ دونوں حلقے بالترتیب ورونا اور کانا کپڑا ہیں۔ اسی طریقے سے بی جے پی مذکورہ بالا دونوں امیدواروں کو الگ الگ دوسرے حلقوں سے ٹکٹ دیا ہے۔ یعنی یہ لیڈر دو دو حلقوں سے الیکشن لڑیں گے۔ سومنا کو چارما راجہ نگر اور پدما نابھا نگر سے بھی میدان میں اتارا ہے۔ سومنا عام طور پر گووندا راجہ نگر سے الیکشن لڑتے ہیں۔ ان کو شاید اس مرتبہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
بی جے پی کا کہنا ہے کہ اس نے پارٹی کے اہم لیڈروں کے بیٹوں کو ٹکٹ دینے کی اکثر درخواستوں کو نظرانداز کیا ہے۔ اس رویے کو بھی پارٹی کی پالیسی کی تبدیلی کی طرف اشارہ ہے۔ پہلی لسٹ جن لوگوں کو خارج کیا گیا ہے ان میں انل بیناک (بلاوڑی نارتھ)اور رام درگ سے یداوڑ مہادیو وپا کے علاوہ گادڑ سے راماپا لمانی کو ٹکٹ نہیں دیا ہے جبکہ جن لوگوں کے ٹکٹ روکے گئے ہیں ان میں سنجیوا متن دور ، لالجی میندان، سری نواس سیٹھی ، این وائی گوپال کرشنا اور اڈپی کے ممبر اسمبلی کے رگھوپتی بھٹ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایس انگارا اور گولی ہاتھی شیکھر کو بھی ٹکٹ نہیں دیا گیا ہے۔ بی جے پی نے سابق وزیراعلیٰ یدیرپا کی ناراضگی دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے بیٹے بی وائی وجندرا کو ٹکٹ دے دیا گیا ہے۔ اسی طریقے سے یدیرپا کے قریبی اور معاون تھمیس گوڑا کو بھی ٹکٹ دے کر ان کے خلاف اٹھنے والی آواز وں دبانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی طریقے سے سابق وزیر رمیش جرکی ہولی اپنے دبدبے کو برقرار رکھنے میں کامیابی ملی ہے ان کے وفادار مہیش کماتھالی کو ٹکٹ دے دیا گیا ہے۔ اس طریقے سے وہ اپنے حریف سابق نائب وزیراعلیٰ لکشمن سواڈی پر سبقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ یہ علاقہ بیلا گاوی کا خطہ ہے جہاں پر لکشمن ساواڑی اور رمیش جرکی ہولی کے درمیان زبردست معرکہ ہے۔ بی جے پی نے 51امیدواروں کی پہلی لسٹ میں ریاستی وزیر بی ایس آنند کے بیٹے سدھارتھ سنگھ کو ٹکٹ دے دیا ہے۔ وہ کامپلی سے الیکشن لڑیں گے۔
کرناٹک: بی جے پی میں اندرونی خلفشار
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS