سی بی آئی کے 60 سال، ایک آزاد ایجنسی یا سرکار کی کٹھ پتلی

0

ایس ایم خان
سی بی آئی خبروں میں ہے کیونکہ اس ادارہ نے اپنی زندگی کے 60سال پورے کرلیے ہیں اور اسی وقت سپریم کورٹ میں 19سیاسی جماعتوں نے رٹ داخل کی کہ حکومت کے ذریعہ سی بی آئی وانفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کا استعمال ان کو ناحق پریشان کرنے کے لیے اور ناجائز دبائو ڈالنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ جس کو سپریم کورٹ نے سنوائی کے لیے منظوری نہیں دی۔
اس موقع پر یہ تجزیہ کرنا ضروری ہے کہ سی بی آئی نے اس عرصہ میں کس طرح سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھایا اور کیا وہ واقعی ایک آزاد تفتیشی ایجنسی ہے یا حکومت کی کٹھ پتلی کے طور پر کام کرتی ہے۔ چاہے کسی بھی سیاسی پارٹی کی حکومت ہو۔
سی بی آئی کا وجود یکم اپریل 1963کو عمل میں آیا اس کے لیے مرکزی حکومت نے ایک ریزولوشن پاس کیا اور پارلیمنٹ نے Delhi Special Police Establishment Act1963منظور کیا اس کو اس قانون کے ذریعہ Union Terotoriesمیں کرپشن کے مقدمات میں تفتیش کیے اختیارات دیے گئے ۔ اس کے علاوہ اقتصادی بدعنوانیوں اور خاص نوعیت کے جرائم کے معاملات دیکھنے کا اختیار بھی ملا۔ ریاستی حکومتوں کی مرضی سے تمام ریاستوں میں لاگو کیا گیا مگر ریاستوں کے پاس یہ اختیارات رہے کہ سی بی آئی کو دی گئی اجازت کو واپس بھی لے سکتے ہیں اور سی بی آئی ایک طرح سے ریاستوں کے رحم وکرم پر منحصر ہوگئی ہے۔ اس وقت 9ریاستوں جھارکھنڈ، تلنگانہ، پنجاب، کیرل، میگھالیہ ، مغربی بنگال، میزورم ، چھتیس گڑھ، راجستھان نے یہ منظوری واپس لی ہوئی ہے۔ چنانچہ سی بی آئی ان ریاستو ںمیں کام نہیں کرسکتی اور صرف ایسے معاملات کو ان صوبوں میں لے سکتی ہے جو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے ذریعہ دیے جائیں۔
سی بی آئی حکومت ہند کے ایک ادارہ کے طور پر کام کرتی ہے۔ یہ منسٹری آف پرسنل کا ایک Attached Officeہے اس کے پاس اپنے آفیسرس کی تقرری کے اختیارات بھی نہیںہیں۔ وہ سب ـCVCوحکومت ہند سے تقرر ہوتے ہیں ۔ سی بی آئی کے پاس Adminstrative and Financialاختیارات بھی پورے نہیں ہیں۔ سی بی آئی کسی بیرون ملک میں بنا مرکزی حکومت کی اجازت کے تفتیش نہیں کرسکتی ہے۔ بیرون ممالک میں تفتیش کے لیے کورٹ سے Letter of Rogatory جاری کرانا پڑتا ہے۔ جس کے لیے پہلے مرکزی حکومت سے اجازت لینی پڑتی ہے ۔ سی بی آئی کے اختیارات پر مزید پابندیاں پریونشن آف کرپشن ایکٹ میں ترامیم کراکر بھی لگا دی گئیں اگر سی بی آئی کسی پالیسی میٹر میں کرپشن کی جانچ کرنا چاہتی ہے تو اسے پہلے حکومت سے اجازت لینی پڑے گی۔ یہ ترمیم پہلے UPA سرکار کے دور میں کیا گیا اور موجودہ حکومت نے اس کو اور واضح کردیا یعنی دونوں حکومتوں کی یکساں Policy پالیسی اس بارے میں واضح ہے۔ ان حالات میں یہ کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ سی بی آئی ایک آزاد تفتیشی ایجنسی کے طور پر کام کرے گی۔ اتنی پابندیوں کے باوجود سی بی آئی نے زیادہ تر کیسوں میں ایک آزاد پروفیشنل ادارہ کے طور پر کام کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہمیشہ پیچیدہ معاملہ میں سی بی آئی کی جانچ کی مانگ ہوتی ہے۔ سیاسی لیڈران اپنے اوپر سی بی آئی جانچ ہوتے ہوئے بھی دوسرے کیسوں میں ـسی بی آئی کی مانگ کرتے ہیں۔ اکثر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سی بی آئی کی کسی معاملہ میں جانچ کی رفتار حکومت حاضرہ کی منشا سے طے ہوتی ہے مگر ان سب کے باوجود سی بی آئی پر عوام۔ عدلیہ ، سیاسی جماعتوں کا کا فی حد تک بھروسہ ہے اور ایک Professional Agency کے طور پراس کے کام کو سبھی نے سراہا ہے۔ میڈیا نے بھی سی بی آئی کے کام کو آگے بڑھامیں مدد کی ہے اور کئی معاملوں میں اس کے کام کی تعریف کی ہے، وہیں کچھ معاملوں میں نکتہ چینی کا سامنا بھی سی بی آئی کرنا پڑا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتیں چاہے مرکزی ہو یا ریاستی ۔ سی بی آئی کی ایک آزاد تفتیشی Agency کے طور پر کام کرنے دیں۔ تبھی اس ملک میں کرپشن پر مکمل قابو کیا جاسکتا ہے جو ملک کی تعمیر اور ترقی میں حامل ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سی بی آئی کو اگر حکومت کنٹرول نہیں کرتی ہے تو پھر کون کرے گا۔Who will Police the Police اس کے لیے لوکپال ایکٹ میں ترمیم کا التزام کیا گیا ہے کہ Multi member lokpal body سی بی آئی و ای ڈی کے کام کی نظر ثانی کرے گی مگر بدقسمتی سے یہ ادارہ کے باوجود عمل میں آنے کے کوئی خاطر خواہ ترقی نہیں کرپایا اور پوری طرح سے Functional نہیں ہوپایا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لوکپال کے ادارہ کو پوری طرح سے Functionalکیا جائے۔ جس سے وہ ای ڈی اور سی بی آئی کی جانچ کی بھی نگرانی کرسکیں۔ آزاد لوک پال ہیں۔ سی بی آئی کی صحیح طرح سے نگرانی کرسکتا ہے اور یہ بھرم دور کرسکتا ہے کہ سی بی آئی ایک Netural Agencyکے طور پر اپنا فرض نبھائے اس کے علاوہ عدالتیں سی بی آئی کے کام پر نظر رکھتی ہیں کیونکہ سی بی آئی کو معاملہ میں کورٹ میں رپورٹ داخل کرنی پڑتی ہے اور سی بی آئی کو کسی بھی کیس کو شروع کرتے وقت یا اس میں ـکلوزر یا ـچارج شیٹ دیتے وقت کورٹ کی اجازت نہیں لینی پڑتی ہے۔ اگر سی بی آئی کی جانچ سے عدالتیں مطمئن نہیں ہوتی ہیں تو وہ اس دارہ کی ضروری ہدایتیں دیتی ہیں جو سی بی آئی کے لیے چیک اینڈ بیلنسCheck and Balance کے طور پر کام کرتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ یہ ادارہ ایک ایک شفاف ادارے کے طو رپر کام کرے۔ کیونکہ یہ ایک تفتیشی ادارہ ہے ناکہ Intellegence Agencyور کیس ایک مرحلہ پر پہنچنے کے بعد میڈیا کو اس بارے میں سی بی آئی جانکاری دینی چاہیے جس سے عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS