این سی پی سربراہ شرد پوار بھلے ہی آج مرکزی اقتدار سے دور ہوں لیکن اس میں کوئی کلام نہیںکہ وہ ایک گرگ باراں سیاست داںہیں۔ ملکی سیاست کی نبض شناسی میں انہیں ملکہ حاصل ہے۔ کانگریس کے سنہرے دور میں اقتدار تک رسائی کیلئے بڑے بڑے سیاست داں ان کے نشان راہ پر ہی چلتے تھے۔اس زمانے میں بھی انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین سے بگاڑ نہیں مولا بلکہ صلح کل کے مسلک پر عمل پیرا رہے اور آج بھی اپوزیشن میں رہتے ہوئے حکمراں جماعت سے راست بگاڑ کے وہ قائل نہیں ہیں۔درجنوں ایسے مواقع آئے جب حزب اختلاف، حکومت کے خلاف متحد ہوکرتلاطم خیز لہروں میں کود پڑی لیکن شرد پوار ساحل سے ہی نظارہ کرتے رہے۔ آج بھی جب حکمراں جماعت کو خاک چٹانے کیلئے اپوزیشن اتحاد وقت کی ضرورت بن چکا ہے، لیکن شرد پوار، حکمراں جماعت کے خلاف راست اقدام سے دامن بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔
شرد پوار نے اپوزیشن کو بالواسطہ مشورہ دیا ہے کہ وہ صنعت کاروں کے گروپ پر حملہ نہ کریں۔ معمرسیاست داں کی یہ تجویز بھی ہے کہ متنازع سرمایہ دار گوتم اڈانی کے مبینہ گھوٹالوں، مالی بددیانتی اور عوامی املاک کی بندر بانٹ کے معاملے کی تحقیقات کیلئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی پر اصرار ترک کردیا جائے اور اگر ضروری ہو تویہ تحقیقات عدالت سے کرائی جائیں۔شرد پوار کا یہ بیان اپوزیشن اتحاد کیلئے ہورہی پیش رفت میں رکاوٹ کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست میں بہتری کے خواہش مند جمہور پسندوں کیلئے کسی صدمہ سے کم نہیں ہے۔
این سی پی سربراہ کاکہنا تھا کہ گوتم اڈانی ہوسکتا ہے کہ ایک مسئلہ ہوں لیکن وہ بہت محنتی، سادہ اور زمین سے جڑے ہوئے صنعت کار ہیں۔ انہیںجان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔وہ اس معاملے پر جے پی سی کے مطالبے کی حمایت نہیں کرتے ہیں۔ شرد پوار نے دلیل دی تھی کہ جے پی سی میں 21 ارکان کی اکثریت حکومت کی ہوگی۔ صرف 6 ارکان دیگر جماعتوں سے ہوں گے۔ ایسے میں حکومت کو مطلوبہ رپورٹ جے پی سی کے ذریعے ملے گی۔ ایسانہیں ہے کہ شرد پوار اپنے اس سیاسی بیان کے مضمرات اور اپوزیشن اتحاد پرا س کے اثرات سے ناواقف ہیں۔ انہوں نے اگر اپوزیشن کے مشترکہ موقف سے ہٹ کرایک تجویز دی ہے تو وہ اس کے حسن وقبح سے اچھی طرح واقف ہوں گے۔انہیں اس کابخوبی ادراک ہوگا کہ پارلیمانی جمہوریت میں ان کا یہ بیان مزاحمت کی ابھرنے والی اجتماعی قوتوں کیلئے کتنانقصان دہ ہوگا، اس کے باوجودا گرا نہوں نے اپوزیشن سے الگ موقف اختیار کیا ہے تو ان کے اس حق کو چیلنج بھی نہیں کیاجاسکتا۔
لیکن حیرت کی بات ہے کہ شرد پوار اپنے اس موقف پر بھی تادیر قائم نہیں رہ سکے۔ دو دنوں بعد ہی منگل کو اپنے موقف سے رجوع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اپوزیشن اتحاد کی خاطر اڈانی معاملے پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی(جے پی سی) کے مطالبہ کی حمایت کرتے ہیں۔آج اپنے ایک تازہ انٹرویو میں موصوف نے کہا کہ اگر اپوزیشن جماعتوں کے ہمارے دوست جے پی سی جانچ پر اصرار کرتے ہیں تو ہم اپوزیشن اتحاد کی خاطر اس کی مخالفت نہیں کریں گے۔ ہمیں ان کے خیالات سے اتفاق نہیں ہے، لیکن باوجود اس کے جے پی سی کی تحقیقات کے مطالبے کی حمایت کریں گے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ہمارے موقف سے اپوزیشن اتحاد کو نقصان نہ پہنچے۔
کہاجارہاہے کہ شرد پوار کے موقف میں یہ تبدیلی کانگریس رہنما سونیا گاندھی کے ایک مضمون کی اشاعت کے بعد عمل میں آئی ہے۔ مسزگاندھی نے اپنے اس مضمون میں حزب اختلاف کے اتحاد کی ازسرنو اپیل کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس ہم خیال جماعتوں کے ساتھ ہاتھ ملانے کیلئے تیار ہے۔
آج ملک جس انارکی، بدانتظامی اور معاشی بدحالی کا تجربہ کررہا ہے، اس کاتقاضا ہے کہ مرکز کے اقتدار میں تبدیلی ہو۔ کانگریس اس تبدیلی کیلئے مسلسل کوشاں ہے۔ غیر بی جے پی جماعتوں کے ساتھ اشتراک عمل کا منصوبہ بناکروہ بی جے پی کے خلاف انتخاب میں ایک متحد اپوزیشن اتارنے کی خواہش مند ہے۔ ترنمول کانگریس اوراس قبیل کی چند ایک دوسری مہم جو کچھ سیاسی پارٹیوں کو چھوڑ کر زیادہ تر جماعتیں اس سمت پیش رفت کررہی ہیں اور ایک دوسرے کے قریب بھی آرہی ہیں۔ ہر چند کہ اس قربت کی رفتار سست ہے لیکن 2024 کے عام انتخاب سے پہلے کانگریس کے محور کے گرد اکٹھی ہونے والی ایک متحد اپوزیشن کا خواب شرمندۂ تعبیر ہونے کاامکان پیدا ہوچکا ہے۔ حالیہ پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس کے دوران اڈانی معاملے پر کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن کا بے مثال اتحاد بھی سامنے آچکا ہے۔ کانگریس سے ناراض رہنے والی عام آدمی پارٹی اور ترنمول کانگریس نے بھی اس معاملے میں کانگریس کا ساتھ دیا۔
ان حالات میں شرد پوار نے بی جے پی کو خوش کرنے کیلئے اپوزیشن کے مشترکہ موقف سے الگ اپنی راہ بنالی جس پرا نہیں بی جے پی کی جانب سے حمایت بھی ملی۔لیکن جیسے ہی سونیا گاندھی نے یہ اشارہ دیا کہ اپوزیشن اتحادکی راہ میںحائل رکاوٹ دور ہوگئی ہے، شرد پوار نے بھی سمجھ لیا کہ باقی پارٹیاں کانگریس کی قیادت میں متحد ہو جائیں گی اور این سی پی الگ تھلگ ہو جائے گی۔مہاراشٹر میں سرگرم رہنے کیلئے این سی پی کا بی جے پی سے ہاتھ ملانا ویسے بھی ممکن نہیں ہے۔اس لیے شرد پوارایک بار پھر پلٹ گئے۔ اب دیکھنا ہے کہ ہندوستان کاچانکیہ سمجھا جانے والا یہ گرگ باراں سیاست داںاپنے اس موقف پرکب تک قائم رہتا ہے۔
[email protected]
شرد پوار کی سیاست اور اپوزیشن اتحاد
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS