سعودی عرب اور ایران کے درمیان بڑھتی قربتیں

0

ایران اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ نے آج چین کی راجدھانی بیجنگ میں ملاقات کی۔ یہ ملاقات پچھلے ماہ غیرمتوقع سمجھوتہ کے بعد ہوئی جس میں دونوںملکوں نے سفارتی تعلقات بحال کرنے اور ایک دوسرے کی راجدھانیوں میں سفارت خانے کھولنے کا سمجھوتہ کیاگیا۔ جیسا کہ قارئین کو علم ہے کہ یہ سمجھوتہ چین کی مصالحت سے ہوپایا ہے۔ مگر اس سمجھوتہ کے فوراً بعد جس طریقے سے دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ سابقہ تلخیوں کو فراموش کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں اور تعلقات کو استوار کرنے کے ساتھ ساتھ اس رشتے کو ایک ٹھوس اقتصادی بنیاد فراہم کرنے کی تگ ودو میں لگے ہوئے ہیں۔ اس سمجھوتے کے چند روز کے بعد ہی یہ خبریں آنے لگیں کہ ایران اور سعودی عرب اقتصادی تعاون بڑھانے کے لئے زیادہ سرگرمی سے کام کریںگے۔ یہ پیش رفت ان معنوں میں معنی خیز ہے کہ ایران پر مغربی ممالک خاص طورپر امریکہ نے سخت پابندی عائد کررکھی ہے اوران پابندیوں کی وجہ سے ایران کی معیشت لگاتار کمزور ہوتی جارہی ہے۔ ایک طرف مغربی ممالک کی پابندیاں تھیں تودوسری جانب پڑوسی ممالک کے عدم تعاون اور کٹ جانے کی وجہ سے ایران کی معیشت بدترین دور سے گزررہی ہے۔ کووڈ19 کے بعد خاص طورپر جب پوری دنیا کی معیشت درہم برہم ہورہی ہے اور بے روزگاری میں زبردست اضافہ ہوا ہے اس وبا میں تو ایران کی معیشت رہی سہی کسر پوری ہوگئی۔ چند ماہ سے ایران میں داخلی انتشار کی خبریں آرہی ہیں۔ ظاہر ہے یہ صورت حال مجموعی طورپر ایران کے لئے تکلیف دہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ بیجنگ میں تو اس وقت فرانس کے صدر ایمویئل میکروںبھی بیجنگ میں صدر شی سے ملاقات کر رہے ہیں۔ میکروں نے یوکرین کے تنازع کے تناظرمیں واضح کیا کہ آج کے حالات میں جب مغرب اور روس کے درمیان زبردست جنگ چل رہی ہے ایسے حالات میں شی نے جو موقف اختیار کیا ہے وہ حوصلہ افزا ہے اورامید کی جاتی ہے کہ شی کا موقف جوکہ یوکرین میں نیوکلیر اسلحہ کے استعمال کے قطعی خلاف ہے اوریہ چاہتے ہیںکہ کسی نہ کسی طریقے سے اس خطے میں جنگ بندی لاگوہوجائے۔ میکروں نے جس پرتپاک انداز کے ساتھ شی سے ملاقات کی ہے اس کو باڈی لینگویج کے ماہرین کافی اہمیت دے رہے ہیں۔ صدرمیکروں جوکہ امریکہ اور برطانیہ سے قریبی تعلقات رکھتے ہیں مگراس کے باوجود انہوں نے یوکرین جنگ میں روس اور چین کے ساتھ مصالحت کرانے کی کوشش کی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کوشش شی کے دورئہ ماسکو سے جوڑ کر دیکھی جارہی ہے۔ میکروں مغربی ایشیا کے کئی ممالک میں مصالحتی رول ادا کر رہے ہیں۔ شام اور عراق میں وہ جس انداز سے مصالحت کرانے کی کوشش کر رہے ہیں اس میں سعودی عرب بھی تعاون کر رہا ہے۔ علاقہ کے دوسرے عرب ممالک مصر، اردن اوریواے ای بھی عراق، یمن اور شام میں جنگ بندی کے ساتھ ساتھ ان ممالک میں تعمیرنو اور ترقیاتی پروجیکٹوںکی شروعات میں پیش پیش ہے۔ بیجنگ میں سعودی عرب اور ایران کے وزیروںکا ملنا نہ صرف یہ کہ خطے میں دونوں فریقوں میں مصالحت کرانے اور خطے کے کئی ملکوں میں امن و امان قائم کرنے میں اہم رول ادا کرسکتا ہے۔ اس وقت جو ممالک اس مصالحتی سرگرمی میں شامل ہیں ان میں عراق اور شام میں کافی پیش قدمی ہوئی ہے۔ اس کے مقابلے میں یمن میں صورت حال اب بھی غیریقینی بنی ہوئی ہے کیونکہ یہ ملک سعودی عرب کی سیکورٹی اورمفادات کے لئے کافی اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں کے حوثی قبائل اور دیگر فریق مکمل قیام امن میں پہلے کے مقابلے میں کم دلچسپی دکھا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اتنے سخت جنگی حالات میں کوئی بھی تصفیہ فوری طورپر ہوجائے اس بات کے امکانات اس قدر قوی نہیں ہیں۔ کیونکہ یمن کی خانہ جنگی انتہائی شدید نوعیت کی ہے۔ بہرکیف کئی فریق ایک اور مغربی ایشیائی ملک لبنان میں بھی بحران کے خاتمے میں مصروف ہیں۔ وہاں پر سیاسی بدحالی، اقتصادی بحران اور سول عدم استحکام کی وجہ سے حالات دن بہ دن خراب ہوتے جارہے ہیں۔ کوشش یہی کی جارہی ہے کہ پہلے ان ممالک میں استحکام قائم ہوجائے جہاں پر حالات پہلے کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہیں۔ اس بابت عراق کے اندر کردستان کی خودمختارخطے اور عراق کی حکومت کے درمیان مصالحتی کوششیں اس وقت کامیاب ہوتی دکھائی دیں جب پٹرولیم مصنوعات کے معاملے میں دونوں فریقوںمیں ایک سمجھوتہ ہوگیا ہے۔
2016کے بعد جب دونوں ملکوں سعودی عرب اورایران نے تعلقات منقطع کئے تھے اس کے بعد آج کے حالات جتنی تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں وہ قابل تعریف ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سعودی عرب اور ایران میں 20سال پہلے کئے گئے سیکورٹی اور اقتصادی تعاون کے سمجھوتہ پر دستخط کئے تھے اس پر عمل آوری تیز کردی ہے۔ دراصل دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کی بنیاد یہی سمجھوتہ ہے۔
اس دوران سعودی عرب کے تجارتی اوراقتصادی اداروں کے سربراہان نے اپنی سرگرمیاں مزید بڑھاتے ہوئے اقتصادی تعاون کے امکانات کا جائزہ لیا ہے۔ ایران کے چیمبرآف کامرس اورانڈسٹری کے ایک ممبر کیوان کاشفی کا کہنا ہے کہ دونوںممالک مشترکہ چیمبرآف کامرس کے امکانات تلاش کر رہے ہیں اوراس سے دونوں ممالک کے تجارتی وفود کی ایک دوسرے کے ملک میں آمد کی راہ ہموارہوگی۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام سرگرمیاں دونوں ملکوںکی راجدھانیوں میں بغیرسفارت خانوں کے سرگرم ہوئے ممکن نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تہران اور ریاض کے درمیان گزشتہ تقریباً30دنوں میں اقتصادی تعاون کے امکانات زیادہ بڑھے ہیں۔ ایران کے پرائیویٹ سیکٹر نے اس صورت حال کو مثبت اور تعمیری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ اقتصادی تعاون اچھی پہل ہے۔ دونوں ملکوں میں تعلقات استوار ہوئے ہیں اس کا مثبت اثر ایران کے اقتصادی نظام پر مرتب ہوگا اور خطے کے دوسرے ممالک بھی آپس میں تعاون کو فروغ دیںگے۔ کاشفی کا کہنا ہے کہ پٹرولیم، گیس اور پیٹروکیمیکل کے سیکٹر میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے زبردست امکانات ہیں۔ 10؍مارچ کو ہونے والے سعودی عرب اور ایران کے درمیان سمجھوتے کے فوراً بعد ہی یہ گرم جوشی مغربی ممالک کی پیٹ میں مروڑ پیدا کررہی ہے۔ کئی حلقوں میں اس بات کی تشویش ظاہر کی جارہی ہے کہ اس افہام وتفہیم کا نہ صرف یہ کہ خطے پر بڑا مثبت اثر پڑے گا بلکہ اس سے ایشیا کے علاوہ دنیا کے مختلف حصوں میں چین کے دبدبے کو بھی بڑھاوا ملے گا۔
مغربی ایشیا کے مختلف ممالک میں اس سمجھوتے کے اثرات ظاہر ہونے شروع ہوچکے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ابتدائی جوش وخروش کے بعد یہ دونوں ممالک اور ان دونوں ممالک سے وابستہ دیگر ہمسایہ ممالک کس حد تک آپسی تعاون کو فروغ دینے میں کامیاب ہوںگے۔ ٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS