دینی مدارس:حفاظت اسلام کی ایک زندہ تحریک

0

عبد اللہ سلمان ریاض بنگلور
انیسویںصدی کے وسط سے لے کر اب تک بر صغیر ہند میں جوبھی دینی، تعلیمی، مذہبی ، تہذیبی وسماجی کام ہوئے ہیں غالباً سب کے سب انھیں مدارس اسلامیہ کے ذریعہ ہوئے ہیں۔انھیں بوریانشینوں کی جہد مسلسل سے آج پورے خطہ ارض میں مدارس کا جال(Network) پھیل گیا ہے۔ چھوٹے بڑے مدارس اتنی کثرت سے وجود میں آئے کہ شاید کوئی بھی علاقہ اس سے خالی رہا ہو۔ علماء اسلام نے صرف یہی نہیں کیا کہ ادارہ کی صورت میں باقاعدہ مدرسے قائم کئے ۔بلکہ انکی ذات بھی مسلسل طور پر لوگوں کے لئے علم اور تعلیم کا مرجع بنی رہی۔
جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کا سورج غروب ہوا، تو اُمت کے بزرگوں کو فکر لاحق ہوئی کہ اس ملک میں مسلمانوں کے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کا سروسامان کیا جائے، اس مقصد کے لئے علماء اسلام نے غور و فکر کر کے دینی مدارس کے قیام کی کوشش کی ، اس اہم کام کے لئے جس شخصیت نے سب سے پہلے پیش رفت کی وہ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی کے خلفاء اور مجاز ین ہیں، حضرت مولانا قاسم نانوتوی جو بلند پایہ عالم ، محقق، ہندومت ، عیسائیت اور مذاہب باطلہ کے مقابلہ میں دندان شکن مناظر اور عظیم سماجی مصلح بھی تھے۔انھوں نے اسی مقصد کے لئے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی جس کی شعاعیں آج پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں۔دینی مدارس اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کے مضبوط قلعہ ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کی بقا کے ضامن یہی بوریانشیں، سفیدجبہ و دستار کے سادہ اور کمزور انسان ہیں۔ انھیںسے اس ملک ہندوستان میں پہلے بھی انقلاب آیا تھا اور ماضی قریب میں بھی انہیں لوگوں نے کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں۔آج کے اس پرفتن دور میں مدارس اصلاح کا وہ کام کر رہے ہیںجو بڑے بڑے ادارے اور تنظیمیں نہیں کر پارہی ہیں۔انھیں مدارس سے نکلنے والے لوگ اپنے اپنے قریوں اور علاقوں میں تعلیم و تعلم کا کام مفت فراہم کر رہے ہیں۔یہ مدارس اپنے پس منظر اور خدمات کے لحاظ سے اسلامی معاشرے کا ایک ایسا حصہ ہیں جن کی تاریخ اور خدما ت سنہرے الفاظ سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ ان میں پڑھنے پڑھانے والے نفوسِ قدسیہ نے ہر دور میں اپنے بے سروسامانی کے باوجود دین اسلام کی حفاظ و صیانت کا قابل قدر فریضہ انجام دیا ہے۔ ان مدارس کے قیام کا پس منظر یہی تھا کہ جب حکومتوں نے اسلام کی نشرواشاعت میں دلچسپی لینا بند کردی اور اسلامی تعلیم و تربیت میں مجرمانہ تغافل برتا تو علمائے اسلام نے اربابِ حکومت اور اصحابِ اختیار کی اس کوتاہی کی تلافی یوں کی کہ دینی تعلیم و تربیت کے ادارے قائم کئے جو عوام کے رضاکارانہ عطیات اور صدقات و خیرات سے چلتے تھے۔ یہ دینی مدارس بالعموم سرکاری سرپرستی سے محروم ہی رہے ہیں اور اسی میں ان کے تحفظ و بقا کا راز مضمر تھا اورہے۔بالخصوص برطانوی ہند میں، جب کہ انگریز نے لارڈ میکالے کے نظریہ ء تعلیم کے مطابق انگریزی تعلیم کو رواج دیا اور مسلمان عوام ملازمت اور دیگر مناصب و مراعات کے لالچ میں کالج اور یونیورسٹیوں کی طرف دیوانہ وار لپکے اور دینی تعلیم اور دینی اقدار سے بے اعتنائی و بیگانگی برتنے لگے تو علماء اور اصحابِ دین نے اس دور میں متحدہ ہندوستان کے قریہ قریہ اور گاؤں گاؤں میں دینی مدارس کا جال پھیلادیا۔انگریزوں نے اپنے مخصوص مقاصد کے لئے جس انگریزی نظامِ تعلیم کو نافذ کیا تھا، اس کے دو بڑے مقصد تھے۔ ایک دفتروں کے لئے کلرک اور بابو پیدا کرنا۔ دوسرا ، مسلمانوں کو اس کے دین اور اس کے شعائر و اقدار سے بیگانہ کرنا۔ بدقسمتی سے دورغلامی کا یہ مخصوص نظام تعلیم اپنے مخصوص مقاصد سمیت تاحال قائم ہے ، اس لئے دینی مدارس کی ضرورت بھی محتاجِ وضاحت نہیں۔ بنابریں علماء جب سے اب تک ان مدارس کے ذریعے سے دین کی نشرواشاعت اور دینی اقدار و شعائر کی حفاظت کا فریضہ نامساعداتِ احوال اور انتہائی بے سروسامانی کے باوجود سر انجام دے رہے ہیں۔ یہ انھیں مدارس کا فیض ہے کہ ملک میں اللہ و رسول کا چرچا ہے، حق و باطل کا امتیاز قائم ہے، دینی اقدار و شعائر کا احترام و تصور عوام میں موجود ہے اور عوام اسلام کے نام پر مرمٹنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
یہ مدارس ہی ہیں جہاں سے اُمت کو بہترین داعی، تحریکات کے لئے باصلاحیت قائد، جماعتوں کے لئے مخلص رہنما، مخالفین اسلام کے مقابلہ کے لئے دندان شکن مناظر اور صاحب تحقیق قلم کار ملے ہیں۔یہ مدارس ہی ہیں جہاں سے قرآن کے مفسر ، احادیث نبوی کے شارح ، فقیہہ ، مسجد و محراب کو آباد کرنے والے امام و خطیب اور حق گو و بے باک صحافی تیار ہوتے ہیں۔آج اُردو زبان کی تحفظ و بقا کا ہر طرف واویلا ہے لیکن اہل وطن اس کی طرف بالکل توجہ نہیں دیتے ۔ آج اردو زبان ان ہی دینی مدار س کے دَم سے باقی ہے، ورنہ جس طرح معیشت اور روزگار سے اس کا رشتہ کاٹ دیا گیا ہے۔ اس زبان کا باقی رکھنا کافی مشکل تھا۔آج یونیورسٹیوںاور کالجوں میں اُردو ٹیچرس، عربی وفارسی اساتذہ کی ایک بڑی تعداد ان ہی دینی مدارس میں نشوو نماپائی ہے اور تعلیم و تدریس کے اعتبار سے بھی یہی حضرات درس گاہوں میں ممتاز سمجھے جاتے ہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج یونیورسٹیوں اور کالجوں میں جو طلبہ عصری درس گاہوں سے آتے ہیں ان کی استعداد افسوس ناک حد تک سطحی ہوتی ہے اور یہی حال ایسے پس منظر رکھنے والے اساتذہ کا بھی ہوتا ہے ، کہ بعض دفعہ وہ نہایت مضحکہ خیز باتیں کہہ جاتے ہیں اور دینی مدارس کے معمولی فضلاء کے لئے بھی ایسی غلطیاں حیرت انگیز ہوتی ہیں۔اُردو زبان و ادب، اُردو اخبارات کی بقا آج ان ہی دینی مدارس سے ہے۔ہزاروںاردو رسائل ان ہی مدارس سے نکلتے ہیں اور ہزاروں اخبارات کو ان ہی مدارس اسلامیہ کے لوگ خریدتے اور پڑھتے ہیں۔مدارسِ اسلامیہ کا ذریعہ ء تعلیم اردو ہے۔ ہندوستان میں جتنے دینی ، اصلاحی ، مذہبی، تہذیبی کتابیں علماء نے لکھی ہیں اکثر اردو زبان میں ہیں۔ اسلامی کتب کااہم ذخیرہ اسی اردو زبان کا مرہون منت ہے۔اس لئے یہ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اس دور میںمدارس اسلامیہ حفاظت اسلام اور مسلمانوں کی زندہ تحریک ہے جو رہتی دنیا تک انشاء اللہ باقی رہے گی۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS