پنکج چترویدی
دارالحکومت دہلی سے متصل غازی آباد کی ایک کثیر المنزلہ عمارت کی سوسائٹی میں ہولی سے پہلے تقریباً 15 دن تک دھرنا جاری رہا۔ مارپیٹ-تھانہ-مقدمے ہوئے۔ حتیٰ کہ ایم ایل اے بھی پہنچ گئے۔ معاملہ تھا سوسائٹی کے احاطے میں گلی کے کتوں کو کھانا کھلانے کا۔ ایک گروپ کا دعویٰ تھا کہ یہ کتے بچوں کو کاٹتے ہیں، گندگی بھی کرتے ہیں۔ رفتہ رفتہ علاقے کی کئی دیگر سوسائٹیوں سے بھی یہ آواز بلند ہونے لگی، بینربنے، نعرے لگے، موم بتی جلوس بھی نکالے گئے۔ غور طلب ہے کہ جس علاقے میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے وہاں ٹوٹی سڑکیں، پانی کا جمع ہونا، ٹریفک جام اور تجاوزات، پینے کا پانی خریدنا جیسے مسائل برسوں سے ہیں لیکن کبھی یہ معاشرہ اس کے لیے آواز اٹھاتا ہوا نظر نہیں آیا۔ ویسے یہ صرف راج نگر ایکسٹینشن کا ہی تنازع نہیں ہے، دہلی این سی آر میں نوئیڈا ہو یا گروگرام یا پھر دہلی کی تنگ گلیوں میں نچلے متوسط طبقے کے لوگوں کی بستیاں، ہر جگہ سڑک کے کتوں کو کھانا کھلانے والے اور کتوں سے ڈرنے والوں میں سال بہ سال تنازعات بڑھ رہے ہیں۔ غازی آباد میں تو آوارہ بندروں کی بڑی دہشت ہے، وہ کپڑے، کھانے پینے کی چیزیں، ٹی وی ڈسک سے لے کر اے سی تک کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں، کاٹتے بھی ہیں اور گاہے بگاہے ان کے نیچے کودنے سے موت کی خبریں بھی آتی ہیں، لیکن کبھی کوئی بندروں کے خلاف آواز اٹھاتا نظر نہیں آیا۔
اگر ہم پورانک گرنتھوں اور ماضی میں جھانکیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان اور کتے کا ساتھ تقریباً بارہ ہزار سال سے ہے۔ انسان نے اپنے زمین پر پیدا ہونے کے بعد سب سے پہلے کتا پالنا شروع کیا تھا۔ ہمیں پتھر کے دور (نئے پتھر کے دور تقریباً 4000 قبل مسیح سے 2500 قبل مسیح) کے انسانوں کے ڈھانچے کے ساتھ کتا دفنانے کے ثبوت برزہوم (جموں و کشمیر) آثار قدیمہ کی سائٹ سے ملے ہیں۔ قدیم زمانے میں کتا انسان کو شکار کرنے میں مدد کرتا تھا، پھر وہ گھر اور فصل کی حفاظت بھی کرتا تھا، سب سے بڑی بات یہ کہ کم خوراک میں بھی وفادار رہنے کی خاصیت نے آج کتے کو انسان کے ذریعہ پالے جانے والے سب سے قابل اعتماد اور سب سے زیادہ تعداد والا جانور بنا دیا ہے۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ شہروں میں کچھ کتے متشدد ہو رہے ہیں لیکن غور کرنا ہی ہو گا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ شہر میں زمین کا مسئلہ تو ہے ہی پھر کثیر المنزلہ عمارتوں نے کتوں سے وہ دہلیز چھین لی جس پر بیٹھ کر وہ بغیر پالتو بنے ہی چوکیداری کیا کرتا تھا۔ مبینہ سوسائٹی میں باغ، گھومنے کی جگہیں وغیرہ کو تنگ کیا جا رہا ہے اور اگرانسانوں کے درمیان کوئی کتا آجاتا ہے تو انسان کو لگتا ہے کہ یہ اس کی جگہ پر قبضہ کر رہا ہے۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ ہر کتے کا اپنا علاقہ ہوتا ہے۔ جب کتوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی ہے تو ان کا رقبہ کم ہو جاتا ہے اور اسی کے مطابق ان کے کھانے اور سونے کی جگہ بھی سکڑ جاتی ہے۔ ایسے میں کتے عدم تحفظ محسوس کرتے ہیں کہ انسان ان کے علاقے میں گھس رہا ہے تو ایسی صورتحال میں وہ حملہ آور ہو جاتے ہیں۔
یہ خوفناک ہے کہ بقول ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) دنیا میں 36 فیصد کتے کے کاٹنے سے ہونے والے ریبیز سے موت کے معاملے ہندوستان میں ہوتے ہیں جو کہ 18,000 سے 20,000 ہے۔ ریبیز سے ہونے والی اموات میں سے 30 سے 60 فیصد معاملوں میں متاثرہ کی عمر 15 سال سے کم ہوتی ہے۔ حالانکہ کتا انسانوں پر منحصر رہنے والا جانور ہے لیکن سمجھنا ہوگا کہ کتوں میں پیچھا کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ ایسے میں کتے کو دیکھ کر بھاگنے والے کتوں کا شکار بن جاتے ہیں۔ اگر کتے کو لگتا ہے کہ آپ طاقتور ہیں تو وہ شاید آپ پر حملہ نہ کرے۔ تبھی سڑک کے کتے بچوں اور بوڑھوں پر حملہ کر سکتے ہیں۔
شہرکاری کی وجہ سے شور، ٹریفک، آلودگی، بے ترتیب پڑے کچرے سے نان ویجیٹیرین کھانااور پھراس کا چسکا لگ جانا، گاڑیوں اور احاطوں میں روشنی کی چمک بھی ایسی وجوہات ہیں جو کتے کو پر تشدد بنا رہی ہیں۔
سوشل میڈیا پر کبھی کبھار ایسے ویڈیوز دکھ جاتے ہیں جن میں کتے کسی بچے یا بزرگ پر حملہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد بہت سے لوگ اندیشے میں ہی آوارہ کتوں پر چیختے ہیں، انہیں لاتیں مارتے ہیں، ان پر پتھر پھینکتے ہیں، ان پر گرم پانی یا تیزاب پھینکتے ہیں، انہیں زہر دیتے ہیں یا دوسرے طریقوں سے ان پر زیادتی کرتے ہیں، تو کتے خود کی یا اپنے پلّوں کی حفاظت کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ شہر میں بندر یا قصبوں میں آوارہ سانڈزیادہ نقصان اور انسانوں کی موت کی وجہ بن رہے ہیں، اس کے باوجود ان کے تئیں اتنا غصہ یا نفرت نظر نہیں آتی۔ کیا انسان کے لیے کتا سب سے معصوم جانور ہے جس پر وہ اپنا غصہ نکال سکتا ہے؟
آوارہ کتوں کی تعداد میں اضافہ نہ ہو، انہیں انٹی ریبیز، انٹی ڈسٹیمپر ویکسین بروقت لگوائی جائے-اس کے لیے بلدیاتی ادارے لاپروا ہیں، وہیں معاشرہ میں بہت سے لوگوں کے لیے اعلیٰ نسل کا کتا اسٹیٹس سمبل ہے لیکن وہ اس سے ایک فیصد کم خرچ میں پلنے والے دیسی کتوں کو پالنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
انسان کی کتوں کے تئیں بڑھتی ہوئی نفرت کے پیش نظر اتراکھنڈ ہائی کورٹ کا جولائی-2018 میں دیا گیا وہ حکم اہم ہے جس میں لکھا تھا – جانوروں کو بھی انسان کی طرح ہی جینے کا حق ہے۔ وہ بھی تحفظ، صحت اور ظلم کے خلاف انسان جیسے ہی حقوق رکھتے ہیں۔ ویسے تو ہر ریاست نے الگ الگ جانوروں کو ریاستی جانور یا پرندہ قرار دیا ہے لیکن اصل میں جانور ان سے بچتے نہیں ہیں۔ جب تک معاشرے کے تمام طبقات کو یہ پیغام نہیں ملے گا کہ قدرت نے زمین پر انسان، نباتات اور حیوانات کو جینے کا مساوی حق دیا ہے، تب تک ان کے تحفظ کو انسان اپنا فرض نہیں سمجھے گا۔ یہ صحیح ہے کہ جانور اور پودے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا نہ مقابلہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنا درد بیان کرسکتے ہیں۔ کتا بھی انسان اور نیچر کے درمیان کی سائیکل کا ایک لازمی حصہ ہے۔ اسے نئے طرح کے شہر اور ان سے ہم آہنگ ہونے میں وقت لگے گا لیکن اس وقت تک انسان کو ہی اس کے تئیں حساسیت کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
[email protected]