مضبوط اپوزیشن جمہوری نظام کیلئے بے حد ضروری

0

عبدالماجد نظامی

عوام کے ذریعہ منتخب حکومت کی اہمیت کس قدر ضروری ہے، اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اپوزیشن پارٹیاں کسی بھی طرح اہمیت کے اعتبار سے کمتر ہوتی ہیں۔ ایک مضبوط اپوزیشن کے بغیر صحت مند جمہوری نظام کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ویسٹ منسٹر ڈیموکریسی جس کی اتباع ہندوستانی جمہوری نظام میں خاص استعماری پس منظر کی وجہ سے ہوتی ہے اور جس کا مرکز برطانیہ ہے، وہاں تو اپوزیشن پارٹیوں کی اس قدر اہمیت ہے کہ وہ ایکShadow Government کی طرح کام کرتی ہیں اور برسر اقتدار پارٹی اس اصول کی ہر طرح سے پابندی کرتی ہے تاکہ ایک متوازن اور عادلانہ نظام کو یقینی بنایا جاسکے۔ یہی حال آسٹریلیا کا ہے جہاں اپوزیشن پارٹی کی بات کو بڑی سنجیدگی سے سنا جاتا ہے اور ہر فیصلہ میں ان کی آراء کو قابل توجہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح سے امریکی جمہوری نظام میں بھی اس کا خاص خیال رکھا گیا ہے اور اس میں Check and Balance کی اس حد تک رعایت کی گئی ہے کہ اپوزیشن پارٹی فیصلہ سازی میں لگ بھگ برابر کی شریک ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ کانگریس یا سینیٹ میں اگر برسراقتدار پارٹی اکثریت سے پیچھے رہ جائے تو اس کے لیے قانون سازی کا عمل نہایت دشوار ہوجاتا ہے اور صدر کو اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرنے کی ضرورت پیش آجاتی ہے۔ غرض کہ دنیا میں جمہوریت کو اسی وقت پھلنا پھولنا نصیب ہوتا ہے جب اپوزیشن پارٹیوں کو بھی اپنا دستوری کردار نبھانے کی نہ صرف آزادی دی جائے بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران اپنا جمہوری حق استعمال کرسکیں اور برسر اقتدار پارٹی کی پالیسیوں سے متعلق غلطیوں کی نشاندہی کرکے اس میں مطلوب تبدیلیوں کو داخل کرنے والی گنجائش بھی ان کے لیے باقی رکھی جائے۔ خود ہمارے ملک کا جو جمہوری نظام ہے وہ اگرچہ پہلی دنیا(First World) کی جمہوریتوں کی طرح بہت پختہ نہیں ہوا ہے لیکن ماضی میں جو بھی حکومتیں تشکیل پائی ہیں، ان میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ اپوزیشن کے سامنے مسائل کھڑے نہ کیے جائیں اور ان کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش نہ کی جائے۔ جواہر لعل نہرو کی وزارت عظمیٰ کے دوران اٹل بہاری واجپئی کے جو تیکھے لیکن مثبت تبصرے پارلیمنٹ کے مباحثوں کے دوران ہوئے ہیں، وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ ماضی میں ہمارے لیڈران نے اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ نظریات یا آئیڈیالوجی کا اختلاف اس حد تک نہ پہنچ جائے کہ اس میں جمہوریت کا گلا گھٹ جائے۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو آج ہندوستان علمی، اقتصادی اور سیاسی ترقی کے اس مقام تک نہیں پہنچتا جس کا مشاہدہ2014سے قبل کیا گیا تھا۔ ان دنوں برسراقتدار پارٹی جس طرح کا رویہ اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہے، وہ ایک مضبوط جمہوری نظام کے لیے کسی بھی طرح سے قابل ستائش نہیں کہاجا سکتا ہے۔ ہندوستانی پارلیمنٹ میں سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس ہے اور اس نے اس ملک کی آزاد تاریخ میں سب سے طویل مدت تک حکومت کی ہے اور بجاطور پر اسے اس بات کے دعویٰ کا حق ہے کہ اس نے اس ملک کی تعمیر و ترقی میں سب سے کلیدی رول ادا کیا ہے۔ گرچہ اس سے بڑی غلطیاں بھی ہوئی ہیں جن میں اندرا گاندھی کے ذریعہ ایمرجنسی کا نفاذ شامل ہے۔ لیکن کانگریس پارٹی اپنی اس تاریخ پر کبھی فخر نہیں کرتی ہے بلکہ واضح الفاظ میں اس بات کا اقرار کر چکی ہے کہ وہ ایمرجنسی کا دفاع نہیں کرتی ہے۔ آج اس پارٹی کے سب سے نمایاں چہرہ اور گاندھی فیملی کی علامت کے طور پر پہچانے جانے والے سابق ممبر پارلیمنٹ راہل گاندھی کے ساتھ جس طرح کا سلوک کیا جا رہا ہے، وہ عالمی سطح پر ہندوستان کی امیج کے لیے بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ جس طریقہ سے2019کے ان کے ایک سیاسی بیان کی وجہ سے اور قانونی داؤپیچ کا استعمال کرتے عدالت کے سہارے ان کی رکنیت ختم کی گئی ہے، وہ اس ملک میں جمہوریت کے مستقبل کے لیے سخت وارننگ ہے۔ الیکشن کے موقعوں پر عوام کو رجھانے کے لیے ’کانگریس مُکت بھارت‘ جیسے جملوں کا استعمال کرنا اور بات ہے لیکن عملی طور پر اس پر عمل پیرا ہونا اور اپوزیشن کے لیے مسائل پیدا کرنا ملک کے بہتر مستقبل کے لیے صحیح قدم نہیں قرار دیا جا سکتا ہے۔ کہنے کو تو کہا جا سکتا ہے کہ پارلیمنٹ سے راہل گاندھی کی رکنیت ختم کرنے کا عمل تبھی شروع ہوا تھا جب ہتک عزت معاملہ میں عدالت کا فیصلہ آگیا تھا لیکن جس سرعت کے ساتھ یہ قدم اٹھایا گیا ہے، وہ ظاہر کرتا ہے کہ معاملہ اتنا سیدھا اور آسان نہیں ہے۔ یہ دراصل تمام اپوزیشن پارٹیوں کے لیے ایک سگنل دینے جیسا ہے کہ وہ اپنے الفاظ بہت ناپ تول کر بولیں ورنہ انہیں نمائندگی کے حق سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ اس سگنل میں ایک قسم کی دھمکی بھی مخفی ہے اور کہیں نہ کہیں اظہار رائے کی آزادی سے انہیں محروم کرنا ہے اور یہ بڑے خطرہ کی بات ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی جو کہ آج نہ صرف سب سے مضبوط پارٹی ہے بلکہ لگاتار دو ٹرم سے بھاری اکثریت کی بدولت نریندر مودی جیسے معروف اور قدآور لیڈر کی قیادت میں اس ملک پر حکومت کر رہی ہے، اس کو اپنا دل بڑا کرنا چاہیے اور اپوزیشن پارٹیوں کو ان کا دستوری حق دینا چاہیے تاکہ جمہوری نظام کو صحیح سمت میں لے جانے کا سہرا ان کے سر بندھ سکے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا ہے اور بر سر اقتدار پارٹی اسی نہج پر قائم رہتی ہے جس پر وہ گزشتہ نو برسوں سے قائم ہے تو پھر چاٹم ہاؤس اور نیو یارک ٹائمس جیسے بین الاقوامی اداروں کی جانب سے منفی تبصروں کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ بی جے پی جس نے ہندوستان کو عالمی نقشہ پر رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے، اس کو یہ سمجھنا چاہیے کہ دنیا میں امیج کو بہتر بنانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کی قدروں کو پروان چڑھایا جائے، جمہوری اداروں کو اپنا کام آزادی کے ساتھ اور دستور کی روشنی میں کرنے کا موقع دیا جائے اور عدلیہ، مقننہ اور ایگزیکٹیو کو جو الگ الگ اختیارات فراہم کیے گئے ہیں، ان میں بے جا مداخلت نہ کی جائے۔ اس پورے معاملہ میں اپوزیشن پارٹیوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور جمہوریت کو جو خطرات درپیش ہیں، ان کے خلاف پوری مستعدی سے کھڑی ہوجائیں۔ راہل گاندھی کی رکنیت کا خاتمہ تمام اپوزیشن پارٹیوں کے لیے چیلنج کے ساتھ ساتھ ایک موقع بھی ہے کہ وہ یہ پیغام برسراقتدار پارٹی کو دیں کہ ان کے درمیان فروعی مسائل میں اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن جب بات جمہوری قدروں کی حفاظت کی ہوگی تو پھر وہ اپنے سارے اختلافات بالائے طاق رکھ کر اس دستوری روح کی حفاظت کریں گی جس کی بدولت اس ملک کو دنیا میں عزت اور اعتبار حاصل ہوا ہے۔ یہی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہوگی۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS