مغربی ایشیا کے 6اہم ممالک نے امریکہ سے مطالبہ کیاہے کہ وہ فلسطینیوں کو ٹارگیٹ کرنے والے اسرائیلی افواج تمام اقدامات کی طرف متوجہ ہو اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرے۔یہ ممالک ایشیا کی اہم فوجی طاقت اور اتحاد گلف کوآپریشن کونسل (جی سی سی) سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان ممالک کے وزرائے خارجہ نے امریکہ کو مکتوب لکھا ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین کے حل کرنے میں اپنی ذمہ داری اداکرے۔خیال رہے کہ پچھلے دنوں اسرائیل کے وزیر مالیات بیزیل اسموریچ نے کہاتھا کہ فلسطینی نام کے کوئی قوم اب یہاںنہیں رہتی ہے ، اس پر پوری عرب دنیا میں سخت ناراضگی کا اظہار کیا گیا تھا۔ امریکہ کے دفتر خارجہ نے بھی اس سلسلے میں شدید ناگواری ظاہر کیا تھا۔ اسموریچ اسرائیل کی حکومت کے ایک اہم رکن ہیں اور ا ن کا تعلق دائیں بازو کی جماعت (Religionszionigt party)سے ہے۔
اسمورچ کی سیاسی جماعت (Religionszionigt party)کی اسرائیل کی پارلیمنٹ میں صرف7 نشستیں ہیں۔یہ پارٹی شام اور فلسطینیوں کے خود مختارریاست کے دعوئوں کو خارج کرتی ہے ۔انہوں نے اپنے علاقوں کولے کر ہیں اور وہ مغربی کنارے کو سرزمین اسرائیل میں شامل کرنے کے حق میں تھے۔
جی سی سی نے اسمورچ کے اس بیان کی بھی سخت مذمت کی ہے جس میں انہوں نے کہاتھا کہ حوارہ قصبے کو مغربی کنارے سے نیست ونابود کردینا چاہئے۔ ان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیاتھا جب مغربی کنارے کے قصبہ کے گردو نواح میں کئی چھڑپیں ہوئی تھیں، مقامی مکین، فلسطینیوں اور دنیا بھر سے بستیوں میں لاکر بسائے گئے، یہودیوں کے درمیان پرتشدد واقعات ہوئے تھے، مغربی کنارے میں کئی ماہ سے پرتشدد واقعات میں اضافہ ہواہے۔اسرائیل نے مغربی کنارے کو 1967میں ہڑپ لیاتھا۔
قبل چند روز قبل اسرائیل کی پارلیمنٹ نے مغربی کنارے میں تعمیر ہونے والی بستیوں کو منظوری دینے کی قرارداد پاس کی تھی ۔کئی ممالک نے اس قرارداد کو غیر مناسب قرار دیاتھا۔یہ پہلے موقع نہیں ہے جب مغربی کنارے کے پرتشددمعاملات جنون میں ہیں۔ اسرائیل کا منصوبہ ہے کہ اس خطے کو اپنی سرزمین میں ملا لیاجائے۔ مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کا ہیڈکوارٹر ہے اور 1992میں اوسلومعاہدہ کے مطابق اس علاقے میں ایک محدود اختیار والی فلسطینی ریاست کا ایک ہیڈکوارٹر قائم کیا گیا تھا۔مغربی کنارے کو ملانے میںاگر اسرائیل اپنے منصوبہ میںکامیاب ہوجاتاہے تو اس فلسطینی ارتھارٹی انتظامیہ کا تصورختم ہوجائے گا اور مغربی کنارہ وہ حصہ جس کے بارے میں فلسطینیوں کا منصوبہ ہے کہ فلسطینی کی مستقبل کی آزاد ریاست کا اہم حصہ ہوگا، مکمل طور پر اسرائیل کے قبضہ میںآجائے گا۔اسرائیل اس سے قبل بھی کئی ممالک کے زمین پر فوج کی طاقت پر قبضہ کرکے اس کو اپنی سلطنت میں ملا چکاہے۔مغربی کنارے اردن کا قبضہ تھا اور مشرقی یروشلم میں قائم بیت المقدس کے کسٹوان اردن کے حکمراںہیں۔ قبضہ کی گئی سرزمین میں شام کی زمین جولان پہاڑیاں بھی شامل ہیں۔اسرائیل کی موجودہ حکومت بھی جو کہ سخت شدت پسند عناصر کی نمائندگی کرتی ہے اپنی منشا ظاہر کرچکی ہے کہ اس کی تمام تر توجہ مغربی کنارے میں یہودی بستیا بسانے پر ہے۔ امریکہ نے بھی اسرائیل کی بستیوں کے تعمیر کے منصوبوں کو ناجائز اور غیر قانونی قرار دیاہے۔مگر عالمی برادری ،اقوام متحدہ کی عالمی قوانین کے مطابق اس خطے میں اگر اسرائیل کوئی بھی تعمیراتی سرگرمیاں انجام دیتی ہے تو وہ ناجائز ہوگی۔دیکھنا یہ ہے کہ جی سی سی ممالک جو کہ خطے میں بڑا اثر ورسوخ رکھتے ہیں کہ مکتوب کا اثر کیاہوتاہے۔مبصرین کا کہناہے کہ اس مکتوب لکھا جانا اس بات پر زور دیناہے کہ امریکہ اس ضمن میں امریکہ اپنی ذمہ داری پوری کرے جو اس حیثیت سے اس کو حاصل ہے کہ وہ 1992کے اوسلو معاہدہ کا اصل طاقت اور پلتیر ہے۔ امریکہ کے دبائو میں اسرائیل نے یہ معاہدہ کیاتھا۔ امریکہ نے اپنی اثرورسوخ کا استعمال کرکے پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات اور ا ن کی سیاسی جماعت الفتح کو اس بات کے لئے مجبور کیاتھا کہ وہ دوسرے انتقا ضہ کو ترک کرکے اسرائیل کے ساتھ سفارتی طریقے اور بقائے باہمی کے اصولوں پر عمل کرکے ایک محدود اختیار والی حکومت قائم کرلے۔مگر 30سال گزرنے کے باوجود اس معاہدہ کو پوری طریقے سے عمل میں نہیں لاجاسکاہے اور اسرائیل فلسطینی علاقوں میں زیادہ سے زیادہ اثر ورسوخ اورعمل دخل بڑھاتا جارہاہے۔پچھلے سال ماہ رمضان میں جب اسرائیل میں ایک کارگزار حکومت قائم تھی اور عام انتخابات کی تیاری چل رہی تھی اس وقت بھی اسرائیل نے غزہ پر حملہ کیاتھا جس میں بڑی تعداد میں فلسطینی جاں بحق ہوئے تھے۔ عالمی سطح پر بار بار اس بات پر زور دیا جارہاہے کہ اقوام متحدہ اور دیگر فریق مذاکرات شروع کرکے اسرائیل کو اس بات کے لئے مجبور کریں کہ وہ 1992کے معاہدہ پر عمل کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ مگر تمام تر کوشش کے باوجود اسرائیل کے کسی قول وعمل سے یہ ظاہرنہیں ہوتاہے کہ وہ اپنی وعدوں کو پورا کرے گا اور سمجھوتے پر عمل درآمدکرائے گا۔
جی سی سی کے چھ ممبرممالک متحدہ عرب امارات ،مملکت بحرین، سعودی عرب،سلطنت عمان،قطر اور کویت ہیں۔جی سی سی کا ہیڈکوراٹرریاض میں ہے۔ 25مئی 1981میں معرض وجود میں آنے والے جی سی سی میں تین اور ممالک کے شامل ہونے کی تجویز زیر غور ہے۔ یہ ممالک اردن، مراقش اور یمن ہیں۔فی الحال چھ ممالک پر مشتمل اس تنظیم کا مقصد مشترکہ کسٹم ،مشترکہ بازار اور ایک سی کرنسی کا نفاذہے۔
چھ ممالک کے اس خطے کے بارے میں کہاجاتاہے کہ اس کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے والے اقتصادی علاقے میں ہوتاہے۔تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر ہونے کی وجہ سے یہ خطے ایک مستحکم معیشت ہے۔ چھ میں چار ممالک بحرین ،کویت، قطر اور سعودی عربیہ مشترکہ کرنسی کے لئے درکار اقدام کرنے میں زیادہ دلچسپی ظاہر کرہے ہیں۔جی سی سی کے چوٹی اجلاس میں امریکہ اور چین کے صدور کی شرکت سے کئی حلقوں میں اس کی اہمیت کو محسوس کیاگیا ہے۔یہ مغربی ایشیا کی سب سے دولت مند اور فوجی اعتبار سے طاقتور ممالک ہیں۔rt
جی سی سی:مسئلہ فلسطین کو حل کرانے کیلئے امریکہ پردبائو
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS