لندن میں موجود ماڈل ماریکے نے ایک اشتہار کا شوٹ کرتے ہوئے بتایا کہ ’میری صنعت کے لیے یہ بہت اہم ہے کہ آپ کیسے نظر آتے ہیں۔‘
ماریکے کا تعلق کیپ ٹاؤن سے ہے۔ انھوں نے بی بی سی بزنس ڈیلی کے ریڈیو شو سے بات کی ہے جس میں انھوں نے بتایا ہے کہ اُن کی نوکری میں اس پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے کہ وہ کیسی نظر آتی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’آپ سے یہ امید کی جاتی ہے کہ آپ اچھے نظر آئیں۔ اگر آپ اچھے نظر نہیں آتے، صحتمند نہیں اور صحتمند ڈائٹ کے ساتھ فعال زندگی نہیں گزارتے تو آپ اس نوکری میں خود کو نہیں دیکھ سکیں گے۔‘
حالیہ تحقیق میں ظاہر ہوا ہے کہ پُرکشش لوگوں کی زندگی قدرے آسان اور بہتر ہو سکتی ہے۔ماہر معیشت ڈینیئل ہیمرمیشن کے مطابق امریکہ میں پرکشش لوگ، کم پُرکشش افراد کے مقابلے اپنی زندگی میں اوسطاً 237000 ڈالر تنخواہ کی مد میں زیادہ کماتے ہیں۔
مفٹ پراڈکٹ اور تجربے:حال ہی میں سوشل نیٹ ویب سائٹس پر متعدد خواتین نے بتایا کہ محض اپنی تصاویر اپ لوڈ کرنے سے انھیں کئی فائدے مل جاتے ہیں۔’یہ کمال بات ہے کہ لوگ کتنا اچھا سلوک برتتے ہیں جب وہ کسی کو پُرکشش پائیں۔‘’مجھے اسکول کی ہر نوکری مل جاتی ہیں حتیٰ کہ جب میرے پاس اس کے لیے درکار تجربہ نہ بھی ہو تب بھی۔’ریستوران میں مجھ سے مشروبات یا میٹھے کے عوض پیسے نہیں مانگے جاتے۔‘
اوپر دیے گئے وہ جوابات ہیں جو بزنس ڈیلی کو متعدد خواتین نے اس وقت دیے جب اُن سے اس حوالے سے پوچھا گیا۔یہ بھی اہم ہے کہ وہ پلیٹ فارم جو اس حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہیں وہی اس کے نفاذ کے ذمہ دار ہیں۔
ماریکے کے خیال میں انسٹاگرام پر ایسا اکثر دیکھنے میں آتا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’کمپنیاں آپ کو مفت کے تجربات کے لیے بلاتی ہیں اور آپ کو کئی برانڈڈ مصنوعات مفت میں مل جاتی ہیں۔ آپ کو صرف ان برانڈز کے لیے انفلوائینسر بننا پڑتا ہے اور ان مصنوعات کو اپنے اکاؤنٹ میں دکھانا ہوتا ہے (جس سے دیکھنے والے کو یہ گمان ہو کہ آپ یہ مصنوعات استعمال کرتے ہیں) آپ اس کی مدد سے مفت میں مشروبات پی سکتے ہیں اور بغیر پیسے دیے کھانا کھا سکتے ہیں۔‘ان کے مطابق ’اس سے ریستوران (سوشل میڈیا پر) اچھا نظر آتا ہے کیونکہ خوبصورت لڑکیاں وہاں اچھا وقت گزارتی دیکھی جا سکتی ہیں۔‘
اس پر یہ سوال تو بنتا ہے کہ آیا کسی کے اچھے نظر آنے سے انھیں پیدائش سے ہی وہ فائدے ملنا شروع ہوجاتے ہیں جو ان کے مقابلے کم پُرکشش لوگوں کو نہیں مل پاتے۔
ماریکے کہتی ہیں کہ اگر آپ اچھے نظر آتے ہیں اور صحتمند رہتے ہیں تو آپ کو اس کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے، خاص کر اگر مہنگے شہروں میں رہتے ہوئے اس سے آپ کی بچت ہوتی ہیں۔
سوشل میڈیا مبصر ہینا وان دی پیئر کے مطابق خوبصورتی سے جڑے تعصب کو انفلوائنسرز کی نگاہ سے دیکھنے سے بہتر طریقے بھی موجود ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ٹوئٹر پر آپ کو اچھا نظر آنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس پلیٹ فارم پر آپ کے الفاظ معنی رکھتے ہیں۔ آپ کو سیاسی اور سماجی طور پر آگاہ رہنا پڑتا ہے۔ آپ کے ہزاروں فالوورز ہو سکتے ہیں مگر اس کے باوجود آپ کو گزر بسر کے لیے فل ٹائم نوکری درکار ہوتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’انسٹاگرام پر آپ کو خوبصورت ہونے کی وجہ سے پراڈکٹ پرموٹ کرنے اور اپنی روزمرہ زندگی دکھانے کے پیسے ملتے ہیں۔ برانڈ اور کمپنیاں آپ کے ساتھ کام کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ ریئلٹی شوز آپ سے رابطہ کرتے ہیں تاکہ آپ میزبان یا پارٹسپنٹ (پروگرام میں شریک مہمان) بن سکیں۔ خوبصورت ہونے سے آپ لاکھوں کما سکتے ہیں۔‘
خوبصورت نظر آنا آپ کو کہاں تک لے جا سکتا ہے؟
آپ اس بات کو پسند کریں یا نہیں، خوبصورت چہرے معاشیات اور نوکریوں کی مارکیٹ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ محض ہالی وڈ، سوشل میڈیا اور اشتہاروں تک محدود نہیں۔ہیمرمیش کے مطابق ’یونیورسٹیوں میں بھی پُرکشش ہونے سے فرق پڑتا ہے۔ حالیہ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ پُرکشش انسان زیادہ آمدنی کماتا ہے اور اسے بہتر تعلیم و روزگار کے مواقع ملتے ہیں۔‘انھوں نے معیشت پر خوبصورتی کے اثرات پر تحقیق کی ہے۔
ان کے نتائج کے مطابق پُرکشش لوگ اپنی زندگیوں میں 237000 ڈالر کم پرکشش نظر آنے والوں سے زیادہ کماتے ہیں۔ اس تحقیق کو اوسط تنخواہ 20 ڈالر فی گھنٹے کے اعتبار سے ریکارڈ کیا گیا ہے، تاہم یہ فرق اس سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔اس کا تعلق بھی صنفی فرق سے ہے۔ ہیمرمیش کے مطابق پُرکشش مرد خوبصورت خواتین کے مقابلے زیادہ کماتے ہیں جبکہ کم پُرکشش مرد کم پُرکشش خواتین سے کم کماتے ہیں۔ یہ نتیجہ امریکہ کے ڈیٹا سے نکالا گیا ہے۔اس حقیقت کے باوجود کہ خوبصورتی اور دلکشی شخصی ہو سکتی ہے ، ذہانت جیسی دیگر خصوصیات پر اثر انداز ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مارکیٹ جیسے شعبوں میں خوبصورتی کے اثرات اس سے مبرا ہیں۔
ہمرمیش بتاتے ہیں کہ یہ تقریبا 200، 300 سال پہلے سے ہوتا آ رہا ہے، اور یہ ایک تصور ہے جو کچھ ترقی پذیر ممالک میں اب بھی موجود ہے۔
’بہتر نظر آنے کا مطلب ہے کہ آپ صحت مند ہیں اور اگر آپ ان معاشروں میں صحت مند ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ری پروڈیوس کرنے میں اچھے ہیں۔ آج زیادہ تر مغربی ممالک اور صنعتی معاشروں میں یہ سچ نہیں ہے، لیکن ایک استاد کی حیثیت سے مجھے دوسرے، زیادہ پرکشش استاد کی طرح ہی صلاحیتوں کے حساب سے کمانا چاہیے۔. لیکن جسمانی ظاہری شکل ایک ایسی چیز ہے جو مسلسل متاثر ہوتی رہتی ہے۔‘
جسم کے وزن کا سوال:خوبصورتی کے علاوہ، کام پر جسمانی وزن کی باعث امتیاز بہت زیادہ ہے اور یہ سب سے بڑھ کر کورونا کی عالمی وبا کے دوران دیکھا گیا تھا۔بہت سے لوگوں نے کووڈ 19 کے دوران اپنے نقصانات کے بارے میں بات کی، قرنطینہ کے دوران گھر سے کام کرتے ہوئے بڑھنے والے 15 پاؤنڈ وزن کا حوالہ دیا۔معاشرے میں پوشیدہ تعصب لوگوں کو ایسے وزن کو برقرار رکھنے میں پیسہ اور وقت خرچ کرنے پر مجبور کرتا ہے جسے خوبصورتی کا معیار بنا لیا گیا ہے۔یہاں تک کہ میڈیا میں بھی دفتر واپس آنے سے پہلے وزن کم کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
کینیڈین مصنفہ ایملی لارین ڈک کہتی ہیں کہ ’موٹے افراد کے عام وزن والے ملازمین کے مقابلے میں کم کمانے کا زیادہ امکان ہوتا ہے کہ کیونکہ اسے ان کی قدر و قیمت کے تصورات سے جوڑا جاتا ہے۔‘
’یہ دیکھنے کے لیے کہ اُن کے ساتھ کیا کیسا سلوک ہوتا ہے آپ کو صرف ٹیلی ویژن آن کرکے کوئی فلم دیکھنا ہو گی ۔ انھیں بدصورت اور کم تر سمجھا جاتا ہے، کم ذہین اور کم پسندیدہ۔ اس کی وجہ سے انھیں غیر منصفانہ سلوک، غنڈہ گردی اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘مریکہ میں بوسٹن میڈیکل سینٹر کے ایک اندازے کے مطابق ساڑھے چار کروڑ امریکی ہر سال ڈائٹ کرتے ہیں اور ہر سال 33 ارب ڈالر ان مصنوعات پر خرچ کرتے ہیں جو وزن کم کرنے میں مدد کرنے کا وعدہ کرتی ہیں۔’تین سال کی عمر کے بچوں کو جسم کی شبیہہ کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ ہمیں قبول کیا جائے اور ہم خوش حال زندگی بسر کریں۔‘ لارین ڈک کہتی ہیں کہ کمپنیاں ہمارے عدم تحفظ سے مالا مال ہو گئی ہیں۔
پوشیدہ تعصب:یہ حقیقت ایک لاشعوری یا پوشیدہ تعصب کا باعث بنتی ہے جو زیادہ پرکشش لوگوں کو فائدہ دیتی ہے۔اور یہ ایک پیشہ ور ملازم کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، جس کا انتخاب کے عمل اور ترقیوں پر اثر پڑتا ہے۔
شیفیلڈ ہالم یونیورسٹی کے برطانیہ کے ایک حالیہ مطالعے میں، آجروں کو ایک جیسے سی وی دیے گئے تھے۔ پہلے موٹے لوگوں کی تصاویر کے ساتھ اور پھر پتلے لوگوں کی تصاویر کے ساتھ۔اور اس میں پتلے لوگوں کو منتخب کرنے کے قابل سمجھنے کا ایک واضح رجحان پایا گیا۔
اس سے کام کرنے والوں کے تنوع اور شمولیت کو نقصان پہنچتا ہے اور یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کام کی جگہیں موٹاپا فوبیا کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے کیا کر سکتی ہیں۔ لارین ڈک نے ہر قسم کے جسم والے لوگوں کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے کچھ قواعد کو تبدیل کرنے کی تجویز دی ہے۔ ان میں سے صرف آڈیو انٹرویوز کا انعقاد یا ملازمین کے لیے آگاہی کورسز متعارف کرانا شامل ہیں۔زیادہ سے زیادہ لوگ پرکشش لوگوں کو ترجیح دیے جانے کے خلاف بول رہے ہیں اور تبدیلی نظر آنے لگی ہے۔
جنوبی افریقی ماڈل ماریک کا کہنا ہے کہ انھیں زیادہ سے زیادہ یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ صرف ایک خوبصورت چہرے سے کہیں زیادہ ہیں۔
ماریک کہتے ہیں’وہ ان لوگوں یا ماڈلز میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں جن کے پاس کہانی ہے اور جو صرف ماڈل یا اداکاری سے کہیں زیادہ کرتے ہیں اور دیگر چیزوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ شخصیت بہت اہم ہو گئی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ یہ واقعی اچھا ہے‘۔خوبصورتی کی ترجیح نے کئی نسلوں سے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا ہے، لیکن میڈیا اور اشتہارات میں نمائندگی کے ذریعے آپ اس قسم کے تعصب کو ختم کرنے اور سب کے لیے بہتر مواقع پیدا کرنے میں مدد کرسکتے ہیں۔
کیا ’پُرکشش‘ اور ’خوبصورت‘ نظر آنے والوں کو پیسے کمانے کے بہتر مواقع میسر ہوتے ہیں؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS