عہد حاضر میں مذہب کا تصور

0

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی
معاشرتی ہم آہنگی اور سماجی رکھ رکھاؤ کے تصور کو اسی وقت صحیح معنوں میں سمجھا اور سمجھایا جا سکتا ہے جبکہ ہم ان روایتوں ، رسوم اور اقدار کی پاسداری پوری ایمانداری اور دیانتداری سے کریں، جن کی وجہ سے کسی بھی دھرم ، مذہب اور قوم کی شناخت وابستہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی معاشرے کے مذہبی اور ثقافتی ورثے کو مسخ و آلودہ کرنے کی جسارت ہوتی ہے تو یقیناً اس کے نتائج متنفرانہ ہی ہوتے ہیں۔ معاشرے میں انتشار یا کشمکش پیدا ہونے کی جہاں بہت ساری وجوہات ہیں، وہیں منجملہ ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ آج مذہبی روایات کو کہیں نہ کہیں پامال کیا جارہاہے۔ ایک دوسرے کی رسوم و عقائد پر انگشت نمائی کی جاتی ہے۔ جبکہ مذہبی تعلیمات یا کسی بھی قوم کے رسم و رواج کو ہدف تنقید بنانا نہ صرف یہ کہ معاشرتی عدم توازن کی علامت ہے بلکہ آئین و دستور کی رو سے بھی اس طرح کی چیزوں کی سخت ممانعت کی گئی ہے۔
مذہب کوئی بھی ہو، مذہب مذہب ہوتا ہے۔ بذات خود مذہب میں کوئی خامی نہیں ہوتی ہے۔ مذہب ہمیشہ نوع انسانی کو امن و امان اور پیار و محبت سے رہنے کی ہدایت کرتا ہے۔ مذہب ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے جس کے اندر فکری بالیدگی ، انسانی حقوق اور رشتوں کی پاسداری ، باہمی احترام، ضمیر و اعتقاد کی آزادی ، انسانی ہمدردی اور صالح افکار و نظریات سے پوری طرح مسلح ہو۔ اس لیے کسی بھی مذہب کو اس کے متبعین سے ہم آہنگ کرکے نہیں دیکھنا چاہیے۔ لیکن عہد حاضر میں دانستہ طورپرہماری غلطی اس وقت ہوتی ہے جب ہم کسی مذہب کے پیروکار کی زندگی کے مطابق اس مذہب کو سمجھنے کی سعی کرنے لگتے ہیں اور پھر اس مذہب یا اس دھرم کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ ہمارا یہ تصور یقینی طور پر اس مذہب کی حقیقی روح تک نہیں پہنچا سکتا ہے۔ ہاں یہ بات صحیح ہے کہ کسی بھی مذہب کا اصل پیروکار وہی ہوتا ہے جو مذہبی تعلیمات سے اپنی زندگی کو پوری طرح ہم آہنگ کرے۔ اس لیے اگر کسی دھرم کو سمجھنا ہے اور معاشرے میں رائج غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا ہے تو لامحالہ ہمیں اس دھرم کے حقیقی مصادر اور اصل تعلیمات کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ تبھی جاکر اس مذہب کی بابت مثبت رائے قائم کی جاسکتی ہے۔ اور اس کی اچھائیوں اور خوبیوں سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ اب ذرا تصور کیجیے کہ آج جو لوگ یا جو قومیں کسی مذہب کے خلاف باتیں بناتی ہیں، ان میں بیشتر وہ لوگ ہوتے ہیں جو مذہب کی مقدس تعلیمات سے ناواقف ہیں ، یا پھر تعصب و تنگ نظری کی بنیاد پر ایسا کرتے ہیں۔ معاشرتی توازن اور اعتدال و رنگا رنگی کو پوری آب و تاب کے ساتھ اسی وقت برقرار رکھا جاسکتا ہے جبکہ مذاہب کی تاریخ و تہذیب کی پوری معلومات حاصل کی جائیں۔ بلا تحقیق و تفتیش یا سنی سنائی باتوں پر اعتماد کرکے کوئی نتیجہ نکالنا باشعور اور زندہ قوموں کا وطیرہ نہیں ہے۔ اس رویہ سے قوموں کا فکری اور نظریاتی رجحان بھی واضح ہوتا ہے۔ ہاں یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ کبھی کبھار معاشرتی توازن بگاڑنے اور کسی سیاسی منصوبہ بندی کے تحت اقلیت کے دھرم پر حرف گیری کی جاتی ہے۔ اگر کسی تکثیری سماج میں اس طرح کا عمل انجام دیا جاتا ہے تو یہ نہ اس معاشرے کے لیے مفید ہے اور نہ ہی اس قوم و سماج کے لیے جس مذہب کے خلاف ایسا ویسا کیا جاتا ہے۔
صحت مند اور پاکیزہ و مہذب معاشرہ وہ کہلاتا ہے جو اپنے علمی اور فکری رسوخ کی بنیاد پر آگے بڑھے اور مذہب کو سمجھنے کی حقیقی کاوش کرے۔ مذاہب اور تہذیبوں کے احترام سے بھی معاشرتی زندگی میں خوشگواری اور سکون و اطمینان شامل ہوتا ہے۔ آج جہاں جہاں بھی یا جن اقوام و معاشروں نے حکومتوں کے ایماء پر جن مذاہب کے خلاف کوئی بات کہی ہے تو لازمی طور پر اس کے نتائج اچھے نہیں رہے ہیں۔ معاشرہ بنیادی طور پر امن و امان اور رواداری چاہتا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ عالمی افق پر جو معاشرے نمودار ہوئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان معاشروں میں امن و امان اور سلامتی و خوشحالی پائی جاتی ہے۔ گویا ترقی و تعمیر کی بنیاد اتحاد و اتفاق اور یکجائیت و مرکزیت پر منحصر ہے۔ البتہ جو معاشرے پرخاش اور عدم رواداری کے شکار رہیں وہ خود بخود مٹ جاتے ہیں۔ معاشرتی ہم آہنگی کا بنیادی طور پر فائدہ یہ ہے کہ اس کے اختیار کرنے سے معاشرتی تہذیب اور سماجی رویے ، قوموں کی تاریخ و ثقافت پوری طرح محفوظ رہتی ہے۔ وجود کا احساس دلانا اور اسے برقرار رکھنا بھی بڑی بات ہے۔ آج ہمیں ان خطوط اور روایات کے مطابق خود کو استوار کرنا ہوگا جن سے کسی بھی دھرم کی روح مسخ نہ ہو۔ یاد رکھیے کسی بھی سماج کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنا یہ ایسا منفی عمل ہے جس کی وجہ سے سماجی و معاشرتی امن و امان پوری طرح غارت ہو جاتا ہے۔ بناء بریں معاشرتی تہذیب کو درخشاں اسی وقت کیا جاسکتا ہے جب ہم سماج میں پائے جانے والے تمام افکار و نظریات اور مذاہب کا پوری طرح خیال رکھیں۔
عالمی سطح پر اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ اب تک سب سے زیادہ کس کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ مسلمان ہی سر فہرست ہیں۔ مذہب اسلا کے خلاف معاندین اور متشددین نے جو زہر افشانی کی ہے وہ تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرپھرے عناصر اس طرح کی مذموم اور مکروہ حرکتیں انجام دے کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟ سویڈن میں جس طرح قرآن مقدس کی بے حرمتی کی گئی اس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ سویڈن میں قرآن سوزی کا جو دل خراش واقعہ پیش آیا وہ حکومت کی نگرانی میں ہوا۔ اگر کوئی حکومت اس طرح کی مذموم کاروائی کسی مذہب کے خلاف انجام دیتی ہے تو اس کا مطلب واضح ہے کہ وہ مسلم کمیونٹی کے جذبات کو مشتعل کرنا چاہتی ہے۔ حالانکہ یہ سچ ہے کہ اس طرح کے منفی منصوبوں کے انجام دینے سے مذہب اسلام کی عظمت و جلالت اور توقیر ورفعت متاثر ہوگی اور نہ اسلام سے لوگ بد ظن ہوں گے۔ ہاں جب بھی مذہب اسلام کو ٹارگیٹ کیا گیا ہے تو نفرت کرنے کے بجائے اسلام کی تبلیغ و ترویج بڑھی ہے یہ مشاہدہ دنیا نے کیا ہے۔ یہاں ان تمام تفصیلات کو پیش کرنے کا موقع نہیں ہے۔ اس طرح کی مذموم سعی سے اتنا ضرور ہوتا ہے کہ معاشرے میں وقتی طور پر ناہمواری پیدا ہوجاتی ہے۔ لہٰذا آج جو کام کرنے کا ہے وہ یہ کہ اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں کا تدارک نہایت مؤثر اور علمی و تحقیقی انداز میں کرنا ہوگا۔ دنیا جانتی ہے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو اپنے دامن میں شانتی اور انسانیت رکھتا ہے۔ لوگوں کو اتحاد و اتفاق کی تعلیم دیتا ہے۔ گویا اسلام کی خوبیوں اور اس کے پاکیزہ نظام نے کائنات میں اخوت و محبت کا جو پیغام دیا ہے ہماری ذمہ داری ہے کہ اس کو من و عن پہنچایا جائے۔ اسلام کی تعبیر و تشریح پوری ایمانداری سے پیش کی جائے۔ خود ساختہ مسلکوں اور مفادات کے پیش نظر اسلام کی ترجمانی نہیں کی جانی چاہیے۔ اسلام کو بدنام کرنے میں آج جتنا معاندین اور متعصبین کا ہاتھ ہے اس سے کہیں زیادہ خود ہمارے مسلکی تعصب اور فکری انحراف نے کیا ہے۔ ہم اسلام کو اپنے مسلکی تناظر میں سمجنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ اپنے اپنے مسالک و نظریات کو اسلام کی تعلیمات سے ہم آہنگ کرکے دیکھنا چاہیے۔ اسلام کی وضاحت یا اس کی ترجمانی اگر کوئی اپنے مسلک کے محدود دائرہ میں رہ کر کرتا ہے تو پھر وہ یقیناً اسلام کا ترجمان نہیں ہے بلکہ ایسے ہی افراد اسلام کی مقدس روایات کو بدنام کرنے کا کام کرتے ہیں۔ آج مسلم۔ معاشرے میں جو پھاڑ اور ہمہ ہمی نظر آتی ہے اور جو مسلکی تعصب اور فکری پستی دیکھنے کو ملتی ہے اس کے توسل سے اگر کوئی مذہب اسلام کو سمجھنا چاہتا ہے تو یقیناً اسلام کو نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اسلام وہ نہیں جو آج کے مسلکی ٹھیکیداروں نے اپنے اپنے معاشی پروجیکٹ چلانے کا لیے اسلام کے نام پر نت نئے طریقے اختراع کرلیے ہیں۔ تعجب یہ ہے کہ ان اختراعی طریقوں کو ہی اسلام بتا کر پیش کیا جارہاہے۔ بلکہ اصل اسلام کو اگر سیکھنا اور سمجھنا ہے تو پھر ہمیں رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور صحابہ کرام کی زندگی کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ اسلام کی اصل نصوص کی جانب رجوع کرنا ہوگا۔ آج کے اس دور میں جہاں قومیں اور معاشرے اپنی بالادستی کو قائم کرنے کے لیے علمی اور تحقیقی و صالح تنقیدی روایات کو سامنے رکھ کر آگے بڑھ رہے ہیں ،وہیں سماج میں کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو تدبر و تفکر اور عقل و خرد کا استعمال ہی نہیں کررہے ہیں۔ بس ان کے لیے وہی کافی ہے جو ان کے آقا نے کہہ دیا۔ اس کی حقیقت کیا ہے اسی طرح اس کے سماجی اور معاشرتی اثرات کیا مرتب ہوں گے اس پر نظر ثانی تک نہی کرتے ہیں۔ لہٰذا اسلام نے عقل و خرد اور تدبر و تفکر سے مملو جس معاشرے کی تشکیل کی تھی آج اس کا عشر عشیر بھی ہماری صفوں میں دکھائی نہی دیتا ہے۔یہ تمام وہ اسباب اور عوامل ہیں جنہیں سامنے رکھ کر کوئی بھی سرپھرا اسلام کے خلاف بولنا شروع کردیتا ہے۔ اب عالمی سطح پر اہل علم و دانش اور فکر و نظر کو سوچنا ہوگا کہ ایسے کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے اسلام پر بھی کوئی حرف گیری نہ کرسکے اور نہ ہی معاشرتی سطح پر کسی بھی طرح کی بدامنی یا بد عنوانی پیدا ہو سکے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS