عبیداللّٰہ ناصر
بھارت جوڑو یاترا کے بعد راہل گاندھی کی امیج میں زبردست سدھار، عوام کے ایک بڑے طبقہ کا ان کی طرف راغب ہونا اور سونے پرسہاگہ اڈانی گیٹ نے مودی سرکار کی امیج کو مٹیامیٹ کر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ راہل پر پھر من گڑھنت الزام تراشی شروع کر دی گئی ہے۔ میڈیا میں اڈانی گیٹ کو دبایا جا رہا ہے۔ دہلی کے نائب وزیراعلیٰ منیش سسودیا کو جیل بھیج کر لالو پرساد یادو کے کنبہ سے پوچھ گچھ شروع کرکے عوام کا ذہن دوسری طرف منتقل کیا جا رہا ہے۔ جھوٹ کو پھر کامیاب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن سچ سامنے آ ہی جاتا ہے۔راہل گاندھی کے لندن میں دیے گئے بیان خاص کر ہندوستان میں جمہوریت کے تحفظ کے لیے غیر ملکی مداخلت کی بات کہنے کی ہوا لندن میں مقیم ہندوستان کے دو سینئر صحافیوں نے نکال دی ہے، ان میں شیو کانت شرما بھی شامل ہیں جو بی بی سی ہندی سے وابستہ ہیں، وہ عام طور سے کانگریس مخالف ہی سمجھے جاتے ہیں لیکن ایک ہندوستانی چینل پر ہوئے مباحثہ میں انہوں نے واضح کر دیا کہ راہل نے ایسی کوئی بات نہیں کہی تھی۔ یہاں تک کہ جب ایک غیر ملکی صحافی نے ان سے پوچھا کہ ہندوستان میں جمہوریت کی بقا کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں تو انہوں نے صاف طور پر کہا کہ آپ لوگوں کو کچھ نہیں کرنا ہے کیونکہ جو کرنا ہے وہ ہندوستان کے140کروڑ لوگوں کو ہی کرنا ہے۔ یہی بات دوسرے سینئر صحافی راہل دیو نے کہی جو کئی اخباروں اور چینلوں کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں، اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہندوستانی میڈیا حکومت کے اشارے پر راہل کو بدنام کرنے کی مہم کا حصہ بنا ہوا ہے۔ ہندوستانی میڈیا کی اسی روش کی وجہ سے اس کی ساکھ مٹی میں مل چکی ہے اور عالمی رینکنگ میں وہ180میں سے150ویں نمبر پر آ گیا ہے۔
کہا جارہا ہے کہ راہل گاندھی کو غیرملکی سر زمین پر ہندوستان کے اندرونی معاملات پر زبان نہیں کھولنی چاہیے تھی۔ اس سلسلہ میں دو باتوں کو دھیان میں رکھنا ضروری ہے، اول آج کی دنیا بہت سمٹ گئی ہے، اسے اب گلوبل ولیج کہا جانے لگا ہے، دوسرے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کے اس دور میں دنیا کے کسی بھی کونے میں جو کچھ بھی رونما ہوتا ہے، وہ منٹوں سیکنڈوں میں دنیا بھر میں پھیل جاتا ہے۔ ہندوستان میں جو کچھ ہوتا ہے یا جو ہو رہا ہے ملک جس سمت جا رہا ہے، اس سے عالمی برادری نا بلد نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اب ہندوستان کو مکمل جمہوری ملک کے خانہ سے نکال کرجزوی جمہوری ملک کے خانہ میں رکھ دیا گیا ہے۔ حقوق انسانی کے معاملات ہوں یا مذہبی آزادی کے اظہار رائے کی آزادی کی بات ہو یا اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی، ہر معاملہ میں انٹرنیشنل رینکنگ میں ہندوستان کافی نیچے آ چکا ہے جبکہ نسل کشی کے خطرہ کے معاملہ میں اس کا رینک بڑھ گیا ہے۔ جینوسائیڈ واچ نامی عالمی تنظیم نے جو دنیا بھر میں نسل کشی کے واقعات اور ماحول پر نظر رکھتی ہے، اس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ نسل کشی کے آغاز سے قبل کے جو دس مراحل ہوتے ہیں، ان میں ہندوستان آٹھ مراحل طے کر چکا ہے تو راہل گاندھی ہندوستانی جمہوریت اور دیگر معاملات پر کچھ کہتے یا نہ کہتے، دنیا ہندوستان کے حالات سے ناواقف نہیں ہے۔دوسرے راہل نے از خود کچھ نہیں کہا جو بھی کہا، وہ سوالوں کے جواب میں کہا اور آپ ان سے یہ امید نہیں کرسکتے کہ وہ عالمی پلیٹ فارم اور کیمبرج جیسی یونیورسٹی میں جھوٹ بولیں گے یا لغو باتیں کہیں گے۔ دوسرے بیرون ملک اندرونی معاملوں پر بولنے کا رواج تو وزیراعظم مودی نے ہی شروع کیا ہے، کیا سیول میں انہوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ2014سے پہلے لوگ ہندوستان میں پیدا ہونے کو اپنے پچھلے جنموں کا پاپ سمجھتے تھے یا جاپان میں انہوں نے نوٹ بندی جو خود انہوں نے ہی لاگو کی تھی، اس سے ہندوستانی عوام کی پریشانیوں کا مذاق اپنے مخصوص انداز میں یہ کہتے ہوئے نہیں اڑایا تھا کہ بیٹی کی شادی ہے اور جیب میں پیسہ نہیں ہے۔ کیا کوئی وزیراعظم اپنے ہی عوام کی پریشانیوں کا یوں مذاق اڑا سکتا ہے یا ہندوستان میں پیدا ہونے کو پچھلے جنموں کا پاپ بتا سکتا ہے۔ راہل نے موجودہ حکومت کے خلاف ہی بیان دیا تھا، مودی جی نے ہندوستان کو ہی برا بتا دیا تھا۔لیکن ان کی باتوں پر کوئی ہلچل نہیں ہوتی، میڈیا چپی سادھ لیتا ہے اور راہل کی باتوں پر وزیراعظم سے لے کر پارٹی کاہر کارکن تہذیب اور شرافت کے دامن کو تار تار کر تے ہوئے بیان بازی شروع کر دیتا ہے۔ اس بار تو حد ہی ہو چکی ہے خود نائب صدر جمہوریہ دھن کھڑ جی نے راہل کے بیان پر ان کی مذمت شروع کر دی جبکہ اپنے منصب کے حساب سے انہیں روزمرہ کی سیاست میں دخل نہیں دینا چاہیے۔یہی سب باتیں جمہوریت کے لیے خطر ناک ہیں جس کی طرف راہل گاندھی اندرون ملک بھی بار بار توجہ مبذول کراتے رہے ہیں۔
کوا کان لے گیا اور لوگ اپنا کان دیکھنے کے بجائے کوے کا پیچھا کرنے لگ گئے۔ اگر چہ یہ ایک بہت پرانی کہاوت ہے جو زمانہ کے سرد و گرم جھیلتی ہوئی سیکڑوں برسوں سے اپنی صداقت ثابت کرتی آ رہی ہے لیکن گزشتہ دس بارہ برسوں سے اس نے وبائی شکل احتیار کر لی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ ناگپور سے کوئی جملہ چھوڑا جاتا ہے اور میڈیا خاص کر چینل اسے لے اڑتے ہیں اور پھر جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کر دیا جاتا ہے۔ یاد کیجیے 2جی ’کوئلہ گھپلہ، کامن ویلتھ گیمس بدعنوانی کو لے کر میڈیا خاص کر ٹی چینلوں نے منموہن سنگھ کی حکومت کے خلاف کیا طوفان بدتمیزی کھڑا کیا تھا۔ انا کی تحریک نے اسے اخلاقی سپورٹ فراہم کیا اور انجام کار2014کے عام انتخابات میں کانگریس کو زبردست شکست اور بی جے پی کو شاندار کامیابی ملی۔ لیکن جب یہ معاملات عدالت میں پہنچے تو ٹرائل کورٹ میں ہی نام نہاد 2جی گھپلے کی ہوا نکل گئی۔ کوئلہ گھپلے کے سلسلہ میں بی جے پی کے ایک وزیر کوسزا ہوئی اور کامن ویلتھ گیمس کے مقدمہ کا کیا انجام ہوا، کم سے کم راقم کو اس کا علم نہیں، یہ ضرور ہے کہ دہلی کو دہلی بنانے والی وزیراعلیٰ آنجہانی شیلا دیکشت اور ان کی کانگریس پارٹی شکست کھا گئی اروند کجریوال نے ان کو جیل بھیجنے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ شیلا جی کو تو نہیں جیل بھیج پائے، الٹے ان کے دو وزیر آج جیل میں ہیں، ان میں ان کے داہنے ہاتھ کہے جانے والے منیش سسودیا بھی شامل ہیں۔ سچ کیسے شکست کھاتا ہے اور جھوٹ کا کیسے بول بالا ہو جاتا ہے، موجودہ ہندوستان اس کی جیتی جاگتی مثال بنا ہوا ہے۔ 10 برسوں میں 25 کروڑ لوگوں کو خط افلاس سے اوپر لانے والے منموہن سنگھ اور کانگریس ولن ہیں اور80کروڑ لوگوں کو مفت راشن پر پہنچا دینے والے مودی اور بی جے پی مسیحا بنے ہوئے ہیں۔
راہل گاندھی کے لندن دورے اور وہاں ان کے بیانات کو لے کر آج پھر میڈیا وہی اپنا گھناؤنا کھیل شروع کر چکا ہے۔ ناگپور سے ایک جملہ اچھال دیا گیا کہ راہل گاندھی نے ہندوستان میں جمہوریت کو درپیش خطرات کا ذکر کرتے ہوئے بیرونی ملکوں خاص کر یوروپ اور امریکہ سے مداخلت کرنے کی اپیل کی ہے۔گزشتہ ایک ہفتہ سے ٹی وی پر ہونے والے بے مقصد کان پھوڑ مباحثوں میں یہی ایک موضوع زیر بحث ہے اور بار بار عوام کو یہی باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ راہل گاندھی نے غیر ملکی سر زمین پر ہندوستان کی برائی کی، اندرونی معاملات میں غیر ملکی مداخلت کی اپیل کی اور اس طرح ملک دشمن کام کیا ہے۔ کسی چینل نے حقیقت جاننے کی کوشش نہیں کی کیونکہ انہیں یہ کرنا ہی نہیں تھا۔اقتدار کے اشارے پر حزب مخالف کے سب سے قدآور لیڈر کی کردار کشی کا ان کو حکم ملا تھا اور وہ پوری وفاداری سے اس حکم کی تعمیل کر رہے تھے۔ در اصل راہل گاندھی نے اپنی بھارت جوڑو یاترا سے اتنی لمبی لکیر کھینچ دی ہے کہ ہندوستان کے کسی لیڈر میں اس لکیر کو پار کرنے کا سوچنا بھی محال ہے، کر دکھانا تو در کنار۔ان کی اس یاترا نے، ان کی امیج خراب کرنے کے لیے جو اربوں روپے خرچ کیے گئے تھے، انہیں مٹی میں ملا دیا ہے۔ آج راہل کے بدترین مخالف کو بھی ان کی باتوں اور ان کے ذریعہ جو موضوعات اٹھائے گئے، ان پر سنجیدگی سے غور کرنے کے لیے مجبور کر دیا ہے۔ بی جے پی کے اندرونی سروے میں بھی اسے بتایا گیا کہ راہل مودی کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر ابھر رہے ہیں۔کانگریس نے تنظیمی انتخابات کے ذریعہ ایک دلت طبقہ کے شخص کو اپنا قومی صدر منتخب کر کے بی جے پی کے سامنے ایک دوسرا بڑا چیلنج پیش کر دیا ہے۔مودی جی اور بی جے پی کے دیگر لیڈران اور اس کے بدزبان ترجمان راہل گاندھی اور کانگریس کے دیگر لیڈروں کو نشانہ بناتے رہے ہیں لیکن کھڑگے جی سے پنگا لینے کی ان کی ہمت نہیں پڑ رہی ہے کیونکہ22فیصد دلتوں کو ناراض کرنے کا جوکھم نہیں لے سکتے، وہ جانتے ہیں کہ پورا دلت طبقہ کھڑگے جی کو اتنا بڑا عہدہ ملنے سے ان سے ایک جذباتی وابستگی محسوس کرتا ہے۔
جمہوریت صرف ووٹ دینے کا نام نہیں ہے اور آئین چند ہزار یا چند لاکھ الفاظ کا ذخیرہ بھر نہیں ہے، دونوں میں ایک روح ہوتی ہے۔ ہندوستان میں جمہوریت اور آئین کی اسی روح کو مارا جا رہا ہے، اس کے خلاف سینہ سپر ہونا ہر ہندوستانی کا فرض ہے لیکن اس کی سب سے بڑی ذمہ داری سیاسی پارٹیوں اور اس کے لیڈروں کی ہوتی ہے۔ اپنی جمہوریت کے تحفظ کے لیے انہیں میدان میں آنا ہی ہوگا، راہل اپنا یہی قومی اور منصبی فرض ادا کر رہے ہیں۔ جمہوریت اور آئین کی حکمرانی ہی اس ملک کو بچا سکتی ہے، وہی اس ملک کے غریب، کمزوروں اور محروم لوگوں کے ہاتھ کی لاٹھی اندھیرے میں امید کی کرن ہے۔ آئینی جمہوریت نہیں بچی تو ہندوستان کا اپنی موجودہ شکل میں بچنا محال ہو جائے گا۔ ہندوستان کو بچانے کے لیے سب کو اپنے سیاسی اور ذاتی مفاد سے اٹھ کر کام کرنا ہوگا۔ راہل کی یہی ’’صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے‘‘
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]