یوگیندر یادو
جیسے ہی منیش سسودیا کی خبر میڈیا میں آئی میرے فون کی گھنٹی بجنے شروع ہوگئی۔ ٹیلی ویژن چینل چاہتے تھے کہ میں کوئی چٹخراتے دار تبصرہ کروں ۔ کیونکہ میں عام آدمی پارٹی میں رہ چکا تھا ان کو یہ لگتا تھا کہ کیونکہ میں عام آدمی پارٹی میں رہ چکا ہوں لہٰذا آج اچھا موقع ہے کہ جب میں اس مہم میں شامل ہوجائوں جو منیش سسودیا کی استعفیٰ کی مطالبہ کررہی ہے۔ جیسے ہی انہوں نے استعفیٰ دیا ان کو یہ لگنے لگا کہ میں اسی ہجوم کا حصہ بن جائوں جو بار بار کہہ رہی تھی کہ عام آدمی پارٹی میں اخلاقی اقدار کا زوال ہوگیا ہے۔ میڈیا والوں کو چٹخارے دار بیانات کی تلاش تھی۔ عام آدمی پارٹی کے بنیاد گزار اخلاقی زوال پر تبصرہ کرتے ہوئے شاید یہ لوگ چاہتے تھے کہ اسی قسم کی باتیں اور اس قسم کی تبصرہ کروں۔ مگر میں نے ایسا نہیں کیا۔ اگرچہ میں نہ تو عام آدمی پارٹی کا مداح ہوں نہ ہی منیش سسودیا کا اور نہ ہی ان لوگو ںمیں شامل ہوں کہ جو منیش سسودیا کی گرفتاری پر خوشی کا اظہار کررہے ہیں یا اس منظر سے لطف اندوز ہوں۔ سب سے اول اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ میں اس گرفتاری اور اس گرفتاری کے آس پاس جو سیاسی ماحول بنا یا جا رہاہے اس کی مذمت کروں۔
8سال قبل جب میں نے عام آدمی پارٹی چھوڑی تھی تو میں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ میں اپنے سابق دوستو ں اور رفقا کی برائی کرنے میں وقت ضائع نہیں کروں گا۔ جب حالات بدلے میں نے ایسا کیا بھی مگر میں اس صورتحال سے جلد ی باہر نکل گیا۔ مجھے لگا کہ یہ چٹخارے دار کہانیاں بہت بورنگ ہوتی ہیں۔ آپ خاص طور پر اپنی متروکہ کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ آپ کی موجودہ زندگی کو کنٹرول کرے۔
اس معاملے میں بھی میرا رویہ مختلف تھا اور میرے رد عمل میں زیادہ گہرائی تھی۔ میں نے اس معاملے پر سیاسی یا ذاتی پرخاش کو نظرانداز کیا اور اپنی توانائی اور توجہ عام آدمی پارٹی کی اس ایکسائز پالیسی پر مرکوز کی۔ یہ گھوٹالہ عام آدمی پارٹی کے غیر دانشمندانہ سیاسی تدبر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس معاملے میں وہ ایسے جال میں پھنس گئے ہیں جس سے نکلنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اور یہ پوری صور تحال ،اخلاقی دوغلے پن کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس سے ہمارے وقت کے ایک سب سے بڑے گھوٹالے پر سے توجہ ہٹانے میں کامیابی ملتی ہے۔
عام آدمی پارٹی کی ایکسائز پالیسی سے تعفن آتا ہے ۔ میرے خیال سے ایمانداری اس بات میں ہوگی کہ اس معاملے کو رفع دفع نہ کریں اور عام آدمی پارٹی کی ایکسائز پالیسی پر گفتگو نہ کریں اور عام آدمی پارٹی کے لیڈروں کو کلین چٹ دے دیں۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن کے بہت سے لوگوں نے ایسے ہی کیا۔ اگرچہ منیش سسودیا کی گرفتاری اور حراست میں لینے کی مذمت کی گئی مگر اس معاملہ میں عوامی زندگی کے اصولوں کو نظرانداز کیاگیا۔ خاص طور پر اگر آپ بی جے پی کے ساتھ ہیں اور عام آدمی پارٹی کو ناپسند اور اس کی مخالفت کرتی ہے تو آپ سی بی آئی کے ذریعہ عائد کیے گئے الزامات کی حمایت کریں گے۔ سسودیا کی گرفتاری کی حمایت کریںگے اور کہیں گے کہ بس اب عام آدمی پارٹی مرگئی۔ لیکن اگر آپ موجودہ حکمراں پارٹی کے مخالف ہیں تو آپ عام آدمی پارٹی کے ساتھ کھڑے ہو ںگے اور سسودیا کو کلین چٹ دے دیں گے۔ ان کی گرفتاری کی مذمت کریں گے اور کہیں گے کہ یہ پورا معاملہ فرضی طور پر بنا یا گیا ہے۔ مگر میرے خیال میں کسی سیاسی معاملے پر کو بھی فیصلہ دینا لا علمی نہیں ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ شراب پالیسی کیا ہو نی چاہیے اور یہ ایک سنگین اور سنجیدہ معاملہ ہے۔ میں نے ان کالموں میں کئی دفعہ کہاہے کہ شراب پر کنٹرول کرنا مارل پولیسنگ نہیں ہے۔ ذاتی طور پر لطف اندوز ہونے کی آزادی پر نگرانی کرسکتے ہیں۔ یہ ایک سنگین معاملہ ہے۔ جس میں اعلیٰ اقدار کی بات ہے۔ یہ ایشو خواتین کے خلاف تشدد سے بھی جڑا ہوا ہے اور شراب نوشی غریب خاندانوں کی اقتصادی اور بدحالی کا بھی سبب ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عام آدمی پارٹی نے اپنے پہلے مینو فیسٹو میں کہا تھا کہ وہ شراب نوشی کی حوصلہ شکنی کرے گی۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ عام آدمی پارٹی کی سرکار نے بھی دوسرے ریاستوں کی طرح شراب نوشی کو فروغ دیا۔ میری اپنی تنظیم سوراج ابھیان نے عام آدمی پارٹی کے ذریعہ شراب نوشی کو فروغ دینے والے رویے کے خلاف احتجاج کیا تھا اور اس کی پالیسی کے خلاف 2016میں کہا تھا کہ یہ تعفن پیدا کرنے والی شراب پالیسی ہے۔
ہم اس معاملے پر جب غور کرتے ہیں تو ہمیں نظرآتا ہے کہ یہ اپوزیشن کے نقطۂ نظر یا اس کے تخیل کا پروازنہیں ہے اس میں کچھ گڑ بڑ ہے۔ صرف ایکسائز پالیسی کو بہتر بنانے سے مسئلہ حل نہیں ہونے والا ہے۔ اس معاملے سے کئی وابستہ پیچیدگیاں ہیں۔ کچھ پیپر باہر آئے ہیں، کچھ دلالوں کا ذکر ہے اور کچھ ایسے خدا سے خوف کھانے والے ہیں جو بغیر تھکے عوام کی خدمت کررہے ہیں ۔ یہ کام تفتیشی اداروں یا عدالتوں کا ہے۔ وہ اس بات کو طے کریں کہ معاملہ کیا ہے۔ مگر صرف یہی دلچسپ چٹخارے دار کہانیاں نہیںہیں ، کچھ سازشیں سی اے اے مظاہرین کو لے کر رچی جار ہی ہیں ، وہ سازشیں ہیں جو حکمراں جماعتیں اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف کررہی ہیں۔ اس کے علاوہ جن لوگوں نے عام آدمی پارٹی کو الیکشن کے لیے پیسہ دیا۔ ان کو اپنے ذرائع بتانے پڑ رہے ہیں اور ان کے خلاف کیس درج کیے گئے ہیں لیکن یہ سب باتیں موجودہ سرکار کے یہ کاموں کو درست قرار دینے والی نہیں ہے۔
بنیادی سوال کو نظرانداز نہ کیا جائے
تین سوال ہیں جن کو ضرور پوچھا جانا چاہیے۔ کیا منیش سسودیا کی گرفتاری ضروری تھی؟ کیا طریقہ کار اسی قسم کے دوسرے کیسو ں میں بھی اختیار کیا گیا ہے۔ یہ معاملہ صرف قانون دائو پیچ کا نہیں ہے۔ جب جج ریمانڈ دیتا ہے اور سپریم کورٹ مداخلت سے انکار کرتا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ قانونی حدود کو طے کررہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ منیش سسودیا کی گرفتاری قانونی طور پر درست ہے۔ مگر یہ معاملہ سیاسی اخلاقیات کے مسئلہ کو حل نہیں کرتا ہے۔ سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا سی بی آئی کو یہ کرنا چاہیے تھا۔ اس بات پر بحث ہونی چاہیے۔
میں کوئی قانون داں نہیں ہوں ۔ مگر مجھے اس بات پر یقین ہے کہ کسی بھی تفتیشی ادارے کو ہر کیس میں یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ گرفتاری کا مطالبہ کرے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ گرفتاری کے مطالبات کرپشن کے مضبوط کیسوں میں درست قرار دیے جاسکتے ہوں۔ سی بی آئی نے سسودیا کے گھر پر چھاپہ ما ر کر کچھ دستاویزات حاصل کرلیے ہیں اور جو چاہیے تھا کہ ان کو مل گیا ہے لہٰذا شواہد طلب کیے جائیں اس کا امکان کم ہے۔ نہ ہی اس بات کا امکان ہے کہ ڈپٹی سی ایم فرار ہوجائیںگے۔ جیسا کہ ان پرالزام لگایا جا رہا ہے کہ انہوںنے تفتیش کے دوران تعاون نہیں کیا لیکن یہ بات بھی واضح نہیں ہے کہ یہ گرفتاری کس طرح ان(سی بی آئی) کی مدد کرے گی۔ کیا سی بی آئی ان کے خلاف تھرڈ ڈگری استعمال کرنے کی اجازت چاہ رہی ہے۔ اگر سی بی آئی کرپشن کے معاملے میں سخت ہے تو وہ چاہے سسودیا سے پوچھ تاچھ کرے۔ ان کے خلاف شواہد اکٹھا کرلینا چاہیے اور ان کو عدالت کے سامنے پیش کرکے ان کو سزا دلانا چاہیے اور اس کے بعد ان کو سلاخوں کے پیچھے بھیجا جائے۔ اس موقع پر ان کو گرفتار کرنا تمام اپوزیشن کے لیڈروں کو یہ پیغام دینا ہے کہ اس سے ہر ایک کو یہ شک ہوتاہے کہ اتوار کو ہونے والی گرفتاری کے پش پست کیا معاملات ہیں۔ خیال رہے کہ اسی ہنگامہ آرائی کے دوران راہل گاندھی کی کانگریس کے اجلاس میں تقریر بھی تھی۔
اگر آپ سی بی آئی اور دیگر تفتیشی ایجنسیوں کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو ان سے آپ کے شکوک کو تقویت ملے گی۔ اپوزیشن لیڈروں کے خلاف درج ہونے والے لا علمی کسیوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ حکمراں سیاسی جماعت کے خلاف کیس بہت کم ہے اور خاص طور پر وہ لوگ جن کے خلاف تفتیش ہورہی تھی انہوںنے جب بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی تو یہ کیس ختم ہوگئے۔ یہاں پر یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ اس صورت حال کے لیے سی بی آئی کو مورد الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ ہم اس بات کے عادی ہوچکے ہیں جس طریقے سے یہ ایجنسیاں سیاسی عداوت کے تحت سیاسی آقائوں کے اشارے پر کام کررہی ہیں ۔ ہم اب یہ بنیادی سوال پوچھتے ہی نہیں ہیں۔ کیا یہ درست ہے کہ آپ کریمنل جسٹس کے اداروں کو استعمال کرکے سیاسی حریفوں کو دبائیں۔ کیا یہ قابل قبول ہے کہ آپ اپوزیشن پارٹیو ںکی حکومتوں کو ان کے آئینی فرائض کے ادائیگی میں روڑے اٹکائیں۔ اپوزیشن اس قسم کی سوالات کرنے میں حق بجانب ہیں اور اس گرفتاری کی مذمت کررہے ہیں۔ پچھلے ہفتے یہ دیکھاگیا کہ صحافیوں نے مودی سرکار کے دور اقتدار میں کوئلہ کانوں کے الاٹ کرنے کو طشت ازبام نہیں کیا۔ جبکہ یوپی اے کے دور میں اسی طرح کے معاملات میں ان طریقہ کار بالکل مختلف تھا۔ کیا ہمیں ان معاملات میں سی بی آئی کی انکوائری کی توقع تھی۔ منیش سسودیا کے لیے جو معیار اختیارکیا جا رہا ہے۔ یہ معیار سب پر لاگو ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو مرکز کے خلاف کتنے ہی وزیر جیلوں میں بند ہوتے۔ کیا سی بی آئی اس بات کی تفتیش کرے گی کہ سیبی کے سربراہ اڈانی گروپ کی کمپنیوں کے خلاف الزامات پر آنکھ کیوں موندھے ہوئے ہیں اور کیا وہ عوام کے اس پیسے کو جو کہ ایل آئی سی اور ایس بی آئی کے پیسوں کو اڈانی کی مدد کرنے میں لگا دیا گیا۔ اس معاملہ کو اڈانی کے کرپشن کے معاملہ سے جوڑ کر درست قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔
لیکن یہ یاد دلاتا ہے کہ یہ اس ایجنسیوں کو یکساں طریق کار اختیار کرنا چاہیے۔ میں آخری نکتے کی طرف آتا ہوں۔ کیا یہ محض ایک اتفاق ہے کہ عام آدمی کے کرپشن کا معاملہ اس وقت منظر عام ٖ پر آیا ہے جب ملک کے سامنے اس وقت کا سب سے بڑا گھوٹالہ دنیا کے سب سے بڑے سرمایہ دار (سابقہ)اور سیاسی طور پر سب سے طاقتور لیڈر سرخیوں میں آیا ہے۔ کیا یہ ایسی کوشش نہیں ہے کہ جب قومی سطح پر ایک بہت بڑی پیمانے کا معاملہ ایسے چھوٹے معاملے سے ڈھک جاتے۔
یہ بات احمقانہ نہیں بلکہ بالکل ناتجربہ کاری پر مبنی ہوگی کہ آپ یہ محسوس ہی نہ کریں اس قدر بڑے پیمانے کے گھپلے کو معمولی چوری سے دبا دیا جائے۔ کرپشن کے خلاف مہم چلانے والے مجاہد کو کرپشن کے الزاما ت یہ پوری مشق میں پھیلتے دیکھنے کی خیالی تلذز حاصل کرنے کی کوشش مگر ہمیں اس لالچ سے مزاحمت کرنی چاہیے۔ عام آدمی پارٹی ہمیشہ کہتی ہے کہ بھیڑیا آگیا بھیڑیا آگیا۔ ہمیں ایسے وقت میں بھی ہوشیار رہنا چاہیے جبکہ واقع میں بھیڑیا آجائے۔ سیاست وہ ہوتی ہے جب آپ کئی طرف سے اور بڑے پیمانے پر مشکلات کا سامنا کر رہے ہوں۔ سیاسی سمجھ بوجھ یہ ہے کہ آپ پیمانے کو مد نظر رکھیں اور آپ کے سامنے صاف ہوئی کہ اصل معاملہ کیا ہے۔
مضمون نگار سوراج ابھیان کے صدر اور جے کسان آندولن کے بنیاد گزار ہیں ۔
منیش سسودیا کی گرفتاری اور سیاسی منظر نامہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS