فرد ہو یا قوم اگر وہ ماضی کی یادوں میں گم ہوجائے تو حال اس کا خراب ہوتا ہی ہے،مستقبل بھی تباہ و برباد ہوجاتا ہے ۔ عدالت عظمیٰ اسی لیے چاہتی ہے کہ ہندوستان کو ماضی کا اسیر نہ بنایا جائے۔ عدالت عظمیٰ نے قدیم، ثقافتی اور مذہبی مقامات کے ’ اصل ‘ناموں کو بحال کرنے کیلئے ’نام تبدیل کرنے والے کمیشن (Renaming Commission)کی تشکیل کیے جانے کے مطالبہ پر مشتمل مفاد عامہ کی عرضی کو یہ کہتے ہوئے مستردکردیا ہے کہ ’ ہندوستان ماضی کا اسیرنہیں رہ سکتا‘ ۔بی جے پی لیڈر ایڈووکیٹ اشونی اپادھیائے کی جانب سے دائر کی گئی اس مفاد عامہ کی عرضی کے مقصد پر سوال اٹھاتے ہوئے جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس بی وی ناگا رتنا کی دو نفری بنچ نے کہا کہ اس سے بہت سے ایسے مسائل جنم لیں گے جو ملک کو آتش فشاں بنادیں گے ۔ عدالت نے عرضی گزار کی نیت پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے پوچھا کہ آپ اس عرضی سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ کیا اس ملک میں کوئی اور دوسرا مسئلہ باقی نہیںرہ گیا ہے کہ آپ اس بے مقصد کارروائی کی درخواست کررہے ہیں ۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان پر کئی بار حملہ ہوا، حملہ آوروں نے حکومت بھی کی لیکن اب یہ سب تاریخ کا حصہ ہیں ۔ آپ کسی منتخب طور پر کسی تاریخ کو تبدیل کرنے کیلئے نہیں کہہ سکتے ہیں۔ جسٹس کے ایم جوزف نے کہا کہ ہندوستان آج ایک سیکولر ملک ہے۔ آپ کی انگلیاں ایک مخصوص کمیونٹی کی طرف اٹھ رہی ہیں، جسے وحشی کہا جا رہا ہے۔ کیا آپ ملک کو ابلتا ہوارکھنا چاہتے ہیں؟ ہم سیکولر ہیں اور آئین کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ آپ ماضی کے بارے میں فکر مند ہیں اور موجودہ نسل پر بوجھ ڈالنے کیلئے اسے کھود رہے ہیں۔ اس طرح مزید عداوتیں پیدا ہوں گی۔ ہندوستان میں جمہوریت کا راج ہے۔جسٹس بی وی ناگارتنا نے اس عرضی کو رد کرتے ہوئے ہندوتو کو بھی اپنی گفتگو میں سمیٹ لیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوتو ایک طرز زندگی ہے، جس کی وجہ سے ہندوستان نے سب کو اپنے اندر سمو لیا ہے۔ اس کی وجہ سے ہم ایک ساتھ رہنے کے قابل ہیں۔ انگریزوں کی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی نے ہمارے معاشرے میں تقسیم پیدا کر دی۔اسے واپس نہیں آنا چاہیے اور نہ اس میں کسی مذہب کو گھسیٹاجاناچاہیے ۔عدالت نے کہا کہ ہمیں یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ یہ عدالت آرٹیکل 32 کے تحت اس معاملے کو دیکھ رہی ہے کہ عدالت کو بنیادی حقوق کے نفاذ کا کام سونپا گیا ہے۔ تمہید کے تناظر میں، ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے۔
بقول بانوقدسیہ ماضی تو زندگی کا سبق ہوتا ہے، اسے عمربھر کی سزااورآزار نہیںبنایاجاناچاہیے۔حقیقت یہ ہے کہ ماضی کی یادوں میں کھوجانے والے اپنا حال اور مستقبل سب تباہ کرلیتے ہیں۔ اس کی مثالیں بھی تاریخ کے صفحات پر بکھری پڑی ہیں۔ماضی سے صرف ایک کام لیاجاسکتا ہے اور وہ ہے سبق ۔ اگر ماضی سے سبق حاصل نہیں کرنا ہے تو اس کو سینہ سے لگانا نادانی اور خود کو عذاب مسلسل کا شکار بنانا ہے ۔ ایسا عذاب جس سے چھٹکارہ کیلئے غالب کو حافظہ چھن جانے کی دعا تک مانگنی پڑگئی ہے۔اس لیے ملک کو ماضی کا قیدی نہیں بنایاجاسکتا ہے۔ ملک کا تعلق سیکولرازم، آئین پرستی اور ریاستی عمل میں معروضیت سے ہے۔ بانیان ملک نے ہندوستان کو ایک جمہوری ملک کے طور پر قائم کیا، اس کو آگے بڑھنا ہے اورسچ پوچھاجائے تو یہ ناگزیرہے اسے روکا نہیں جاسکتا ہے ۔تاہم اگر اسے ماضی کی یادوں میں الجھادیاگیا تو پھر آگے بڑھنے کا یہ عمل سست پڑتے پڑتے ختم بھی ہوسکتا ہے ۔
ملک کا وسیع تر مفاد سڑکوں، چوک چوراہوں، بستیوں، شہروں، ریاستوں اور مذہبی مقامات کا نام بدلنے میں نہیں بلکہ سبھی کو ساتھ لے کر ترقی کا سفر طے کرنے میں ہے ۔عدالت نے اس عرضی کو بجا طور پر مسترد کرکے اس فتنہ کی سرکوبی کا آئینی فریضہ انجام دیا ہے جو اس ملک کو آتش فشاں کے دہانے تک پہنچانے والا تھا ۔
[email protected]
فتنہ کی سرکوبی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS