ایم اے کنول جعفری
حال ہی میں امریکہ کے ایوان بالا (سینیٹ) میں ایک تجویز پیش کرتے ہوئے اروناچل پردیش کو ہندوستان کا لازمی حصہ قرار دیا گیا ہے۔اس میں ہندوستان اور چین کی سرحد کے درمیان لائن آف ایکچوئل کنٹرول(ایل اے سی) پر موجودہ صورت حال کو تبدیل کرنے کی چینی فوج کی جارحیت کی مخالفت کی گئی ہے۔ امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے قانون ساز اراکین کی جانب سے پیش کردہ قرارداد میں کہا گیا کہ امریکہ اروناچل پردیش کو متنازع ماننے کے بجائے ہندوستان کا اٹوٹ حصہ تسلیم کرتا ہے۔ ڈیموکریٹ کے رہنما جیف مرکلے اور ریپبلکن کے رہنما بل ہیگرٹی کے ذریعہ پیش کی گئی تجویزکا انڈیا کاکس کے شریک چیئرپرسن اور سینیٹرجان کارنن کی طرف سے تعاون کیا گیا۔ قرارداد میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر چین کی جانب سے فوجی طاقت کے استعمال، گاؤوں کی تعمیر،اروناچل کے علاقوں کیلئے مندارن زبان کے ناموں کے ساتھ نقشے کی اشاعت اور بھوٹان میں توسیع سمیت چین کی اشتعال انگیزی کی سخت الفاظ میںمذمت کی گئی ۔
امریکی سینیٹ میں پیش کی گئی قرارداد میں چین کی وجہ سے ہندوستانی سلامتی کو لاحق خطرات کے خلاف ہندوستان کی جانب سے اُٹھائے گئے ضروری اقدامات کو سراہا گیا۔ ڈیموکریٹ رہنما جیف مرکلے نے کہا کہ امریکہ ہندوستانی ریاست اروناچل پردیش کو چین کا نہیں،بلکہ ہندوستان کا حصہ سمجھتا ہے۔جیف مرکلے اور بل ہیگرٹی نے کہا کہ امریکہ ہندوستان کے اروناچل پردیش کو متنازع علاقہ نہیں مانتا، بلکہ 1914میں بنی میک موہن لائن کو بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ میک موہن لائن ہندوستان کی اس وقت کی برٹش حکومت اور تبت کے درمیان شملہ سمجھوتے کے تحت وجود میں آئی تھی۔اس سرحد کا نام سمجھوتے میں اہم کردار ادا کرنے والے برٹش حکومت کے خارجہ سکریٹری سر ہینری میک موہن کے نام پر رکھا گیا تھا۔
چین اروناچل پردیش کے یانگتسے میں موجودہ صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے دراندازی کی کوششیں کرتا رہتا ہے۔ ایسے میں ہندوستانی فوج کی مداخلت لازمی ہے۔ جون 2020 کی جھڑپ میں دونوں طرف کے کئی جوان زخمی ہوئے تھے۔ چین کی جانب سے یہ کارروائی ملک کے اندرونی حالات اور انتشار سے توجہ ہٹانے کے لیے کی گئی تھی۔ یہ حقیقت میں ڈیپسانگ،پینگونگ،ڈوکلام اور دیگر مقامات پر چینی دراندازی کے تسلسل کی ہی مثال تھی۔ایک طویل عرصے سے ، چین کا مقصد ایل اے سی پر مسلسل ہلچل بنائے رکھنا ہے،تاکہ ہندوستان پریشان رہنے کے علاوہ اپنی سرحد کی حفاظت میں مشغول رہے۔ شی جن پنگ کی خطرناک پالیسی سے ہوشیار رہنے کے علاوہ اپنی حفاظت کے لیے بھی چاق چوبند رہنے کی ضرورت ہے۔ چین کی تشویش کا سبب اروناچل پردیش تو ہے ہی،وہ ہندوستان کی امریکہ کے ساتھ بڑھتی نزدیکیوں سے بھی فکر مند ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان نے گزشتہ ایک دہائی میں پہلے کے مقابلے زیادہ انفرااسٹرکچر تعمیر کیے، لیکن ٹی وی چینلوں کے ذریعہ دکھائی جانے والی سیٹلائٹ کی تصاویر سے معلوم ہوتا ہے کہ چین نے ایل اے سی کے نزدیک بہتر انفرااسٹرکچر تیار کیا ہے۔ کئی بستیاں بسانے کے علاوہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے ساتھ لہاسہ میں بھی ڈرون اور لڑاکا طیارے تعینات کر رکھے ہیں۔اسے دیکھتے ہوئے چین کے پاس شکایت کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر میں تباہی مچانے والے وبائی مرض کورونا وائرس سے نمٹنے میں ہندوستان نے جس شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا،اس کی نہ صرف عالمی سطح پر پذیرائی ہوئی،بلکہ وزیراعظم نریندر مودی کے قد میں بھی اضافہ ہوا۔ یوکرین جنگ کے حوالے سے مودی کے ذریعہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کو صاف طور پر کہنا،’یہ جنگ کادَور نہیں ہے۔‘ اُن کے ذریعہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے خیال کی مخالفت کرتے ہوئے بات چیت اور سفارت کاری کی طرف واپسی کی وکالت کی بھی ستائش کی گئی۔ شی جن پنگ کو یہ راس نہیں آرہا ہے اور وہ ہندوستان کو اُکسانے کے لیے ناپسندیدہ حرکتیں کرنے میں لگا ہے۔ چین اب ایل اے سی کے پاس نئی ریلوے لائن بچھانے کی تیاری میں ہے۔ یہ لائن ایل اے سی اور متنازع اکسائی چن خطے سے ہو کرگزرے گی،جو ہندوستان کے لیے باعث خدشات ہے۔ اس کا انکشاف تبت خود مختار علاقہ(ٹی اے آر) حکومت کی جانب سے جاری نئے ریلوے پلان میں کیا گیا ہے۔ ریلوے ٹیکنالوجی میں شائع رپورٹ کے مطابق تبت کا درمیانی سے طویل مدتی ریلوے منصوبہ2025تک ٹی اے آر ریل نیٹ ورک کو موجودہ1,400کلومیٹر سے بڑھا کر 4,000کلومیٹر کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ یہ منصوبہ ہندوستان اور نیپال کے ساتھ چین کی سرحدوں کے نئے راستوں کا احاطہ کرے گا۔ نئی ریلوے لائن تبت کے شیگٹسے سے شروع ہو کر شمال مغرب میں نیپال کی سرحد کے قریب سے گزرے گی۔ اس کے بعد یہ اکسائی چن کے شمال سے گزرتی ہوئی سنگیانگ کے ہوتان میں ختم ہوگی۔ لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے پاس چینی سرگرمیاں ہندوستان اور تبت کے لیے تشویش کا باعث بن سکتی ہیں۔ اس سے قبل ہندوستانی آرمی چیف جنرل منوج پانڈے نے12جنوری کو وضاحت کی کہ ایل اے سی کے قریب چینی فوج کی تعداد میں معمولی اضافہ ہوا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر چین اروناچل پردیش کو لے کر اتنا فعال کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ چین اس علاقے پر اپنی نظریں گڑائے بیٹھا ہے۔ گزشتہ برس 9دسمبر کو 300 چینی فوجیوں نے ہندوستانی پوسٹ پر قبضے کی نیت اور طے شدہ منصوبے کے تحت ارونا چل پردیش کے یانگتسے علاقے میں دراندازی کی کوشش کی تھی،لیکن ہندوستانی جوانوں نے ان کے منصوبے ناکام کر دیے تھے۔ ہند-چین کے درمیان تقریباً 3,500 کلومیٹر لمبی سرحد ہے۔اس پر پانچ ایسے مقام ہیں، جہاں دونوں کے درمیان زبردست تکرار ہے۔اس بابت 1962میں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بھی ہوچکی ہے۔ مشرقی لداخ میں واقع پینگانگ جھیل کے شمالی اور جنوبی کناروں کو ملانے کے لیے سڑک کی تعمیر کی جا رہی ہے۔چین ارونا چل پردیش کو جنوبی تبت مانتا ہے۔اس کی نظر میں پورا اروناچل پردیش چین کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی ہندوستانی رہنما کے ذریعہ اروناچل پردیش کا دورہ یا ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کیا جاتا ہے تو چین اپنے تاثرات دیتے ہوئے اسے اپنی خودمختاری سے جوڑ دیتا ہے۔دراصل سرحدی تنازع میں شامل اکسائی چن جس پر چین کا ناجائز قبضہ ہے،جموں و کشمیر کا حصہ ہے،جسے چین اپنا لازمی حصہ قرار دیتا ہے۔چین کی نیت کا اندازہ اسی سے ہوجاتا ہے کہ اس نے 2018 میں اروناچل پردیش کے چھ مقامات کے نام بدلنے کے بعد2021میں بھی آٹھ قصبات سمیت15مقامات کے نام تبدیل کیے۔چین نام بدلنے، نئی چوکیاں قائم کرنے، پُل بنانے، سڑکیں تعمیر کرنے اور مواصلاتی نیٹ ورک کی تعمیر جیسی کارروائیوں میں ملوث ہے تو ہندوستان کے ذریعہ بھی درجنوں نئے چھوٹے بڑے پُل،سڑکیں ،سرنگیں، ریلوے لائنز اور دفاعی لحاظ سے اس حساس ترین علاقے میں دوسرے بنیادی ڈھانچے تعمیر کرنے کو وسعت دی گئی ہے۔
صدر جمہوریہ محترمہ دروپدی مرمو نے اروناچل پردیش کے37ویں یوم تاسیس کی تقریبات میں شرکت کرتے ہوئے مرکزی حکومت کے ذریعہ اروناچل پردیش میں نیشنل ہائی وے انفرااسٹرکچر کی ترقی کے لیے 44,000کروڑ روپے کی اسکیموں کی منظوری اور اروناچل پردیش میں 600 میگاواٹ مینگ ہائیڈرو پاور اسٹیشن شروع ہونے کے ساتھ اضافی بجلی والی ریاست بننے پر خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے اروناچل پردیش سمیت پورے شمال مشرقی خطے کے ہندوستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کی تعریف بھی کی۔ایسے میں اس حقیقت سے کیسے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اروناچل پردیش ہندوستان کا حصہ نہیں ہے۔ اروناچل پردیش ہندوستان کا لازمی حصہ ہے اور رہے گا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]