جمعیۃ علماء ہند کے چونتیسویں اجلاس کے سماجی اثرات

0

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی
جمعیۃ علماء ہند کے چونتیسویں اجلاس میں مولانا ارشد مدنی کے بیان پر جو ہنگامہ برپا کیا گیا وہ در اصل حقائق سے چشم پوشی کا مظہر ہے۔ جو لوگ مذاہب کی تاریخ و تہذیب سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس دنیا کی ابتداء حضرت آدم سے ہوئی ہے۔ وہیں سے نسل انسانی کا فروغ ہوا۔ قومیں اور قبائل وجود میں آئے۔ انبیاء ورسل پیدا ہوئے۔ مولانا ارشد مدنی نے اپنے خطاب میں یہی کہا کہ دین یعنی عقیدہ ابتدا سے لے کرحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ایک ہی رہا ہے۔ البتہ شریعتیں اور طریقے بدلتے رہے ہیں۔ کسی نے کسی شریعت کی تبلیغ و ترویج کی اور کسی نے کسی اور طریقہ کو اختیار کرنے کی ہدایت کی۔ لیکن نفس توحید یعنی عقیدہ کبھی تبدیل نہیں ہوا۔ اگر ہم مذاہب کی تاریخ اور ان کی تعلیمات پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ تمام ادیان میں توحید کا عنصر موجود ہے۔ چنانچہ ہندو دھرم میں توحید کے متعلق ابوریحان بیرونی نے اپنی مایہ ناز تصنیف ’کتاب الہند ‘ میں بڑے دو ٹوک انداز میں لکھا ہے۔ ’اللہ پاک کی شان میں ہندوؤں کا اعتقاد یہ ہے کہ وہ واحد ہے، ازلی ہے، جس کی نہ ابتدا ہے، نہ انتہا، اپنے فعل میں مختار ہے، قادر ہے، حکیم ہے، زندہ ہے، زندہ کرنے والا ہے، صاحب تدبیر ہے، باقی رکھنے والا ہے، اپنی بادشاہت میں یگانہ ہے، جس کا کوئی مقابل اور مماثل نہیں ہے، نہ وہ کسی چیز سے مشابہ ہے اور نہ کوئی چیز اس کے ساتھ مشابہت رکھتی ہے۔‘ کوئی یہ کہ سکتا ہے کہ ابوریحان البیرونی ایک مسلمان ہے اور مسلمان کی بات ہندو دھرم کے لیے قابل قبول نہیں ہوسکتی۔ لیکن بات یہ ہے کہ ابوریحان البیرونی وہ واحد مسلمان ہے جس نے ہندوؤں کے ارد گرد رہ کر اور ہندو سنیاسیوں کے ساتھ رہ کر ہندو دھرم کی تعلیمات سے واقفیت پیدا کی ، ان کی زبان سیکھی اور پھر ایک شاہکار تصنیف تیار کی۔ اس تناظر میں ابوریحان البیرونی کی ہندو دھرم کے متعلق پیش کی گئی آراء نہ صرف قابل قبول ہیں بلکہ سند اور متن کا درجہ رکھتی ہیں۔ رہی یہ بات کہ مولانا ارشد مدنی نے اوم اور آللہ کو ایک قرار دیا ہے تو اس میں ان لوگوں کے لیے تو تکلیف ہوسکتی ہے جو اتحاد و اتفاق کے خلاف بات کرتے ہیں۔ البتہ جو لوگ جوڑنے اور اتحاد کی بات کرتے ہیں ان کے لیے اس میں مثبت پیغام ہے۔ جو تصور ہندو دھرم میں اوم کا ہے وہی تصور اسلام میں اللہ کا ہے۔ اس بات پر چراغ پا ہونے کی کیا بات ہے؟ ہندو دھرم میں توحید کے عناصر پائے جاتے ہیں اس کا احساس ان کے مختلف مذہبی مصادر اور متون سے بخوبی ہوتا ہے۔ ہندوؤں کی معروف فقہی کتاب منودھرم شاستر کے باب اول ، شلوک سات میں درج ہے۔ ’وہ جو لطیف شناختوں سے ماورا اور ابدی ہے اور جس کا ادراک فقط باطنی قوتوں سے ممکن ہے ، جس میں تمام مخلوق سماسکتی ہے ، مگر خود احاطہ قیاس سے باہر ہے‘ ان حقائق سے کوئی بھی انحراف نہیں کرسکتا ہے۔ کیا ان چیزوں سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی ہے کہ ہندو دھرم میں توحید کا تصور پوری طرح موجود ہے۔ گرچہ آج اس کی شکل بگاڑ دی گئی ہے۔ مولانا ارشد مدنی نے بھی اسی بات کی یاد دہانی کرائی اور انہوں نے بتایا کہ جس طرح آپ کے یہاں اوم کا نظریہ ہے وہی نظریہ ہمارے یہاں اللہ کا پایا جاتا ہے۔ مولانا کے اس بیان سے جن حضرات نے اعتراض کیا انہیں حقائق کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مذاہب کی تاریخ و روایات کو بغور پڑھنا ہوگا۔ آج کا المیہ یہ ہے کہ عوام کو نام نہاد مذہبی رہنماؤں نے ان باتوں میں زیادہ الجھا رکھا ہے جن کا اصل مذہب سے کوئی تعلق یا رشتہ نہیں ہے۔ یہ سلسلہ آج دنیا میں پائے جانے والے ہر مذہب میں مل جائے گا۔ معاشی ترقی اور اقتصادی خوشحالی کے لیے اصل مذہب سے دور رکھا گیا۔ مذہب کے نام پر آج ایسے ایسے کام کیے جارہے ہیں جن سے معاشرہ پاکیزہ ہونے کے بجائے مزید بد عنوانی میں ملوث ہوتا نظر آتا ہے۔ لیکن جب کوئی اہل معرفت اور حق کا علمبردار مذہب کے نام پر جاری دھندوں اور پروجیکٹوں کو سماج کے لیے ناسور بتاتا ہے تو اس کی حمایت و مدد کرنے کے بجائے لوگ اسی کے مخالف ہوجاتے ہیں۔ عالمی سطح پر ہم ان چیزوں کا بخوبی ادراک کرتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ جو لوگ مذہب کے نام پر معاشرہ کو لوٹ کھسوٹ رہے ہیں وہ جانتے نہیں ہیں، بلکہ جانتے ہوئے کہ ہمارا یہ رویہ محض ذاتی مفاد سے وابستہ ہے۔ عوامی فلاح یا معاشرتی ترقی کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ لیکن اصحاب فکر و نظر نے ہمیشہ مذہب کے نام پر اندھ بھکتی کی مخالفت کی ہے۔ اس لیے مولانا ارشد مدنی کا حالیہ خطاب اس حوالے سے بھی بڑا اہم اور قابل غور ہے کہ جو مذہب توحید کا قائل ہے اس کے مذہبی صحیفوں اور دینی مصادر میں توحید کا ذکر ملتا ہے لیکن آج توحید کے تصور کو بری طرح مسخ کردیا گیا ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اپنے مذہب کی ان روایات اور تعلیمات کو اختیار کرے جو کہ اصل مذہب کا حصہ ہے۔ مذہب کے نام پر جن باتوں کو پیش کیا گیا اور مذہب کا ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے تو ایسی تمام بدعقیدگی اور اوہام پرستی کو سماج سے خارج کرنا۔ تبھی جاکر معاشرے میں ہم آہنگی اور رواداری کا فروغ ہوسکے گا۔
مولانا ارشد مدنی کے بیان پر اب تک جو آراء آئی ہیں ان کو اگر غور سے دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کسی نے اس بیان کی حمایت کی ہے اور حقائق کا غماز بتایا ہے۔ تو بہت سارے افراد نے اس بیان سے عدم اتفاق کا اظہار کیا ہے۔ اب ذرا دونوں نظریات کا تجزیہ ایمانداری سے کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ منفی آراء کسی خاص ذہنیت کا چشم کشا ثبوت ہیں۔ البتہ مثبت آراء میں حقائق کا اعتراف، سماجی رکھ رکھاؤ اور ہندوستانی تہذیب کی امین و پاسبان ہیں۔ اس کے علاوہ کچھہ لوگوں کا اختلاف محض ذاتی نوعیت کا ہے۔ ان کو دقت صرف اسی بات کی ہے کہ جمعیۃ علماء ہند نے اتنا عظیم الشان پروگرام منعقد آخر کرا کیوں لیا۔ جو لوگ ہندوستان کی سماجی اور معاشرتی تبدیلیوں اور اس میں پائے جانے والی خوبیوں سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہندوستان ایک ایسا واحد ملک ہے جس میں مذہبی تکثیریت اور دینی اقدار کی بالادستی کا احساس قدم قدم پر ہوتا ہے۔ اسی احساس اور انیکتا میں ایکتا کا جیتا جاگتا مظہر ہے جمعیۃ علماء ہند کا یہ پروگرام ہے۔ رہا یہ سوال کہ جمعیۃ علماء ہند کی موجودہ قیادت اور اس کے رضا کار کسی خاص تنظیم کے ایجنٹ ہیں ؟ یہ اعتراض کرنے والے جمعیۃ علماء ہند کی تاریخ اور اس کے گرانقدر کارناموں سے واقف نہیں ہیں، اگر ہیں بھی تو وہ محض عناد اور تعصب کی بنیاد پر اس طرح کی اول فول باتیں کررہے ہیں۔ تاریخ کے اوراق کھنگالنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ جمعیۃ علماء ہند نے آزادی سے لیکر آج تک ملک کی تعمیر و ترقی اور متحدہ قومیت کے استحکام میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کے اس اجلاس کے سماجی اور معاشرتی اثرات کیا مرتب ہوں گے؟ یا ہورہے ہیں ؟ تو اس بابت یہ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں فرقہ پرست عناصر نے گھر واپسی اور مسلمانوں کو ٹارچر کرنے کی جو مہم چھیڑ رکھی تھی اس کا رخ یکایک پلٹ گیا ہے۔ گھر واپسی کی بات کرنے والے اور اپنے پروجوں کی طرف لوٹانے والوں کے لیے سوچنا ہوگا کہ جن پروجوں کی ہم بات کرتے ہیں مسلمان تو ان پروجوں کو پہلے سے ہی تسلیم کرتے ہیں۔ گویا اس تناظر میں ان تمام فرقہ پرست ذہنیتوں اور ملک میں چل رہی بے جا اور غیر ضروری بحثوں کا رخ پوری طرح معدوم ہوجائے گا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان میں اس وقت مذہب کے نام پر جس طرح کی بساط بچھائی گئی ہے اس میں محض مذہبی روایات اور ہندوستانی تنوع کی تابناک قدروں کو مجروح کیا جارہاہے۔ بقائے باہم اور قومی یکجہتی کے مفہوم کو پوری طرح مٹانے کی پالیسی اختیار کرنے کی جسارت ہورہی ہے۔ اس اعتبار سے جمعیۃ علماء ہند نے اپنے اس اجلاس میں نہ صرف ملک کی ساجھی روایات کو مستحکم کرنے کی سعی کی ہے بلکہ ہندوستانی تہذیب اور تمدن کو ایک بار پھر زندہ رکھنے کا عزم کیا ہے۔ جو کل تک یہ بتارہے تھے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے آباؤ اجداد ہندو ہیں اور بہت حد تک اس بات کی تشہیر ہورہی تھی اس اجلاس کے انعقاد سے پتہ چلا اور عوام میں پیغام گیا کہ مسلمانوں کے آباؤ اجداد ہندو تھے اس بحث کو پوری طرح بے اثر کردیا ہے۔ سماج کو جوڑنے اور ملک میں امن و امان قائم کرنے یا پھر ہندوستانی روایات کو برقرار رکھنے کو جمعیۃ علماء ہند کے منچ سے جس طرح زور دار انداز میں پیش کیا گیا اس کی عصری افادیت سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔
نیز ہندو عوام میں مسلمانوں کے خلاف جو باتیں رائج کی جارہی تھیں اس اجلاس سے ان تمام باتوں پر یقینی طور پر قد غن لگے گا۔ جمعیۃ علماء ہند کی قیادتِ یا اس کے عزائم پر اعتراضات کرنے والوں کو یہ ہر گز نہیں بھولنا چاہیے کہ سماجی تانے بانے کو جوڑنا ، بھارت کی تہذیب اور یہاں کے انڈو اسلامک نظریہ کی بنیاد پر مسلمانوں اور مسلمانوں میں پائے جانے والے دیگر مسلکی گروہوں کو متحد و متفق کرنے میں اہم رول نبھایا۔ آج بھارت میں دینی فضا ،مذہبی اداروں کا تحفظ اور شرعی و دینی جذبہ جو نظر آتا ہے وہ صرف اور صرف جمعیۃ علماء ہند اور اس اہم تحریک سے وابستہ اکابر و اسلاف کی دین ہے۔ ہمیں یہ ہر گز نہیں بھولنا چاہیے کہ قومیں اور معاشرے وہی پوری آب و تاب اور شان و شوکت سے زندہ رہتے ہیں جو اپنی تاریخ ، تہذیب اور دینی ومذہبی شعور سے ہم آہنگ ہوں۔
اس تناظر میں اگر ہم جمعیۃ علماء ہند کی تاریخ اور اس کے گرانقدر کارناموں کو دیکھتے ہیں تو یہ حقیقت طشت ازبام ہوتی ہے کہ ہر موڑ اور ہر میدان میں قابل فخر کارنامے انجام دیئے ہیں۔ ہندوستانی تاریخ میں یہ پہلی اور واحد منظم جماعت ہے جسے اپنے وطن اور قوم کی یکساں طور پر خدمت کرنے کا شرف حاصل ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ قومی اور ملی خدمات میں کبھی بھی جمعیۃ علماء ہند نے تفریق و امتیاز یا بھید بھاؤ کا رویہ روا نہیں رکھا ہے۔ یہاں یہ بات بھی گوش گزار کرنی ہے کہ جمعیۃ کے اکابر نے ملک میں انسانی رشتوں اور مذاہب کے احترام کے ساتھ ساتھ وہ جامع اور واضح نقوش مسلمانان ہند کو عطا کیے ہیں، جن سے ملک کی سیکولر اقدار اور جمہوری نظام کی بنیادیں مستحکم ہوتی ہیں۔سوچنے اور تدبر و تفکر کرنے کی بات یہ ہے کہ آج ہندوستان کے سماجی اور جمہوری نظام کی مقدس روایات کو مخصوص اور مٹھی بھر فرقہ پرست طاقتیں مخدوش و مجروح کرتی نظر آرہی ہیں۔ ملک کی صدیوں پرانی تہذیب ، اتحاد و یکجہتی اور یگانگت و رنگا رنگی کو نقصان پہنچانے پر تلی ہوئی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ نفرت و بیزاری اور عداوت و تعصب کی نئی داستان بھارت جیسے عظیم اور ادیان و مذاھب والے ملک میں لکھی جارہی ہے۔
[email protected]
ہندوستان کی ثقافتی شناخت اور یہاں کے متنوع افکار کو گل کرنے کی کاوشیں ہورہی ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ وطن پرستی اور وطن دوستی کے جدید قواعد اختراع کیے جارہے ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ ، تہذیب، دینی شعوراور مدارس دینیہ کے خلاف ایک یلغار سی نظر آتی ہے۔ اس نئی اور منفی تعبیر و تشریح کے خلاف آواز اٹھانا اور اپنے حقوق کی بحالی کے لیے آگے آنا ہم سب کی بنیادی ضرورت ہے۔ جمہوری نظام حکومت میں پر امن اور متوازن طریقہ سے حقوق کی بازیابی اور دینی ومذہبی شعور کی بیداری کے تئیں جمعیۃ علماء ہند نے ہمیشہ ملک کے جمہوری آئین و دستور کو سامنے رکھ کر جد و جہد کی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ آزادی کے بعد سے فرقہ پرست طاقتوں اور نفرتی ٹولوں نے اپنا منھ کھولنا شروع کر دیا تھا۔ یہ سلسلہ اب تھوڑا سا بڑھ گیا ہے۔ اس نفرتی ایجنڈے اور منفی فکر کو پوری طرح متاثر کرنا ہوگا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جمعیۃ علماء ہند نے ان تمام غیر سماجی اور منفی عناصر کے خلاف جمہوری قدروں کو سامنے رکھ کر لڑائی لڑی ہے۔ سماجی شعبے اور علمی و عرفانی قدریں کسی بھی تحریک کی روح ہوتی ہیں۔ جو تحریکیں سماجی اتحاد کی تشکیل میں اہم رول ادا نہیں کرتی ہیں ان کا وجود معدوم ہوجاتا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کو ایک صدی سے زائد کا طویل عرصہ ہوگیا لیکن آج بھی اپنی پوری تہذیب اور تاریخ کے ساتھ نہ صرف زندہ ہے بلکہ ملک و قوم اور ملت و معاشرے کے تئیں پوری طرح سے متحرک اور فعال ہے۔ اس کی واحد وجہ ہے کہ جمعیۃ علماء ہند جن اصولوں اور روایات کی پابند ہے ان کا طریقہ کار عوامی، جمہوری، آئینی اور دستوری ہے۔ کسی فرد واحد کی ملکیت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی سماجی، تعلیمی، اقتصادی ، فکری اور دینی و اصلاحی جد وجہد کی ایک طویل تاریخ ہے۔ جن کی اہمیت و افادیت اور عظمت و رفعت ماضی میں بھی تھی، آج بھی ہے اور مستقبل میں بھی یوں ہی رہے گی۔ جمعیۃ علماء ہند کا یہ وہ وصف ہے جس سے اس کی تاریخی حیثیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ تحریک اپنے آپ میں کچھ بھی نہیں ہوتی ہے بلکہ کسی بھی تحریک کی عظمت اور اس کی رفعت کا اندازہ ان افراد سے لگایا جاتا ہے جو اس تحریک کو سینچتے ہیں اور وہ اپنے کارناموں سے پہچانی جاتی ہے۔ بنا بریں آج معاشرے میں جمعیۃ علماء ہند کا جو رتبہ ہے وہ صرف اور صرف اس کے ان کارناموں اور اکابر و اسلاف کا مرہون منت ہے جن کو جمعیۃ علماء ہند سے وابستہ افراد نے سینچا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS