ملک کے حالات پر دانشوروں کی تشویش

0

ڈاکٹر سیّد احمد قادری
جنید اور ناصر کی بڑی بے رحمی، سفّاکی اور حیوانیت کے ساتھ مارے جانے کا سانحہ کوئی نیا نہیں ہے ۔یہ بات بھی نئی نہیں ہے کہ مونو مانسیر جیسے سفّاک مجرمین سے اظہار ہمدردی اور حمایت میں جلسے جلوس بھی نکالے گئے اور مجرموں کا سرغنہ ببانگ دہل یہ کہتا نظر آتاہے کہ ہم گئو اسمگلروں کو مارتے کاٹتے رہیں گے ، کوئی ہمیں اس کے لئے ذمّہ دارٹھہرائے یا سزا دے۔ اس قاتل نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ اسے ہریانہ پولیس کا مکمل تعاون حاصل ہے ، جو پوری طرح درست ہے ، یہ بھی کوئی نیا انکشاف نہیں ہے ۔ کٹھوعہ کی معصوم سی نابالغ بچی کے ساتھ زنا بالجبر اور پھر اسے تڑپا تڑپا کر مارنے کے بعد مجرمین کے خلاف نفرت اور غم و غصہ کے بجائے ان زانیوں اور قاتلوں کی حمایت میں قانون کے رکھوالوں نے جلوس نکالا تھا ۔ جھارکھنڈ کے ہزاری باغ میں بھی ایسے ہی ہجومی تشدد میں مارنے والوں کو جیلوں سے رہا کرانے کے بعد پھول مالا کے ساتھ عزت افزائی کی گئی تھی ۔ گجرات فساد کے مجرمین کو قید خانے سے آزاد کرا کر انھیں تو ’سنسکاری‘ ہی ’گھوشت ‘ کر دیا گیا تھا۔ ایسے واقعات اورسانحات اتنی بڑی تعداد میں رونما ہوئے ہیں کہ صفحہ کا صفحہ سیاہ ہو جائیں گے لیکن قتل و خون کی ایسی اذیت ناک، دردناک ، المناک اور شرمناک داستاںختم نہیں ہوگی۔ کل پرسوں ہی لکھنؤ کے کچھ وکلا ایک ٹی وی چینل پر کہہ رہے تھے کہ حکومت غنڈوں کی ہمت افزائی کر رہی ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس ملک میں ’لوک تنتر‘ (جمہوریت) نہیں بلکہ ’راج تنتر ‘ ( بادشاہی) چل رہا ہے ۔ میں مزید اس وقت نہا سنگھ راٹھور اور کسی دوسرے کسی معاملے کو آئندہ کے لئے چھوڑتا ہوں اور صرف ان ہی معاملوں کو، جن میںظلم و بربریت کی داستان دہرائی گئی اور ایسے مظالم کی حکومت مدافعت کر رہی ہے ،کے ذکر پر اکتفا کر رہا ہوں۔
بڑی تلخ حقیقت یہ ہے کہ جب سے ملک میں آر ایس ایس اور بی جے پی برسر اقتدارآئی ہے ، ایسے سانحات کاسلسلہ عام ہے ۔اب تو ملک میں جیسے جیسے انتخاب قریب آ رہا ہے ، ظلم و تشدد کی کھیتی لہلہا تی جائے گی۔ ملک کے اندر رونما ہونے والے ایسے کریہہ منظر نامے کو دیکھ کر اس ملک کے لوگوں کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک کے لوگ بھی حیران اور پریشان ہیں کہ اس جمہوری ملک میں یہ کیا ہو رہا ہے ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آتے ہی پورے ملک میں جس طرح مذہبی منافرت، فرقہ واریت،عدم رواداری اور جمہوریت کی پامالی، حکومت کی خاموش رضامندی بلکہ حوصلہ مندی کے ساتھ فروغ پا رہی ہے، حکومت کے وزیروں اور ان کی شہ پر ان کے پالتو لوگوں نے نازیبا الفاظ کے ساتھ زہریلے بیانات دے کر ملک کے ماحول کو جس طرح آلودہ کیا ہے، ایسی تمام کوششوں پر حکومت کے سربراہ کی خاموشی کو رضا مندی اور سر پرستی تصور کرتے ہوئے ان کے مزید حوصلے بڑھتے جا رہے ہیں، جس کے باعث پورے ملک میں ایسے سانحات ، واقعات اور حادثات سامنے آ رہے ہیں کہ جنھیں دیکھ لوگ انگشت بدنداں ہیں ۔ ہزاروں سال سے قائم ملک کی گنگا جمنی تہذیب ،آپسی اتحاد واتفاق، اخوت ، یکجہتی، سب کے سب خون سے لت پت ہیں۔ کبھی پونا میں راہ چلتے بے گناہ مسلم نوجوان کوگھیر کر ڈھیر کر دیا جا رہا ہے۔کبھی پروفیسر کلبرگی کو ان کے سیکولر نظریات کی سزا دی دی جا رہی ہے ، کبھی فرقہ پرستی کی مخالفت پر نریندر دابھولکر،گووند پنسارے اور گوری لنکیش وغیرہ کو موت کے گھاٹ اتاراجارہاہے۔کبھی اخلاق،فرازل،پہلو خاں، تبریز انصاری وغیرہ کو حیوانیت کے ساتھ ہلاک کیا جا رہا ہے ۔کبھی نیند میں ڈوبے دلت کے بچوں کو جلا کر راکھ کیا جا رہا ہے ۔ کبھی کسی کے چہرے پر کالک پوتی جا رہی ہے اور کبھی کسی کو سر عام ننگا کر بے رحمی کے ساتھ پیٹا جا رہا ہے ۔ کھانے کی آزادی پر پہرے بٹھائے دئے گئے ہیں ، اظہار آزادی کو سلب کر دیا گیا ہے ، مذہبی آزادی پر قفل ڈالے جارہے ہیں ، عشق و محبت پر بھی پابندی عائدہو رہی ہے۔ ایسے بدترین اور ناگفتہ بہ حالات سے ملک کے اس طبقہ کافکر مند ہونا لازمی ہے ، جو ادب، آرٹ، تاریخ، سائنس اور آئین کے حوالے سے قوم و ملک اور سماج کی فلاح و بہبود کی مثبت سوچ اور فکر رکھتا ہے ۔ ملک کی ایسی بگڑتی صورت حال ، ایسے تمام لوگوں کے لئے ناقابل برداشت ہو گئی ہے، تب ان دانشوروں نے حکومت وقت کو متنبہ کرنے کے لئے غم و غصّہ اوراحتجاج کا راستہ اپنانے پر مجبور ہونا پڑا۔ ملک کی جمہوری قدروں کی پامالی کے خلاف ہو رہے احتجاج میں ہر مکتبۂ فکر کے فنکار ، قلمکار ، فلم ساز، تاریخ داں ، سائنس داں ، سبھی شامل ہورہے ہیں ۔ایک دوسرے کی آواز میں آواز ملانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
لیکن ایسے احتجاج کا حکومت وقت پر کوئی اثر نہیں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ملک میں تیزی سے پھیل رہے انتشار اور بد امنی پر دانشوروں کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے کئی سابق جسٹس کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس بھی ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ حزب اختلاف کے لوگ تو مسلسل تنقید کر ہی رہے ہیں، لیکن واہ رے بی جے پی۔ ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی جی۔۔ وہ جس گھن گرج کے ساتھ بولتے ہیں ، اپنی آواز کا جادو جگاتے ہیں ، وہ بالکل خاموش ہیں اور احتجاج کرنے والوں کو دندان شکن جواب دینے کے لئے اپنی حکومت کے کئی وزرااور چھٹ بھین نیتاؤںکو معمور کر دیاہے ۔ افسوس کہ ہمارے وزیر اعظم ملک میں تیزی سے پاؤں پسار رہی فسطائیت پر خاموش ہیں ۔وہ اپنی چپّی توڑتے کیوں نہیں ہیں ؟ یو پی اے حکومت کے وزیراعظم من موہن سنگھ کی بعض ناپسندیدہ واقعات پر خاموشی اختیار کئے جانے کے جواب میں انھیں موجودہ وزیر اعظم نے ’’مونی بابا‘‘ (خاموش بابا) کا نام دیا تھا ۔ پھر وہ بذات خود ملک کے ایسے نازک حالات میں ’’مونی بابا ‘‘ کیوں بنے بیٹھے ہیں ؟ وہ ہمیشہ ملک کے سوا سوکروڑ عوام کی نمائندگی کی باتیں کرتے ہیں ۔ ’ سب کا ساتھ ، سب کا وکاس ‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ پھر وہ اپنے 2014 کے بعد کے ’سنہری دور‘ سے اب تک مختلف وقتوں میںنینا سہگل سے لے کر ان ہی کے پارلیمانی حلقہ بنارس کے مشہور ہندی ناول نگار پروفیسر کاشی ناتھ سنگھ ، راجستھانی شاعر نند بھاردواج، انگریزی ادب کے شاعر کیکی این دارووالا سمیت پچاسوں مختلف زبانوں کے مصنفین اور دانشوروں ، فلموں سے تعلق رکھنے والے کار دیواکر بنرجی، پریش کامدار، لیپیکا سنگھ ، نسٹھا جیں ، آنند پٹوردھن ، کرتی نکھوا، ہرش کلکرنی اور ہری نائر جیسے سرکردہ فلم کاروں ، پروفیسر رومیلا تھاپڑ، عرفان حبیب ، ڈی این جھا ، مردلا بھٹا چاریہ، رام چندر گوہا سمیت پچاس سے زائد ملک کے جانے مانے تاریخ دانوں ، مشہور سائنس داں پدم شری پشپ متر بھارگو، اشوک سین اور پدم شری ڈی بالا سبرامنیم سمیت ایک سو سائنسدانوں کے ذریعہ سابق صدر مملکت ہند کو خط لکھ کر ملک کی موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کئے جانے کے باوجود خاموشی کیوں اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ؟ اب تو احتجاج میں فوجی افسر بھی سامنے آنے لگے ہیں ۔ میجر جنرل ستبیر سنگھ نے بھی اپنا فوجی تمغہ واپس کر اپنا احتجاج درج کرا چکے ہیں ۔ ٹھیک اب سے ایک سال قبل عالمی شہرت یافتہ مفکر نوم چومسکی نے بھی اپنے ایک پیغام میں کہا تھا کہ ’ ہندوستان میں لوگوں کی آزادانہ سوچ پر پابندی لگ گئی ہے ،لوگوں سے لکھنے اور بولنے کی آزادی چھین لی گئی ہے ۔‘ انھوں نے مودی حکومت کے دوران تعلیمی معیار کے غیر معیاری ہونے اور تعلیم کے بھگوا کرن کا بھی اپنے پیغام میں ذکر کیا تھا ۔
عصری تناظر میںملک کے حالات بلا شبہ باعث تشویش ہے ،جس کی بنا پر ہی سیکڑوں سائنسدانوں ، پچاسوں ادیبوں اورتاریخ دانوں اورہزاروں سابق نوکر شاہوںو سابق فوجی کی اتنی بڑی تعداد احتجاج اور مخالفت میں کھڑی ہو گئی ۔ دراصل ملک کے اندر جس طرح کی فرقہ پرستی ، انسانی حقوق کی پامالی اور جمہوریت کی بے وقعتی ، لا قونیت ، مذہبی منافرت اور کھانے ، پینے ، بولنے کی آزادی کو سلب کرنے کی بزور طاقت کوششیں ہو رہی ہیں ، اس سے اپنے وطن سے محبت کرنے والوں کی دور اندیش نگاہیں ، ملک کی سا لمیت پر منڈرانے والے خطرہ کو دیکھ رہی ہیں ۔ بقول معروف سائنسداں بھارگو ’ مودی حکومت میں مذہب کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کرنے کی فرقہ وارانہ اور علیحدگی پسند عناصر کی کوششوں کو سرپرستی دینے کی میں مخالفت کر رہا ہوں ‘۔ حکومت کے ذریعہ انفورسمنٹ دائریکٹوریٹ ، انکم ٹیکس ، سی بی آئی وغیرہ سے خوف زدہ کرائے جانے کے باوجود گجرات فساد کے بعد استعفیٰ دینے والے آئی اے ایس افسر ہرش مندر نے ملک کے ایسے حالات دیکھ کر گزشتہ سال کہا تھا کہ ’ ہندوستان آج خود کو خوف زدہ کرنے والی تاریکی ، تشدد ، نفرت اور ڈر کے ماحول میں پا رہا ہے۔ ‘ ایسے باوقار اور ملک کے بے حد قیمتی لوگوں کے احساسات و جذبات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ، نہ کہ ان پر تنقید اور جارہانہ حملہ کرنے کی ۔ ادھر گلوبل ریٹنگ ایجنسی ’موڈیز‘ نے اپنی ایک رپورٹ ’بھارت پر ایک نگاہ:امکان کی تلاش میں ‘ کے تحت یہ تنبیہ کی ہے کہ جس طرح اقلیتوں کے معاملے میں تناؤ چل رہا ہے، اگرمودی نے اپنی پارٹی کے لوگوں پر لگام نہیں لگائی تو نہ صرف ڈیموکریٹک بلکہ گلوبل اعتبار بھی وہ کھو دیں گے۔ ملک پراس کے منفی اثرات پڑنا لازمی ہے۔ابھی ابھی رائے پور میں منعقدہ کانگریس کے سہ روزہ اجلاس میں کانگریس رہنما سونیا گاندھی نے بھی ملک کے بدترین حالات پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنی بات کو کئی بار کی طرح پھر دہرایا ہے کہ ’ اقلیتوں پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں ، ان کی زندگی اجیرن کی جارہی ہے ۔ ہمیں اس بڑھتی ہوئی نفرت کے خلاف پُر زور طریقے سے آواز بلند کرنی ہوگی ۔ ‘ لیکن افسوس کہ ہر اس حب الوطن شخص کی جو ملک کی سالمیت ،گنگا جمنی تہذیب ، قومی یکجہتی ، اخوت ، مذہبی مساوات پر یقین رکھتا ہے ، اس کی تشویش اور تنبیہ کو نظر انداز کیا جانا کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں ہے ۔کوشش ہونی چاہئے کہ ایسے لوگوںکی صدا ، صدا بہ صحرا ثابت نہ ہو۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS