دنیا کثیر قطبی نظام کی طرف جارہی ہے!

0

شاہنوازاحمد صدیقی

سیاست میں مستقل دوست یادشمن نہیں ہوتے۔ عالمی سیاست میں بھی یہی اصول ہے، نہ کوئی مستقل دوست نہ دشمن— تمام مراسم، مفادات، عارضی یا مستقل— کے امکانات کی بنیاد پر بنتے بگڑتے ہیں۔ آج یوکرین پرروسی جارحیت کا ایک سال پورا ہوگیا ہے اوراس معرکہ نے عالمی سیاست کو بڑے پیمانے پر تبدیل کیاہے۔ سردجنگ کے دوران دنیا دوقطبی تھی اگرچہ ناوابستہ ممالک اپنے آپ کو دونوں ملکوں سے الگ رکھ کر غیرجانب دار ہونے کی بات کررہے تھے مگر مجموعی طورپر اس تحریک سے وابستہ ممالک کچھ درپردہ اورکچھ سرعام روس کے حامی تھے۔ روس کے زوال اور بکھراؤ کے بعد ایک طویل عرصہ تک دنیا یک قطبی رہی مگر اب جو صورت حال سامنے آرہی ہے، اس کے ابتدائی اندازے سے یہ پتہ نہیں لگایاجاسکتاہے کہ وہ دوقطبی ہوگی یا کثیرقطبی۔
دراصل یوکرین بحران نے امریکہ اور مغربی ممالک کے ذریعہ کیے جارہے پروپیگنڈے کو طشت ازبام کردیا ہے۔ ادھر روس نے ناٹو ویوروپی ممالک میں سیندھ لگائی ہے جہاں کئی ممالک یوروپی یونین اور ناٹو کے حامی اور ممبر ملک ہوتے ہوئے بھی روس کی مدد کررہے ہیں۔ مغربی ممالک کو اب مغربی ایشیا کی فکر ستانے لگی ہے، زیادہ ترممالک خوشحال اور ترقی کی مدارج طے کررہے ہیں اور وہ اب پرانے طریقۂ کار پرچلنے کے لیے تیارنہیں ہیں۔ انہوں نے گزشتہ 15سالوں میں دیکھ لیاہے کہ کس طرح انسانیت نوازی اور جمہوریت پسندی کا نعرہ لگاکر مغرب نے مسلم اور عرب ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے۔ مسلم اور عرب ممالک میں ثقافتی، لسانی، علاقائی اور اقتصادی اختلافات کے شکار ممالک کو لڑوا کر، معمولی اختلافات کو بہانہ بنا کر لیبیا، عراق، شام، بحرین اور دیگر ممالک کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑادیا۔ فوجی سازوسامان کی مارکیٹ بنائی اور ساتھ ہی ایک جابر،ظالم، نسل پرست ملک اسرائیل کو بے پناہ چھوٹ، طاقت اور ہتھیار دے کر اسے اس مقام پر کھڑا کردیاہے کہ وہ عالمی امن، صلہ رحمی اور دوستانہ تعلقات کے لیے چیلنج بناہوا ہے۔ دوسری جانب روس نے افغانستان اور دیگرمسلم غلبہ والے ممالک اور علاقوں میں بربریت کا ننگاناچ کیاہے۔اس سے بھی چشم پوشی ممکن نہیں۔ سیکولرزم، کمیونزم اور لامذہبیت کے نام پر یوروپی یونین اور اب روس نے جو بربریت کے مظاہرے کیے ہیں اور اظہر من الشمس یہی وطیرہ سیکورٹی کونسل کے ایک اور ملک چین نے بھی اختیار ہے۔ اویغورمسلمانوں پراس نے شکنجہ ایسا تنگ کیاہے کہ ایک زمانے میں مشرقی ترکی کہے جانے والے اسی علاقے میں ترکی النسل اپنی زبان میں بات تک نہیں کرسکتے ہیں۔ ان حالات اور کوائف کوسمجھتے ہوئے ایسا لگ رہاہے کہ مغربی ایشیا اور مسلم عرب اور غیرعرب ملکوں نے اپنی راہ الگ چنی ہے۔
تمام ممالک بلاک اور اتحاد اپنے مفادات، ترجیحات اور ضروریات کے مطابق اپنی خارجہ یا اقتصادی پالیسی وضع کرتے ہیں۔ ان ممالک نے بھی ایسا ہی طریقہ اختیار کیاہے۔ مسلم دنیا کے بڑے طاقتور اور اقتصادی طاقت والے ممالک نے کسی بھی ممالک کے گروپ یا فوجی اتحاد میں شامل ہونے کی بجائے اپنی راہ الگ اختیار کی ہے۔ اپنی راہ الگ اختیارکرنے والے ممالک میں ترکی، سعودی عرب، ایران، یواے ای وغیرہ شامل ہیں۔ خلیج تعاون کونسل بھی جی سی سی جس کو مغربی ممالک ’خلیجی ملکوں کا کلب‘ قرار دے کر ان کے غیرجمہوری اور آمر ہونے کے طعنے دیتے ہیں۔ اسرائیل کی انسانیت سوزبربریت پرنہ صرف خاموش ہیں بلکہ اس کی ظالمانہ اورمذہبی مقامات کی بے حرمتی کو دفاعی ضرورت قرار دے کر اس کی حمایت کررہے ہیں۔ اگرچہ یہ بات بھی درست ہے کہ کئی عرب مسلم ملکوں نے صہیونی ریاست کے ساتھ مراسم قائم کیے ہیں، پھر بھی ان ممالک نے بہت حد تک امریکہ اور اس کے مغربی حواریوں سے دامن چھڑایا ہے۔ کئی حلقوں میں ناٹو کو وسیع کرکے عرب اور مغربی ایشیا کے ممالک کو بھی شامل کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ اسرائیل اس پالیسی کی پیروی کررہاتھا، اقتدار میں آنے کے بعد فوراً بعد امریکی صدر جوبائیڈن نے خلیجی ممالک (جی سی سی)سربراہ کانفرنس میں شرکت کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ وہ اس کے حلیف ناٹو سمجھوتے کی توسیع کرناچاہتے ہیں اور ایران کے خلاف ان کی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کی ان میں صلاحیت ہے۔مگر خطے کے ممالک نے دام میں آنے کے بجائے دوراندیشی کا ثبوت دیاہے۔ یوکرین کے معاملے کو اچھال کر دنیا کے سامنے روس کے توسیع پسندانہ عزائم کا خطرہ دکھا کر عالمی رائے عامہ تبدیل کرنے اور اپنے حق میں کرنے کی کوشش کی ہے، جس میں فی الحال امریکہ اور اس کے حواری ناکام دکھائی دے رہے ہیں، خاص طورپر مسلم ممالک نے اپنی ضروریات اور تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کیا ہے۔ اسامہ بن لادن کی دہشت گردانہ اور وحشیانہ کارروائی کو بہانہ بناکر دنیا کو ’ہم اورتم‘ کے زمرے میں تبدیل کردیا۔ اور دنیا کے کئی ممالک اور ان کے حکمرانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔
مسلم ممالک نے امریکہ کے دام میں آنے کے بجائے اس کے ازلی دشمن روس اور چین دونوں کے ساتھ مراسم کو بڑھایاہے۔ اقتصادی شراکت داری کو فروغ دیا ہے اور کئی ممالک نے تودفاعی سمجھوتے کیے ہیں اور روس اور چین کی ساخت کے ہتھیار بھی خریدے ہیں۔ اسی طرح ترکی نے ماضی کو پس پشت ڈال کر عرب ملکوں بطور خاص سعودی عرب، یواے ای، شام اور یہاں تک کہ مصر کے ساتھ بھی تعلقات کو استوار کررہا ہے بلکہ یہ ممالک ایک دوسرے کی دفاعی ضروریات اور اقتصادی مجبوریوں کو بھی سمجھ رہے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کررہے ہیں۔ اسی بابت سعودی عرب اور ترکی کے درمیان تعلقات کی استواری قابل قدر اور بے مثال ہے۔
سعودی عرب، ترکی کی اقتصادی، مادی، دفاعی صلاحیتوں کو اچھی طرح سمجھتاہے اور ترکی کو بھی لگتاہے کہ مغرب اور ناٹو اتحاد پر ضرورت سے زیادہ اعتبار کرکے مقاصد کو حاصل نہیں کیاجاسکتاہے۔ ترکی میں کئی مرتبہ تختہ پلٹ کرنے کی کوشش کی گئی اورفوج اور دیگر طاقت کے مراکز کو استعمال کرکے اپنی مرضی کی سرکاربنانے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ ترکی میں ایک شفاف اور مضبوط جمہوری نظام قائم ہے، اس کے باوجود ماضی میں ترکی کی فوج کے اندرسیندھ لگا کر طیب اردگان کو اقتدار سے غیرجمہوری طریقہ سے——بغاوت کبھی عوامی، کبھی فوجی کراکر—— عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
سعودی عرب کے علاوہ ایران نے بھی مغرب کو کبھی حد سے زیادہ اہمیت نہیں دی، مغرب بطورخاص امریکہ اوربرطانیہ سے ایران کے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے۔ 1919میں رضاشاہ پہلوی کی سرکار کے زوال کے بعدامریکہ اور ایران کے درمیان چھتیس کا آنکڑا رہاہے۔ ایران کے صدرابراہیم رئیسی نے روس کا دورہ کیا۔ اگرچہ ذرائع ابلاغ میں چین اور ایران کے درمیان تعلقات کی استواری کی ایک وجہ دونوں ملکوں کے نیوکلیئر پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کی ضرورت بتایا۔ ماہرین کا کہناہے کہ ایران اپنی پیٹرولیم کی پیداوار میں چین کا تعاون بھی لینا چاہتا ہے۔ مغرب نے ایران کا مکمل اقتصادی اورسیاسی بائیکاٹ کررکھاہے۔
پوری دنیا سے الگ تھلگ پڑنے کی وجہ سے ایران کی مصیبت اور وہاں کااقتصادی ڈھانچہ کمزورہوگیا ہے۔ ایران چاہتاہے کہ چین اس کے ترقیاتی پروجیکٹوں کی تعمیر اور ترقی میں مدد کرے تاکہ ترقی کی دوڑ میں پچھڑا ایران اپنے عوام کی زندگی کے معیار کو بہتر بناسکے۔ دونوں ملکوں نے ایک مشترکہ پلان اور ایکشن پلان JC POAبنایا ہے۔ انھیں منصوبہ کے تحت چین ایران میں 400بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ اسی طرح ایران چین کو اس کی ترقی کے لیے درکارپیٹرولیم مصنوعات فراہم کرائے گا۔ ایرانی صدر ماضی میں کیے گئے معاہدوں کے ذریعہ مغرب کی یک طرفہ دباؤ کی پالیسی کا مقابلہ کرسکے گا۔
دراصل چین بھی آزادانہ اور اپنے مفادات کے مطابق پالیسی وضع کرتاہے، اس کونہ روس کا دباؤ قبول نہ ہی مغرب کا، چین نے مغرب کے دباؤ میںنہ ایران کوچھوڑا اور نہ روس کو۔ اس کے مفادات روس اور ایران دونوں سے وابستہ ہیں۔ چین، سعودی عرب، جی سی سی اور ایران کے ساتھ شراکت داری کررہاہے۔ پچھلے دنوں چین کے صدر نے سعودی عرب کادورہ کیاتھا اور انہوں نے جی سی سی ممالک کی سربراہ کانفرنس میں شرکت کی تھی اور امریکہ اور مغرب کی اس خوش فہمی کی نفی کردی کہ یہ خطرہ کسی طاقت کا دم چھلہ ہے۔ n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS