عبدالماجد نظامی
رکشا کے نام پر معصوم مسلمانوں اور دلتوں کا قتل اس قدر عام ہو چکا ہے کہ دھیرے دھیرے ایسے واقعات اب اخبار کے کونے میں کہیں جگہ پالیں تو بھی بہت سمجھا جاتا ہے۔ ایک سیکولر دستور کے اصولوں پر کام کرنے کا عزم رکھنے والی ہندوستان کی جمہوریت کا یہ ایک کھلا تضاد ہی مانا جائے گا کہ اس ملک کے باشندوں کو شہری کے طور پر نہیں بلکہ آئیڈیالوجی اور عقیدہ کے حاملین کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اسی لئے شہریوں کے ساتھ دشمنوں جیسا برتاؤ صرف اس لئے کیا جاتا ہے کیونکہ ایک خاص نظریہ سے اس ملک کی بھاری اکثریت اتفاق نہیں رکھتی۔ لیکن اس بھاری اکثریت میں بھی مسلم اقلیت کا مسئلہ بڑا پیچیدہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ ان کے جان و مال کو اس قدر ارزاں بنادیا گیا ہے اور خوف و مایوسی کی ایسی نفسیات ان میں ٹھونسنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اب مسلم اقلیت کے نام نہاد قائدین بھی اس گروہ کے دروازہ پر پہنچ کر ’’بات چیت‘ یا’’ڈائیلاگ‘‘کی اپیل کرتے نظر آتے ہیں جس نے خود اس ماحول کو قائم کرنے میں سات سے زیادہ دہائیاں خرچ کی ہیں اور اس کے بعد نفرت کا وہ سامراج قائم کیا ہے جس میں جمہوریت کا صرف خول باقی رہ گیا ہے، البتہ اس کی روح کو پاؤں تلے روند دیا گیا ہے۔ راجستھان سے تعلق رکھنے والے جنید اور ناصر کے قتل سے پہلے بھی حافظ جنید اوراکبر جیسے بے قصور اپنی زندگیاں اسی نفرتی گینگ کے ہاتھوں گنوا چکے ہیں جنہیں پورے طورپر ارباب اقتدار کی حمایت حاصل ہے۔ یہ حمایت اس درجہ تک حاصل ہے کہ ہارورڈ جیسی عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ بی جے پی لیڈر جو وزیر کے عہدہ پر فائز ہوتا ہے وہ بھی ریاست جھارکھنڈ میں مسلمان نوجوانوں کے قتل میں ملوث ملزمین کو ضمانت پر رہا ہونے کے بعد پھول اور مالا سے استقبال کرتا ہے۔ مجرموں، اوباشوں اور ملزموں کو جب کسی معاشرہ میں اتنی عزت ملنے لگ جائے تو وہاں مہذب انسانوں کا جینا کس قدر دشوار ہو جائے گا اس کو سمجھنے کے لئے کسی گہرے فلسفہ کی تہوں کی فہم درکار نہیں ہے بلکہ ادنیٰ سوجھ بوجھ کا انسان بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ملک اور معاشرہ کا مستقبل کیا ہوگا۔ بھیوانی میں بھی جنید اور ناصر کا جو بہیمانہ قتل ہوا اور اس کے بعد انہیں گاڑی میں ڈال کر جلا دیا گیا اس بہیمانہ حرکت کے لئے بھی وہ حمایت اور تحفظ ذمہ دار ہے جو مبینہ ملزمین کو سرکار اور پولیس کے ذریعہ ملتی رہی ہے۔ سہ شنبہ کے روز’’انڈین ایکسپریس‘‘نے اس موضوع پر جو اپنی تحقیقاتی رپورٹ شائع کی ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایف آئی آر میں جن لوگوں کا نام درج کیا گیا ہے ان میں سے تین ایسے افراد ہیں جن کے بارے میں یہ معلومات سامنے آئی ہیں کہ وہ ہریانہ پولیس کے لئے مخبری کا کام انجام دیتے تھے۔ ’’دی انڈین ایکسپریس‘‘ نے گائے اسمگلنگ سے جڑی پانچ ایف آئی آر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ہریانہ پولیس نے ان ایف آئی آر رپورٹوں میں درج کیا ہے کہ یہ تینوں مبینہ ملزمین گائے اسمگلنگ سے متعلق معاملوں کے بارے میں انہیں اطلاع فراہم کرتے تھے۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ وہ گئو رکشا معاملوں میں پولیس کی مخبری کرتے تھے بلکہ مبینہ اسمگلروں کی گرفتاری کے وقت پولیس کے ساتھ جاتے تھے۔ جنید اور ناصر کے بہیمانہ قتل کے بعد ہریانہ پولیس نے خود بھی اعتراف کیا ہے کہ یہ مبینہ ملزمین گائے اسمگلنگ معاملہ میں ان کے لئے مخبری کرتے تھے۔ واضح رہے کہ 2015 میں ہریانہ سرکار نے گئو ونش سنرکشن اور گئو سموردھن قانون نافذ کیا تھا جس کے تحت گائے کی اسمگلنگ کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا تھا اور اس کے بعد سے ہی پولیس اور گئو رکشکوں کے درمیان ایک باضابطہ رشتہ قائم ہوگیا تھا۔ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ پولیس قانون کے نفاذ کے لئے طے شدہ دائروں میں اپنا کام کرے گی اور عدالت ان ملزمین کو سزا دے گی جو قانون کی خلاف ورزی کے لئے ذمہ دار پائے جائیں گے۔ لیکن قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والے ملک میں ایسے مافیائوںکا استعمال کرنا جو ایک خاص قسم کی نفرتی آئیڈیالوجی کو بڑھاوا دینے بلکہ اسے بزور بازو نافذ کرنے میں یقین رکھتے ہوں ان کا تعاون حاصل کرنا کہاں تک جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا دستوری اصولوں پر گامزن رہنے والا کوئی ملک اس قسم کی حرکتوں کو برداشت کر سکتا ہے؟ اور اگر ایسے افراد قتل جیسے بھیانک جرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں تو کیا سرکار اور پولیس انتظامیہ دونوں ہی کٹہرہ میں نہیں کھڑے کئے جانے چاہئیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہریانہ سرکار نے خود گئو رکشکوں کو قبولیت عطا کی ہے جیسا کہ 2021 میں ہریانہ سرکار کے ذریعہ تشکیل شدہ ٹاسک فورس کے سلسلہ میں جاری نوٹیفیکیشن سے ظاہر ہوتا ہے۔
ہریانہ سرکار نے گئو رکشا سے متعلق قانون کو شدت کے ساتھ نافذ کرنے کے لئے پولیس کے علاوہ مقامی گئو رکشا کمیٹیوں کے ممبران کو بھی اس میں شامل کیا تھا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گئو رکشا سے وابستہ مافیائوںکو ایک قسم کا سماجی اور سیاسی مقام و مرتبہ حاصل ہوگیا جس کی وجہ سے وہ بے خوف و خطر تمام تر قانونی بندشوں سے آزاد ہوگئے۔ چونکہ ان میں اپنی آئیڈیالوجی کو نافذ کرنے کا جنون پہلے ہی سے پایا جاتا تھا جس کے لئے وہ مسلم اقلیت کو ذمہ دار مانتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ ہوا کہ انہیں سرکار کی حمایت اور پولیس کا ساتھ مل گیا۔ ایسی حالت میں جب انہیں لگا کہ اب پولیس کو اطلاع دینے کی بھی ضرورت نہیں ہے تو خود ہی مدعی اور منصف بن کر معصوموں کے بہیمانہ قتل کا فیصلہ بھی لے لیا۔ ان مبینہ ملزمین اور گئو رکشکوں کی درندگی کا عالم یہ تھا کہ جنید اور ناصر کو پندرہ گھنٹوں تک شدید زخمی حالت میں رکھ کر انہیں تڑپاتے رہے اور آخرکار انہیں نذر آتش کر دیا۔ ایسا کام کوئی شخص تبھی کر سکتا ہے جب وہ کسی سے بے انتہا نفرت کرتا ہو اور قانون کا بالکل خوف نہ رکھتا ہو۔ یہ جرأت ان مبینہ ملزمین میں اس لئے پیدا ہوپائی کیونکہ ہریانہ سرکار کی حمایت اور نوٹیفیکیشن کی وجہ سے پولیس اور مخبروں کا فرق ختم ہوگیا۔ یہ قانون کے ساتھ کھلا کھلواڑ اور سماج کے اندر موجود حفظ و امان کے نظام کو خطرہ میں ڈالنے کے مترادف امر ہے۔ الگ الگ ریاستوں میں بی جے پی سرکار نے ایسے مافیاؤں کو سماجی مقبولیت فراہم کر دی ہے جو کہیں دو الگ عقیدوں سے تعلق رکھنے والے جوڑوں کو ہراساں کرتے ہیں تو کہیں گائے کی حفاظت کے نام پر قتل کے مرتکب پائے جاتے ہیں۔ یہ صورتحال صرف مسلم اقلیت کے تحفظ کے حوالہ سے ہی فکرمندی کا باعث نہیں ہے بلکہ ملک بھر میں انارکی اور بدنظمی پھیلانے کے لئے راہ ہموار کرنے جیسا معاملہ ہے۔ اس کے لئے سول سوسائٹی کو سامنے آنا ہوگا اور ایسے تمام مافیاؤں کے خلاف مضبوطی سے آواز بلند کرنے کی ضرورت ہوگی۔یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ جس ہریانہ کو اقتصادی ترقی، بچیوں کی تعلیم و ترقی اور اسپورٹس کے میدان میں ماڈل ریاست بنانے کا پروپیگنڈہ دن رات پھیلایا جاتا ہو وہاں مافیاؤں کے ذریعہ اس بے رحمی سے معصوم شہریوں کا قتل کیا جاتا ہو۔ ہریانہ کی یہ دو متضاد تصویریں ہیں جو ماڈرنٹی اور جدیدیت کے اصولوں سے میل نہیں کھاتی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جن مبینہ ملزمین کو اس حد تک سرکار اور پولیس کی حمایت حاصل رہی ہے کیا انہیں کیفر دار تک پہنچانے اور مقتولین کے ورثاء کو انصاف دلانے کے لئے سرکار، پولیس اور عدلیہ اپنی ذمہ داریوں کو سچائی اور ایمانداری کے ساتھ ادا کرنے کا حوصلہ دکھائیں گی؟
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]