ایک صاحب طرز ادیب وصحافی مولانا نور عالم خلیل امینی

0

ڈاکٹر محمد وسیم صدیقی ندوی
کیا عجب لوگ تھے گزر ے ہیں بڑی شان کے ساتھ
راستے چپ ہیں مگر نقش قدم بولتے ہیں
مولانا نور عالم امینی صاحب صرف اچھے استاذ ہی نہیں بلکہ ایک اچھے مربی بھی تھے مجھے انھیں بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا سلیمانیہ ہاسٹل بالائی میں آپ کا قیام تھا اور سلیمانیہ زیریں میں‘میں بھی اپنی ابتدائی تعلیم کے دوران رہتا تھا۔کئی کتابیں پڑھنے کا موقع ملا اور بہت کچھ سیکھنے وسمجھنے کا بلکہ اگر کہا جائے کہ بنیادی نحو وصرف کی تعلیم انھیں کی رہیں منت ہے تو غلط نہ ہوگا جو کچھ عربی کی صلاحیت بنی اس میں آپ کا زبردست دخل ہے ۔مولانا کی شخصیت کے مختلف پہلو ہیں مولانا ہر پہلو سے ایک کامل ومکمل وہر دلعزیز تھے مولانا ہر میدان میں ایک امتیازی شان رکھتے تھے اولاً تو آپ نہایت ہی وجیہ وخوبصورت ،لباس عمدہ اور صاف ستھرا زیب تن فرماتے صرف صاف ستھرا ہی نہیں بلکہ اس کی ایک ایک نوک پلک دیکھتے ،ذرا بھی کمی یا نقص برداشت نہ تھا وضع وقطع بہت ہی مہذب وشائستہ‘ اندازواسلوب نستعلیق ،چال بھی بالکل الگ ونرالی ‘یہاں تک طلبہ نے آپ کی چال کا نام امینیہ رکھ دیا تھا ،کھانے پینے میں بڑی صفائی وشائستگی‘ اس وقت سلیمانیہ میں للّو نامی ایک شخص کھانا تقسیم کرتا تھا مولانا اکثر کہتے وہ دیکھو کیسے رہتا ہے کتنا پسینہ ہے‘ ہاتھ پر روٹیاں رکھ کر بانٹتاہے اس میں پسینہ وغیرہ لگتا رہتا ہے ، ہم لوگ اسی کو کھاتے ہیں وہ صرف ایک بنیا ئن ودھوتی میں کھانا تقسیم کرتا کبھی کبھی صرف دھوتی ہوتی مولانا کے مزاج میں بڑی نزاکت ونفاست تھی ،مولانا کی صلاحیت بہت پختہ تھی مولانا کو اردو عربی دونوں میں یکساں قدرت تھی مولانا اردو عربی کے صرف مایہ ٔ نازادیب وصحافی ہی نہیں بلکہ تحریرمیں بڑی جاذبیت وکشش تھی ، زباں میںشگفتگی وشیرینی‘ اندازبیاں میں برجستگی وبے ساختگی ،ادب کی چاشنی‘ فکر واحساس کی بلندی‘ آپ کی تحریروں کا طرۂ امتیاز تھا ،نحوو صرف کے قواعد زبانی یاد تھے بڑی محنت سے پڑھاتے ،چاھتے تھے کہ طلبہ کو گھول کر پلادیں ایسی عرق ریزی کہ اب وہ دیکھنے میں نہیں آتی ہر چیز کی بہت مشق کراتے کئی کئی کاپیاں بھروادیتے ستّر کی دہائی میں کئی کتابیں پڑھنے کا شرف حاصل ہوا ۔القراء ۃ الراشدۃ ثالث ،کتاب النحو ،انشاء،تاریخ جغرافیہ‘ اعراب پر خاص توجہ دیتے ایک ایک اعراب صاف صاف واضح پڑھواتے اعراب چوری کرنے سے بہت چڑھتے ۔بہت اچھے خطاط وخوشنویس تھے ۔
اردو وعربی دونوں ہی لاجواب لکھتے فن خطاطی کے بے تاج بادشاہ تھے عربی کے سبھی خط میں مہارت تھی خط رقعہ ہو یا خط نسخ ،خط فارسی ہویا خط کوفی‘ یا خط ثلت ،انشاء وتعبیر بہت اچھی پڑھاتے ایک جملہ کی بہت سی تعبیرات بتاتے۔عربی زبان سے بے پناہ محبت اور اس کے حصول کی چاہت اس قدرکہ انھیں اساتذہ ٔکرام سے زیادہ ربط وتعلق رکھتے جن کو عربی زبان پر عبور تھا۔
چنانچہ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم وحضرت مولانا سعید الرحمٰن اعظمی ندوی مدظلہ العالی ومولانا واضح رشید صاحب ؒ، مولانا محمد الحسنیؒ سے ربط وتعلق رکھتے خاص طور سے مولانا محمد الحسنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بہت متاثراوربہت گہرا ربط تھا حضرت مولانا علی میاںرحمۃ اللہ علیہ نے ان کی خوش خط تحریر کی وجہ سے قصص النبیین کی کتابت کروائی تھی ،آپ نے قصص خامس کے مقدمہ میں آپ کا تذکرہ فرمایا ہے ،آپ ہی نے اس کی شرح ووضاحت کی خدمت انجام دی ،درجہ میں طلبہ پر بہت رعب تھا طلبہ ان کی آتے ہی ایک دم مستعد و الرٹ ہوکر بیٹھ جاتے درجہ میں طلبہ کو ان کی کوتاہیوں پر شرمندہ (بور)بھی کرتے ضرورت پڑنے پر پٹائی بھی کرتے بہت سے ان سے پڑھنے اور خوش خطی سیکھنے کمرے بھی جاتے بہت سے چیزیں زبانی یاد کراتے آج تک یاد ہے کہ کتاب النحو کے آخر میں جو سو اشعار ہیں زبانی یاد کرایا اور ہر طالب علم سے فرداً فرداً سنا اور جس نے یاد نہیں کیا یا نہیں کر پایا ،اس کی سخت پٹائی کی اس وقت مارنے کا رواج تھا ،مولانا وحید الزماں صاحب کیرانوی ؒکے ایسے عاشق کہ اکثر درجہ میں بڑے و الہانہ انداز میں انکا تذکرہ فرماتے اور ان کی خوبیاں ‘عربی زبان پر قدرت وصلاحیت کو بیان کرتے چلے جاتے ہم لوگوں کو رشک ہونے لگتا اور دیکھنے کی تمنا ہوتی دارالعلوم دیوبند کا بھی خوب تذکرہ فرماتے اپنی عقیدت ومحبت کا خراج پیش کرتے ہوئے مولانا وحیدالزماں صاحب پر ایک زبردست کتاب لکھی وہ کوہ کن کی بات ۔۔۔جو زبان وبیان کا ایک ادبی شہ پارہ ہی نہیں بلکہ شاہکار ہے مولانا کا تعلق صوبہ بہار کے ضلع مظفر پور سے تھا ۔
2007میںجب میں دارالعلوم دیوبند ملنے گیا تو آپ نے حرف شیریں اور وہ کوہ کن کی بات وغیرہ کتابیں ہدیہ کیں ،اورفرمایا ندوہ میں ان کا تذکرہ کرنا اگر ضرورت پڑے تو مجھے لکھنا میں بھیج دونگا ،مولانا کیرانوی کا جی بھر کر تذکرہ کرتے اپنی محبت وشیفتگی بلکہ والہانہ عشق کی داستانیں اکثر سناتے ،اور فرماتے جو بھی صلاحیت ہے ،وہ انھیں کی وجہ سے ہے‘ ندوی بننے کا بھی بہت شوق تھا چنانچہ اسپیشل امتحان دیکر ندوہ کی ڈگری حاصل کی ،ندوہ سے جانے کے بعد الداعی کی ادارت سنبھالی اور زبردست اداریئے لکھے اور پوری ذمہ داری و کامیابی کے ساتھ تقریباًچالیس سال یہ عظیم خدمت انجام دی‘ دارالعلوم میں اپنی خوش ذوقی وسلیقہ مندی‘ نفاست وحسن طبعی ‘اور علمی شان وشوکت اور ادبی کروّفر کے ساتھ رہے ’’بقول شاعر:
جہاں جاتے ہیں تیرا فسانہ چھیڑ دیتے ہیں
کوئی محفل ہو تیرا رنگِ محفل دیکھ لیتے ہیں
ان کی اپنی منفرد و ممتاز علمی وادبی دنیا تھی ،ان کے اپنے معمولات تھے اور طلبہ ان سے اپنے اپنے شعور‘ ذوق ولگن اور علمی طلب کے بقدر فیض اٹھاتے تھے اور وہ علمی افادہ میں کسی بھی طرح کی تمیز اور امتیاز کے روادار نہ تھے ۔
جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا
کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا
چار دہائی تک مسلسل اپنی علمی وادبی روشنی بکھیرتا ہوا ‘اور اپنی کرنوں سے ایک دنیا کو منور کرتا ہوا یہ آفتاب ۲۰ رمضان المبارک 1443ھ؁مطابق 3مئی 2021ء؁ کوپر دۂ بقا کی اوٹ میں جا چھپا ۔
انا للہ وإناالیہ راجعون
اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS