خواجہ عبدالمنتقم
اگر کسی شخص کو قانون کے مطابق سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا ہوتو اس کے ماضی کے مبینہ قابل اعتراض بیانات کی بنیادپر اس کے مستقبل میں اپنے فرائض منصبی ایمانداری، دیانتداری اور غیر جانبداری سے نہ نبھانے کی بابت شبہات ظاہر کرنا یا ایسا قیاس کر لینا اخلاقی،قانونی اور پیشہ ورانہ نقطۂ نظر سے کسی بھی طرح مناسب و قرین مصلحت نہیں۔ فہم عامہ کی رو سے بھی قبل از وقت بعض واقعاتی امور کی بنیاد پر کوئی قیاس کرلینا نہ صرف نادانی ہوگی بلکہ وہ قیاس قانونی کے زمرے میں بھی نہیں آئے گا۔ یہ مانا کہ ماضی ہمیں مستقبل میں جھانکنے کے لیے ایک کھڑکی کا کام کرتا ہے لیکن ملک کے مفاد ،خاص کر عدلیہ کی ساکھ و عظمت کو برقرار رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ کسی بھی جج کے بارے میںاس کے ماضی کے حوالہ سے تبصرہ نہ کیا جائے۔ اسی بنیاد پر سپریم کورٹ نے محترمہ وکٹوریہ گوری کی سپریم کورٹ کے جج کے حوالہ سے تقرری کو چنوتی دینے سے متعلقہ مفاد عامہ کی عرضی کو خارج کردیا اور رٹ مسل طلبی (certiorari)،جسے اجرائے پروانہ برائے تصحیح حاکمان انتظامی بھی کہا جاتا ہے، جاری کرنے سے انکار کردیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ کالجیم کے فیصلہ پر عدلیاتی نظر ثانی نہیں کی جا سکتی۔ عدالت نے یہ ما نتے ہوئے کہ ہمارا آئین تمام فرقوں و طبقات کا احترام کرتا ہے اور ان کے وقار پر ٹھیس نہ آنے کی ضمانت دیتا ہے پھر بھی ججز کی کارکردگی اور طرز عمل پر وکلا اور موکل دونوں ہی نظر رکھتے ہیں۔
ویسے بھی جب انسان کسی آئینی عہد ے کا حلف اٹھا لیتا ہے تو اس میں ایک نیا انسان جنم لیتا ہے اور اسے اپنے فرائض کی انجام دہی کے معاملہ میں اپنے اس حلف کی پاسداری کرنی پڑتی ہے جو اس نے اپنا عہدہ سنبھالتے وقت لیا ہو۔سپریم کورٹ کے جج کو بھی ان الفاظ پر مشتمل حلف اٹھانا پڑتا ہے:
’میں الف ب۔۔۔ جس کا سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی حیثیت سے تقرر کیا گیا ہے، خدا کے نا م سے حلف اٹھاتا ہوں/اقرار صالح کرتا ہوں کہ میں بھارت کے آئین پر جو قانون کے بموجب طے پایا ہے، اعتقاد رکھوں گا اور اس کا وفادار رہوں گا، میں بھارت کے اقتدار اعلیٰ اور سا لمیت کو برقرار رکھوں گا، میں باضابطہ اور وفاداری کے ساتھ اپنی پوری قابلیت،علم اور قوت فیصلہ سے بلاخوف و رغبت، شفقت یا عناد اپنے عہدے کے فرائض انجام دوں گا اور میں آئین اور قوانین کو برقرار ررکھوں گا‘۔
کیا کوئی ایسا شخص جس کی عدا لت عظمیٰ میں جج کے طور پر تقرری ہوئی ہو، اس کی سپریم کورٹ کی اس سابقہ نظیر ’والسمّا پال بنام کوچین یونیورسٹی (1996(3)، جی ایل آر92ایس سی)‘ پر نظر نہ پڑی ہو، جس میں یہ فیصلہ دیا گیا تھا کہ ’ جج ایک ایسا قانون داں ہونا چاہیے، جو ایک لیجسلیٹری کی طرح دانشمند ہو، ایک تاریخ داں کی طرح سچائی کا متلاشی ہو، بصارت پیغمبری(Prophet’s Vision)کا حامل ہو اور اس میں حال و مستقبل کے تقاضوں کو پورا کرنے کی بھرپور صلاحیت ہو، تاکہ وہ کسی اثر و رسوخ کے بغیر میلان طبع یا جانبدارانہ فکر و عمل سے پہلو تہی کرتے ہوئے ایک معروضی اور غیر جانبدانہ فیصلہ کرسکے‘۔
صرف یہی نہیں بلکہ وہ عدلیہ کی فعالیت کے بارے میں گجرات ہائی کورٹ کی ان نظائر سے واقف نہ ہو:
بپن چندرا جے دیوان بنام ریاست گجرات والے معاملے(گجرات لا رپورٹر349) 2001(2))میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ سماجی انصا ف کا صحیح مفہوم یہی ہے کہ کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی انسان سمجھا جائے اور اسی حیثیت سے ان کی ضروریات کا اندازہ لگایا جائے۔ ریاست گجرات بنام پٹیل کرسن بھائی بدھا بھائی (1997(2) گجرات لا رپورٹر1224 والے معاملے میں بھی اس نے یہ کہا تھا کہ عدالتی فعالیت سے محروم جج کو ایک ایسا پھول کہا جاسکتا ہے جس میں نہ خوشبو ہو نہ مہک یا اسے ایک ایسی گاڑی سے تشبیہ دی جاسکتی ہے جس میں نہ ایندھن ہو نہ پہیہ۔
علاوہ ازیں وقت کے ساتھ ساتھ انسان کے خیالات اور سوچ میں بھی فرق آتا ہے۔سفر حیات میں انسان کی زندگی میں اور اس کے روبرو نئے نئے تجربات ہوتے ہیں۔ اس کی آنکھوں کے سامنے جب سماجی، سیاسی، معاشی ،ثقافتی و فکری منظر نامہ بدلتا ہے تو اس کی سوچ میں تھوڑی بہت تبدیلی آنا لازمی ہے لیکن انسان اپنی اس سوچ میں تبدیلی آنے کے باوجود ایک مہذب شہری ہونے کے ناطے آئینی حدود سے تجاوز نہیں کرسکتا۔
آئین کا بنیادی مقصد معاشرے کوامن وامان اور سکون کی دولت عطا کرنا اور ملک کے شہریوں اور دیگر لوگوں کو جن پر اس کا اطلاق ہوتا ہے، جائزحدود میں رکھنا ہے۔ آئین کسی کو بھی بشمول جج صاحبان اس سے انحراف اور تجاوز کی اجازت نہیں دیتا۔ کچھ عرصہ قبل ہمارے ملک کے چیف جسٹس این وی رمن نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا کہ کہ عدلیہ، آئین اور صرف آئین کے سامنے جوابدہ ہے اور وہ کسی کے دباؤ میں آنے والی نہیں۔ وہ صرف اور صرف اپنی آئینی ذمہ داریوں کو نبھاتی ہے نہ وہ حکمراںجماعت کی ہر پالیسی کی حمایت کرتی ہے اورنہ وہ حزب اختلاف کی کسی خواہش دلخواہ کو پورا کرنے کے لیے ہے۔ چیف جسٹس کا یہ قول آئینی کسوٹی پر کھرا اترتا ہے۔ ویسے بھی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ کہ ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ کسی بھی ملک کا آئین حکومتی اور معاشرتی نظام کا مستند منشور ہوتا ہے اور وہ بالترتیب ارباب حکومت اور عدلیہ کے لیے طریقۂ حکومت اور عدلیہ کے لیے طریقۂ انصاف رسانی کی سند کا جواز رکھتا ہے۔ یہ آئین ہی ہے جو ملک کے شہریوں کے بنیادی حقوق اور فرائض طے کرتا ہے اور ان کی پابندی سب کے لیے لازم قرار دیتا ہے۔انہوں نے یہ بات بھی کہی تھی کہ ہمیں آئین کے دیے گئے چیک اینڈ بیلنس کو نافذ کرنے کے لیے ہندوستان میں آئینی ثقافت کو فروغ دینا ہوگا اور شمولیت (inclusiveness) کے تصور کا احترام کرنا ہوگا۔ انہوں نے یہ کہہ کر ارباب حکومت بلکہ ہم سب کو نہ صرف باور کرایا بلکہ خبردار بھی کیا کہ غیر شمولیتی نقطۂ نظر(یعنی سب کو ساتھ نہ لے کر چلنا )تباہی کے لیے ایک دعوت نامہ ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]