ڈاکٹر خان مبشرہ فردوس
بڑے انہماک سے فاطمہ پژل جمارہی تھی،تب ہی زید نے آکر پورا بگاڑ دیا۔ فاطمہ نے اسے طمانچہ رسید کیا۔ زید چھوٹا ہے، زور زور سے رونے لگا۔ امی نے آکر فاطمہ کو ڈانٹا بھی ،اور پیٹھ پر ایک ہاتھ بھی رسید کردیا۔ یک نہ شد ،دوشد دونوں بچے رونے لگے ۔اسی طرح حامد اور شاکر نے اپنی لڑائی میں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ گھر کی درگت بنادی اور مقدمہ کھانا بناتی امی کے حضور پیش ہوا۔امی دہاڑیں: ’ ہر وقت کی لڑائیوں سے تنگ آچکی ہوں ۔‘
یہ گھر گھر کی کہانی ہے، بہن بھائیوں کی آپس کی لڑائی سے ہر ایک پریشان ہے، اسے سبلنگ رائیولری کہا جاتا ہے۔ آپس میں بچوں کو دوست کیسے بنائیں ؟لڑائی اور چھیڑ چھاڑ سے بچوں کو کیسے باز رکھیں ؟یہ تنازعات کس وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ؟بچوں کے درمیان دوستی کیسے پیدا کی جاتی ہے؟والدین سے بچوں کے معاملے میں کہاں چوک ہوتی ہے ؟بچوں کے جھگڑے کو سلجھانے کے لیے کون سی حکمت عملی والدین کو اختیار کرنی چاہیے ؟ ماہرین کی بہن بھائی کی چشمک سے متعلق کیا رائے ہے ؟
ابتداء کس نے کی؟ اس بات سے پرے والدین طاقتور بچے کو مار کر معاملہ درست کرنا چاہتے ہیں۔ والدین کی دانست میں فلاں ہی زیادتی پر ہے۔مائنڈ سیٹ ہوتا ہے کہ فلاں بچے نے زیادتی کی ہوگی ۔والدین کے نزدیک یہ بات اپنی حد تک درست ہوسکتی ہے، لیکن اصل وجہ زیادتی کا شکار ہونے والے بچے کی یادداشت میں محفوظ ہوتی ہے ۔ وہ اسے والدین کی جانب سے ہونے والی ناانصافی کے طور پر ذہن میں محفوظ کرلیتا ہے ۔بچپن کی چشمک کبھی کبھی زندگی کی دشمنیاں بھی بن سکتی ہیں۔ آئیے! جانتے ہیں۔والدین کی جانب سے ہونے والی توجہ کی کمی یا نظر انداز ہونا، یا بچوں کی صلاحیت سے متعلق والدین اور دیگر افراد کا نظریہ عام طور پر بہن بھائیوں کے درمیان دشمنی کا احساس پیدا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر بہن بھائیوں کی دشمنی کا سب سے عام واقعہ اس وقت ہوتا ہے، جب خاندان میں ایک نیا بچہ پیدا ہوتا ہے۔ پہلا بچہ والدین کی عدم توجہی کا شکار بنتا ہے۔ یہ مرحلہ اس وقت دشوار گزار ہے، جب پہلا بچہ صرف دوتین سال کا ہو، اور دوسرے مہمان کی آمد کا انتظار ہو ۔عموماً گھر کے بڑے یہ سمجھتے ہیں کہ دوسال کا بچہ فطری طور پر ایک قسم کی رقابت کی وجہ سے جھنجھلاہٹ کا شکار ہے ،یا ماں سے ضد زیادہ کرنے لگا ہے ۔ دراصل ماں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا بچہ جوں جوں ماں کی عدم توجہی کو محسوس کرنے لگتا ہے، جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتا ہے۔ ماں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ضد کرتا ہے ۔
اس مسئلے کو بہت آسانی سے توجہ دےکر اورزیادہ پیار کا احساس دلاکر حل کیا جاسکتا ہے۔ساتھ ہی بہت حکمت کے ساتھ بچے کو دوسرے ہم جولی فراہم کرنے کی کوشش بھی کارگر ثابت ہوتی ہے۔ جیسے ہم سایوں کے بچے یا رشتہ داروں کے بچے یا بچے کے دیگر کزنس سے بچے کو مانوس کرنا، ہم جولیوں کے ساتھ کھیلنے کے مواقع فراہم کرنا بہترین حل ہوسکتا ہے ۔
اس طرح نئے مہمان کے آنے سے پہلے ہی بچہ اپنے ساتھی کے ساتھ چیزوں کو بانٹنا، اپنی باری کا انتظار کرنااور ایک دوسرے کی مدد کرنا سیکھ لیتا ہے ۔نئے بچے کی آمد کے بعد اگر بچہ دویا تین سال کا ہوتو لازم ہے کہ چھوٹے بچے کی ضروریات سے فراغت کے بعد ماں اسے سلاکر دور کرے، اور پہلے بچے کو زیادہ توجہ کا احساس دلائے۔یہیں والدین سے چوک ہوجاتی ہے کہ وہ بڑے بچے کو دور کردیتے ہیں۔ ان کی دانست میں بڑے بچے سے زیادہ چھوٹے بچے کو ماں کی ضرورت ہے،جبکہ چھوٹے بچے سے زیادہ بڑے بچے کی جذباتی ذہانت نسبتاً تیز ہوتی ہے، اور وہ حساّس بھی نسبتاً زیادہ ہوتا ہے۔ چھوٹے کو صرف ضروریات کی حد تک آپ کی ضرورت ہے، لیکن آپ کی توجہ کا زیادہ مستحق بڑا بچہ ہے ۔ بڑے بچے کو دلار کرتے ہوئے اپنے چھوٹے بھائی بہن سے محبت کرنا سکھائیں، بہت زیادہ محبت اور دلار کے درمیان چھوٹے بچے کو پیار کرنا، چھونا، اسے سکھانے کی کوشش کریں ،لیکن توجہ مکمل بڑے ہی کو دیں ۔
ایک اہم بات کی وضاحت ضروری ہے جب بھی گھر میں کوئی ایسی حالت میں ہوکہ بچہ چھوٹا ہو اور نئے مہمان کی آمد بھی قریب ہوتو گھر کے دیگر ممبران کی بڑی ذمہ داری ہے کہ اس ماں سے کام کا بوجھ قدرے کم کردیں ۔شوہر کو بھی اپنی بیوی کی مدد کرنی چاہیے کہ گھر کے دیگر کاموں میں ہاتھ بٹائیں ،تاکہ ماں اپنے موجود بڑے بچے کو زیادہ توجہ دے سکے،کیونکہ چھوٹے بچے کی پیدائش سے پہلے ہی بڑے کی ذہن سازی کی جاسکتی ہے ،اور وہ ماں کی توجہ ہی سے ممکن ہے ۔اکثر گھر کے دیگر افراد بچے کو سنبھالنے کے لیے مدد کی پیشکش کرتے ہیں ، اور ماں کو دیگر کاموں سے رخصت نہیں دیتے ،یہ رویہ غیر فطری رویہ ہے ۔بچے کو ماں کی توجہ ہی مطمئن کرسکتی ہے ۔
نئے مہمان کے لیے بچے کی ذہن سازی کریں!: جب بچے چھوٹے ہوں، چھوٹےبہن بھائی کے دنیا میں آنے سے پہلے بچے کو رفتہ رفتہ بتاتے جائیں کہ ہاتھ اللہ نے اپنے کام کرنے کے لیے دیے ہیں اور دوسروں کی مدد کرنے کے لیے۔ اسے احساس دلائیے کہ چیزیں پھینکنا یا پٹکنا بری بات ہے ۔سافٹ ٹوائز کے ساتھ نرم برتاؤ کا عادی بنالیجیے ۔ جب وہ نئے بے بی کو سختی سے ہاتھ لگائے، اس کو یاد دہانی کروائی جائے کہ ہاتھ کس لیےہوتے ہیں ۔ دوسری چیز یہ کہ ممکن ہو تو کوئی چوزہ، بلی کا بچہ، کوئی پالتو جانور ہو، تا کہ بچہ نرمی سے پیار کرنے کا طریقہ سیکھ سکے۔ کتابیں اور کہانیوں کی مدد سے بڑے بھائی کا کردار سمجھائیں۔چھوٹے چھوٹے کاموں میں اسے شامل رکھیں۔بے بی آنے کے بعد بے بی کے چھوٹے چھوٹے کام کہ ڈائپرلا دیں، کمر تھپتھپانے میں مدد کریں، مالش میں نرمی سے ہاتھ لگا کر مدد کریں، نہلانے میں اس کےپاؤں، اس کا پیٹ آپ نرمی سے ملیں۔ یوں بچے کو یہ لگے گا کہ وہ بڑا اور سیانا ہے، اور الگ ہو کرنہیں رہ گیاہے۔ بچے کو بڑا ایکٹ ضرور کرنے دیں، لیکن خود کو یاد کرواتے رہیں کہ پانچ چھ سال تک بھی وہ بچہ چھوٹا ہی ہوتا ہے، اس کی حق تلفی نہ ہو، اور لمحہ لمحہ اسے یاد نہ کروایا جائے کہ ’’آپ تو بڑے ہیں۔‘‘ اس بات کو اس کے لیے طعنہ نہ بنائیے۔ دودھ پلاتے وقت بچے کو کہانیاں بھی سنائی جا سکتی ہیں۔
بچے کو Empath سکھائیں!:اس کا سب سے پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ آپ رول ماڈل بنیں۔ بچہ گر جائے تو اس کا احساس کریں ،آپ کے چہرے پر احساس کا واضح تاثر ہونا چاہیے۔’’کوئی بات نہیں، گرتے رہتے ہیں‘‘ کہنا درست رویہ نہیں ہے۔اسے کہاں چوٹ لگی ہے ، دیکھیے! اس کے زخم پر مرہم لگائیے، اس کی تکلیف دیکھتے رہیے ۔ اس سے کہیے ’’ آپ کو درد ہے، اس لیے آپ رورہے ہیں ۔‘‘ اس طرح آپ اسے رحم دلی سکھارہے ہیں ،دوسرے کا درد محسوس کرنے کی تہذیب سکھارہے ہیں ۔ اس کی تکلیف کی جگہ دعا پڑھ کر پھونکیے، وہ سیکھے گا کہ تکلیف میں اللہ سے دعا کی جاتی ہے ۔ یوں بچہ سیکھتا ہے کہ دوسرا بچہ بھی جب روئے تو وہ تکلیف میں ہے ۔ پیار کرنے سے اور دعا کرنے سے ٹھیک ہوجائے گا ۔
چھوٹے بچوں کو چار ایموشنز سکھائیں!:خوشی، اداسی، غصہ اور ڈر۔چہرے کے ایکسپریشنز کے ساتھ بچے کو یہ فیلنگز سکھائیں۔ بچہ اداس ہو تو پوچھیے کہ آپ اداس ہیں کہ بابا آپ کو ساتھ لےکر نہیں گئے؟ آپ خوش ہیں کہ نانا آپ کے لیے کھلونا لائے ہیں؟ مکسر کی آواز سےآپ ڈر گئے تھے ؟ آپ کے دوست نے کھلونا چھین لیا، آپکو غصہ آ رہا تھا؟ بچے کے جذبات کو الفاظ دیجیے تا کہ وہ جان سکے کہ جو وہ محسوس کرتا ہے اس کوکیا کہتے ہیں۔ کارٹون دیکھتے، کتاب پڑھتے ہوئے بھی بات کیجیے کہ وہ کیریکٹر اداس ہے۔ اب جب بچہ چھوٹے بہن بھائی کو مارے تو آپ اداس چہرہ بنا کر اسے بتائیے کہ بے بی اس طرح اداس ہو جاتا ہے۔ جب بھی منع کریں تو وجہ بتائیں اور متبادل دیں۔ آپ اسے سکھائیں کہ نرمی سے ہاتھ لگائیے، دیکھیے ایسے۔ بجائے اس کےکہ چھوٹے بچے کو بچا بچا کر رکھیں، بڑے کو بتائیں کہ نرم ہاتھ لگانے کا طریقہ کیا ہے۔کانچ کا گلاس بچے سے ٹوٹ جائے تو اس سے یہ کہیں کہ آپ کے پیر میں چبھ نہ جائے تاکہ اسے احساس ہو کہ گلاس سے قیمتی اس کی ذات ہے ۔
بچپن کے جھگڑے میں صلاح کرنا سکھائیے !:اس کو یہ احساس دلایا جائے کہ جب آپ چھوٹے بہن بھائی کو مارتے ہیں، یا سختی سے ہاتھ لگاتے ہیں توانہیں تکلیف ہوتی ہے ۔ اس سے کہیں کہ چھوٹو کو بہت برا لگتا ہے ،یوں سیڈ فیس بنائیں۔جب کبھی اچھے بڑے بھائی کا رول ادا کرے تب اس کے عمل کی تعریف کریں۔ یاد رہے! تعریف ’عمل‘ کی کریں اور یوں نہ کہیں کہ آپ تو دنیا کے سب سے اچھے بڑے بھائی ہیں۔ کبھی بھی ذات پر بات نہ کی جائے، ہمیشہ بچے کے عمل پر فوکس کریں۔ جیسے یہ چنچل ہے یا ذمہ دار ہے یا ذہین ہے؛ یہ نہ کہیں ۔ کہیے کہ یہ عمل آپ کی ذہانت کا پتہ دیتا ہے ۔ یوں اسے احساسِ کبر نہیں ہوگا، مستقل وہ عمل پر فوکس کرے گا ۔بچے کو غلطی کا احساس کرنا سکھائیے کہ جب کوئی غلط کام ہوجائے تو فورا ًمعافی طلب کرنے میں قباحت نہیں ۔سوری کہنے پر مجبور بالکل نہیں کرنا چاہیے۔ فی الحال دل میں سوری محسوس کرنا ضروری ہے۔ ڈر کے مارے زبان سے بولے ،لیکن دل میں شرمندہ نہ ہو، بالکل بے فائدہ ہے۔ بچہ گِلٹ محسوس کرے، نظریں چرائے تو فورا یہ گِلٹ فیلنگ ختم نہ کریں کہ اچھا چلو، کوئی بات نہیں، آئندہ خیال رکھنا۔ کچھ دیر اسے شرمندہ رہنے دیں۔ گِلٹ اتنا زیادہ بھی نہ دیں کہ دو گھنٹے بعد بھی اس بات کا حوالہ دیا جا رہا ہو۔ نہ ہر آئے گئے کے سامنے بچے کو شرمندہ کریں۔
بچپن میںجب بہن بھائی لڑیں تو بہت جلدی درمیان میں جانے بجائے کہیے کہ آپ روتے ہوئے بھائی کو مناکر خاموش کرکے دکھائیے۔ اس طرح آپ بچپن سے صلاح جوئی کی ترغیب دیں گے ۔جب منانے کا مرحلہ ختم ہوتو کہیے کہ اب دوستی کرلیجیے ۔وہ آپس میں روٹھیں، لڑیں، منائیں، یہ مناسب ہے، تاہم آپ درمیان میں جاکر ان کے مینجمنٹ کو ڈسٹرب نہ کریں۔
چیزیںشیئر کرنا سکھائیے!:کھلونے چھیننے کے بجائے آپس میں شئیر کرکے کھیلنے کی عادت ڈالیں۔ اصول بنالیں کسی کے ہاتھ میں کوئی کھلونا ہوتو دوسرا نہ چھینے ۔اصول بنانے سے بچپن سے بچے اسے تسلیم کرنے کے عادی ہوتے ہیں ۔ماہرین کے مطابق:’’ابتدائی دور میں دونوں کی ضرورت اور ذہنی سطح کے مطابق والدین اپنے رویے پر توجہ نہ دیں، تو وقت کے ساتھ بڑے ہوتے بہن بھائی اپنی عمر کے ساتھ دشمنی میں بھی اضافہ کرلیتے ہیں۔ نتیجۃً اپنے بہن بھائی کو ناپسند کرنا، تکلیف پہنچانا اورایک دوسرے کو تکلیف پہنچانا شروع کرتے ہیں۔اس چپقلش سے بہن بھائی کے رشتے کوطویل مدتی نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔‘‘
بہن بھائی کےدرمیان میں تنازعے پر تفصیل سے کام کرنے والی سوسن ایک ترقیاتی ماہر نفسیات اور صحافی ہیں، جن کی کتابThe Sexual Paradox: Men, Women, and the Real Gender Gapکو 2009 ءمیںامریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن کی طرف سے ’’ولیم جیمز بک ایوارڈ‘‘ ملا۔ اسٹیون، جو ہارورڈ کے شعبۂ نفسیات میں ایک اعزازی عہدے پر فائز ہیں۔ زبان اور ادراک کے میدان میں ان کے اثر و رسوخ کی وجہ سے انہیں ٹائم 100 کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے ۔ دنیا کے معروف سائنس دانوں میں سے ایک کے طور پر جانےجاتےہیں، ان کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں The Language Instinct اور The Stuff of Thought شامل ہیں ۔اپنی کتاب میںبہن بھائیوں کی دشمنی کی نوعیت پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتی ہیں :’ کیا آپ جانتے ہیں کہ کے گھر میں بہن بھائی کے جھگڑے کی نوعیت کیا ہوسکتی ہے ؟ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ بہن بھائی کی بچپن کی آپسی چپقلش عمر کے ساتھ دشمنی کا سبب بنتی ہے۔بچپن میں شیرخواری کے زمانے میں ایک دوسرے سے چیزیں چھیننے ،بال نوچنے یا ڈرانے سے جھگڑےشروع ہوتے ہوئےیہ دشمنی میں تبدیل ہوتے ہیں،والدین کی مداخلت اور سرزنش اس دشمنی کو مزید پختہ بنادیتی ہے ۔ ٹین ایج میں یہ شکل بدل کر تکلیف پہنچانے،جان بوجھ کر نیچا دکھانے، اپنی بڑائی ثابت کرنے، نام بگاڑ کر پکارنے، منفی فقرے کسنے اور دوسرے بہن بھائی کو احساس کم تری کا شکار بنانے کی تکنیک ہو سکتی ہے۔ منفی ریمارکس کی تکرار نفسیاتی طور پر نقصان دہ ہو سکتی ہے اور اس کے اثرات جوانی تک طویل ہو سکتے ہیں۔ توہین کے علاوہ بہن بھائیوں کی یہ چپقلش وقت کے ساتھ ساتھ وحشیانہ جسمانی نوعیت کی بھی ہو سکتی ہے۔ جیسے تھپڑ مارنا، چٹکی لگانا، دھکیلنا، مارنا، بال کھینچنا، کھرچنا اور لات مارنا ، رفتہ رفتہ اپنی کامیابی کو دوسرے کی ہتک بناکر پیش کرنا، حسدمیں دوسروں کی چیزوں کوچھپانا۔‘‘
بدقسمتی سے بہن بھائیوں کی چپقلش کو اکثر بچپن کا پارٹ یا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا، اب تک اس پر بہت کم تحقیق ہوئی ہے۔ تاہم تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ اسے نظر انداز کیا جانے والا ایک عام واقعہ سمجھا جاتا ہے، لیکن بڑھتی عمر کے ساتھ ختم ہونے والی چپقلش بظاہر ختم تو ہوجاتی ہے ،لیکن ایک کسک اور حسد کی صورت باقی رہتی ہے۔ اس کے اثرات بہن بھائی کے فیملی ممبرز میں واضح نظر آتے ہیں ۔