فلسطینیوں کے خلاف حالیہ اسرائیلی تشدد کے اسباب و نتائج

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللہ

ارض فلسطین میں بحرانوں کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا ہے۔ ایک بحران ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا شروع ہو جاتا ہے۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے بطور خاص وہاں کے مسائل کی سنگینی میں اضافہ ہوا ہے۔ خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شہر مقدس میں تشدد کے مزید واقعات مستقبل قریب میں دیکھنے کو ملیں گے اور فلسطینیوں کے انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ بند ہونے کے بجائے اس میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔ صورتحال کی پیچیدگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ماہرین یہ قیاس آرائی بھی کر رہے ہیں کہ شاید اسرائیلی جبر و تشدد کے خلاف فلسطینیوں کا تیسرا انتفاضہ بھی شروع ہو سکتا ہے۔ اس سے قبل جو دو انتفاضے فلسطینیوں نے کیے تھے ان کو بڑی سختی اور قوت کے زور پر اسرائیل نے ختم کر دیا تھا اور فلسطینیوں کو بہت ساری جانی اور مالی قربانیاں پیش کرنی پڑی تھیں، البتہ ارض فلسطین پر ناجائز اسرائیل قبضے کو ختم کرنے میں انہیں کامیابی نہیں ملی تھی۔ انتفاضہ دراصل فلسطینیوں کی جانب سے صہیونی اسرائیل کو یہ پیغام ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام تر جنگی و سائل کی برتری اور شب و روز فلسطینیوں کے قتل و خون اور انہیں ان کے گھروں اور زمینوں سے مجرمانہ بے دخلی کے باوجود ان میں موجود جذبۂ آزادی کو ختم نہیں کر سکتے اور اسی کا اظہار کرنے کے لیے غیور و پرجوش فلسطینی ایک ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اسرائیل کے ناجائز قبضے کا مقابلہ اپنی پوری صلاحیت و ہمت کے ساتھ کرتے ہیں۔ بعض ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ تیسرا انتفاضہ شروع ہو چکا ہے اور فلسطینی اپنی زمین، مقامات مقدسہ اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے پورے طور پر کمر بستہ ہو چکے ہیں اور اسی لیے اسرائیلی خیمے میں سخت بوکھلاہٹ ہے اور ہر قیمت پر فلسطینیوں کو کمزور کرنے اور انہیں نفسیاتی طور پر توڑنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ ویسٹ بینک میں اسرائیل نے 26 جنوری، 2023 کو کئی برسوں میں پہلی بار اس قدر سنگین ملٹری آپریشن کا آغاز کیا جس کی رپورٹیں دنیا بھر کے میڈیا میں پھیلی نظر آئیں۔ یہ جنین کیمپ میں کیا گیا تھا جس میں بشمول ایک معمر خاتون 10 فلسطینیوں کو اسرائیل فورسز نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اسرائیل کے ان مظالم کی وجہ سے تشدد کا ایک سلسلہ چل پڑا جس میں فلسطینیوں کو بھی اسرائیلی مظالم کے مقابلے کے لیے کھڑا ہونا پڑا۔ حماس نے غزہ سے راکیٹ مارا اور پھر اس کے بعد اسرائیل نے اپنے مہلک ہتھیاروں سے ان پر حملہ کیا۔ جنین حملے میں شہید ہوئے فلسطینیوں کے اہل خانہ کا درد دیکھ کر ایک فلسطینی نوجوان علقم نے دوسرے ہی دن 27جنوری، 2023 کو مشرقی یروشلم کے اندر یہودی عبادت خانے کے باہر 7 یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ فلسطینیوں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا۔ اسرائیل کی پالیسیوں نے صورتحال ایسی پیدا کر دی ہے کہ عام فلسطینی بھی خود کو اس درد کا حصہ محسوس کرتا ہے جس میں سارے فلسطینی جوڑ دیے گئے۔ اب کوئی فلسطینی شخص اپنی ذاتی حیثیت میں کچھ بھی نہیں ہے، کیونکہ ہر فلسطینی کا مقدر ایک دوسرے سے مربوط ہے اور اس کا حل تبھی نکل سکتا ہے جب اسرائیل کا ناجائز قبضہ فلسطین کی سر زمین سے ختم ہو اور انہیں ایک آزاد اور باوقار قوم کی طرح زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے۔ دقت یہ ہے کہ اسرائیل اس کے لیے تیار نہیں ہے اور اس کے مغربی دوست ممالک بھی اس سلسلے میں اسرائیل کے موقف کی ہی حمایت کرتے ہیں۔ صرف زبانی جمع خرچ کے طور پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی باتیں کبھی کبھار کر لیتے ہیں۔
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری بحرانوں کی تاریخ کو ایک مختصر مضمون میں سمیٹنا تو ایک مشکل کام ہے، کیونکہ اس مسئلے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے وہاں کی کئی نسلیں گزر چکی ہیں، البتہ حالیہ دنوں میں جو انتشار و بے چینی اور بدامنی کا ماحول ہے اس کا نقطۂ آغاز اسرائیل کے اس ملٹری آپریشن کو قرار دیا جا سکتا ہے جو اس نے گزشتہ برس فلسطینیوں کے خلاف ’آپریشن بیک واٹر‘نام سے شروع کیا تھا۔ یہ ملٹری آپریشن اس اعتبار سے الگ نوعیت کا تھا کہ اس کو اس ڈھنگ سے ڈیزائن کیا گیاتھا کہ چھہ مہینے کی مدت تک جاری رہے اور شب خوں کا طریقہ اسرائیلی فوج اختیار کرتی تھی یعنی رات کے اندھیرے میں فلسطینی مزاحمت کاروں کو اپنا نشانہ بناتی تھی۔ اسرائیل کو اس کی ضرورت اس لیے پڑی، کیونکہ چند فلسطینی نوجوانوں نے اسرائیل کے پورے سیکورٹی نظام کا مذاق بناکر رکھ دیا تھا۔ ان نوجوانوں میں 18 سالہ ابراہیم نابلسی بطور خاص معروف تھے اور شہداء مسجد اقصیٰ بریگیڈ کا حصہ تھے۔ نابلس شہر میں اس نوجوان نے اکیلے ہی گھنٹوں تک اسرائیلی فوج کا مقابلہ کیا اور آخر کار اسرائیل کی دفاعی فوج کو کاندھوں پر رکھ لانچ کرنے والی راکٹ کا سہارا لینا پڑا تاکہ اس آہنی دیوار کو توڑا جائے جس کے پیچھے نابلسی چھپے تھے۔ راکٹ کے حملے سے پتھر کی پوری عمارت ہی ڈھہ کر گر گئی تھی اور ابراہیم نابلسی جنہیں فلسطینی ’شیر نابلس‘ نام سے جانتے تھے، اس میں دب کر شہید ہوگئے تھے۔ اسرائیل کی طرف سے نابلسی پر الزام تھا کہ وہ اسرائیلی شہریوں اور سپاہیوں پر ہوئے کئی حملوں میں ملوث تھے۔ نابلسی کے خلاف9 اگست،2022 کے اس حملے میں دو الگ فلسطینی نوجوان بھی شہید ہوئے تھے اور تقریباً 40 فلسطینیوں کے زخمی ہونے کی خبر موصول ہوئی تھی۔ اسرائیل نے اپنے اس حملے کے مقاصد کا دائرہ بہت وسیع رکھا تھا جن میں رات کے وقت اسرائیلی فورسز کی فلسطینی علاقوں میں ہتھیار بند گشت، مشتبہ افراد کی گرفتاری، فلسطینی گھروں کی مسماری اور نشانہ لگاکر مار ڈالنا جیسی چیزیں شامل تھیں۔ یہ سلسلہ پورے ویسٹ بینک میں جاری تھا۔ اس کا ڈیزائن یہ تھا کہ حماس، جہاد اسلامی اور الاقصیٰ بریگیڈ کے مزاحمت کاروں کو باہر نکلنے پر مجبور کیا جائے اور پھر انہیں ختم کر دیا جائے۔ معروف برطانوی اخبار ’ دی گارڈین‘ کے مطابق کئی دہائیوں بعد پہلی بار اسرائیل نے جنگ کے اوقات کے باہر اس قسم کا آپریشن اور اتنی مدت تک کے لیے ڈیزائن کیا تھا۔ لیکن اس کو اسرائیل کی شدید ناکامی ہی سے تعبیر کیا جائے گا کہ ’آپریشن بیک واٹر‘ کا بالکل اُلٹا نتیجہ سامنے آیا۔ جہاں ایک طرف ویسٹ بینک میں تشدد بڑھتا ہی گیا وہیں دوسری طرف فلسطینی مزاحمت کاروں کی ایک نئی کھیپ زیادہ قوت کے ساتھ ابھر آئی اور محض چند مہینوں کے اندر’نابلس بریگیڈ‘ اور’توباس بریگیڈ‘ جیسی کئی مزاحمتی تنظیمیں اٹھ کھڑی ہوئیں اور یروشلم میں اسرائیلی فوج کے خلاف مقابلے کے لیے صف آرا ہوگئیں۔ اسرائیلی صہیونیوں اور پولیس کو جگہ بہ جگہ چاقو اور دیگر ہتھیاروں سے حملے ہونے لگے۔ فلسطینی نوجوان مزاحمت کی نئی زبان بولنے لگے اور نہایت کم عمر اور نوخیز نوجوانوں میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کا جذبہ بڑھنے لگا۔ ایک یوتھ سنٹر سے وابستہ 17 سالہ فلسطینی نوجوان مصطفی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ اسرائیل ہمیں دہشت گرد کہتا ہے لیکن بندوق کا مقابلہ پتھر سے کرنے والا دہشت گرد کیسے ہو سکتا ہے؟ اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں بھی بندوق کی ضرورت ہے۔‘ اسی طرح اس کا 21 سالہ دوست محمد کہتا ہے کہ’ ہماری نسل ہمارے ماں باپ والی نسل سے بالکل مختلف ہے۔ انہیں اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا تھا، اس لیے ان میں خوف کی نفسیات پائی جاتی تھی۔ انہوں نے90 کی دہائی میں امن کی کوششوں کو دیکھا تھا، اس لیے ممکن ہے کہ انہیں لگتا ہو کہ امن و امان کا امکان اب بھی باقی ہے۔ لیکن ہمارے دور کی نسل کو یہ بالکل نہیں لگتا کہ امن ممکن ہے۔ ہمارے سامنے بس ایک ہی آپشن ہے کہ ہم اسرائیل کا مقابلہ کریں ۔‘ یہ بدترین صورتحال کہی جا سکتی ہے، کیونکہ نئی نسل اپنے لیے کوئی مستقبل نہیں دیکھتی اور ایک طاقتور دشمن سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنی زمین کی آزادی کا خواب لیے شہید ہوجانا چاہتی ہے۔ کوئی دوسرا آپشن ان کے لیے باقی نہیں چھوڑا گیا ہے۔ گرچہ اسرائیلی فوج اور پولیس یہ دعوی کرتی ہے کہ گولیوں کا استعمال اسی وقت کیا جاتا ہے جب سارے آپشنز ختم ہو جاتے ہیں لیکن اس سچائی سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے، فلسطینی نوجوانوں کو شب و روز اسرائیلی بندشوں سے گزرنا پڑتا ہے، صہیونی نو آبادکار ان کی زمینیں غصب کر لیتے ہیں اور انہیں بے گھر کر دیتے ہیں اور اسرائیلی فوج اور پولیس کے علاوہ مسلح صہیونی ان پر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں۔ فلسطینی قیادت کی سطح پر سیاست کا راستہ کھولا جا سکتا تھا تاکہ یہ فلسطینی نوجوان سیاست کے ذریعے اپنے ملک کا مستقبل طے کرتے لیکن وہاں بھی مایوسی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے صدر عباس ابو مازن(87) نے گزشتہ 19 برسوں سے قیادت پر قبضہ جما رکھا ہے اور نئی قیادت کے انتخاب کی ہر کوشش کو ناکام بناتے چلے آئے ہیں۔ فلسطینیوں کی اکثریت کو ابو مازن کی قیادت پر اعتماد نہیں ہے اور وہ ان کو اسرائیل کا معاون سمجھتے ہیں۔ خود ابراہیم نابلسی کی شہادت پر ردعمل دینے والے فلسطینیوں کا کہنا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی کے تعاون سے ہی ان کو مار پانا ممکن ہو سکا تھا۔ ایک حالیہ سروے کے نتیجے سے بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کا اعتماد ابو مازن کی قیادت پر نہیں ہے۔ کم و بیش یہی حال دیگر فلسطینی تنظیموں کا بھی ہے۔ نئی نسل انہیں ناکام جماعتوں کی فہرست میں شمار کرتی ہیں۔ محمود نامی ایک نوجوان نے’ دی گارڈین‘ کو بتایا کہ ’ فتح یا حماس جیسی جماعتوں نے ہمارے مسائل حل نہیں کیے ہیں۔ نوجوانوں پر ان کا اثر و رسوخ باقی نہیں بچا ہے۔ ہمیں ایسا بالکل نہیں لگتا کہ ہم ان جماعتوں سے کوئی سروکار رکھتے ہیں۔ ہمیں الگ انداز سے اپنا کام کرنا ہوگا۔ اگر ہم اپنے ملک کا دفاع نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟‘
فلسطینی نوجوانوں کو مسلح مزاحمت اور مسلح جماعتوں سے دور رکھنے کے لیے بہت سی فلسطینی جماعتیں کام کرتی ہیں لیکن ان کے مسائل اس قدر ہیں کہ ان کا حل چھوٹی جماعتیں نہیں کر سکتی ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ30 ہزار کی آبادی والے ایک کیمپ میں 70 فیصد نوجوان بے روزگار ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ پڑوسی ملک اردن سے ہتھیاروں کی اسمگلنگ خوب ہوتی ہے یا پھر اسرائیلی فوج کے ذخائر چرائے جاتے ہیں۔ اس طرح بے روزگار نوجوان جب دیکھتے ہیں کہ اسرائیل ان پر اجتماعی سزا مسلط کرکے انہیں ذلیل کرتا ہے تو مسائل کے حل کے سارے امکانات معدوم ہونے لگتے ہیں اور اب جبکہ حالیہ انتخابات کے بعد نیتن یاہو کی قیادت میں اب تک کی سب سے تشدد پسند اسرائیلی حکومت کا قیام عمل میں آیا ہے جس میں ایتمار بن گویر جیسے لوگ داخلی امور کے وزیر قرار پائے ہیں اور جو عرب و فلسطین کے خلاف اپنی زہر افشانی کے لیے معروف ہیں، ایسی حالت میں حالات مزید سنگین ہی ہوں گے، کیونکہ اسرائیل نے جن پالیسیوں پر عمل کا عزم ظاہر کیا ہے وہ کچھ بہتر نتائج کی طرف اشارہ نہیں کر رہے ہیں۔ اسرائیل کی ان پالیسیوں میں فلسطینی اراضی پر نوآبادکاری کو جاری رکھنا، صہیونیوں کو مزید ہتھیار بند بنانا، مسجد اقصیٰ کی دینی اور تاریخی حیثیت کو بدلنا جیسے اقدامات شامل ہیں۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ اس بار جبکہ رمضان اور یہودیوں کی عید الفصح کی تاریخیں ٹکڑا رہی ہیں، شاید فلسطینیوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہو۔ بین الاقوامی سطح پر امریکہ کا حال یہ ہے کہ اس کے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے جب مشرق وسطیٰ کا دورہ کیا تو فلسطین اور اسرائیل مسئلے کو حل کرنے کے سلسلے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی۔ اس کے برعکس نیتن یاہو کو یقین دہانی کروائی کہ امریکہ اسرائیل کی سیکورٹی کا حامی و معاون ہے اور اس کے ساتھ جمہوری قدروں میں شراکت پر زور بھی دیا۔ فلسطین مسئلے پر صرف اس قدر کہا کہ دونوں کو چاہیے کہ وہ انتشار کی کیفیت کو ختم کریں اور معاملے کو حل کریں۔ دراصل بائیڈن حکومت نیتن یاہو کو خوش رکھنا چاہتی ہے اور اس صورتحال سے دوچار ہونا نہیں چاہتی جس سے اوباما اپنے عہد صدارت میں ہوئے تھے۔ بائیڈن چاہتے ہیں کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی واپسی کی صورت میں یہودی لابی ان کے خلاف نہ ہو اور اسی لیے انہوں نے یکے بعد دیگرے اپنے کئی اعلیٰ سطحی نمائندوں کو اسرائیل بھیجا اور اسرائیل کی فوج کے ساتھ ملٹری ٹریننگ بھی کی گئی۔ مقصد یہ ہے کہ امریکہ کی مقامی سیاست میں یہودی لابی کو رجھانے کے ساتھ ساتھ ایران کے تئیں اسرائیل کے موقف کی حمایت کی جائے تاکہ روس کے خلاف یوکرین جنگ میں کوئی مشکل نہ آئے۔ اس لیے صرف فلسطین کا معاملہ ہی نہیں بلکہ ایران کا نیو کلیائی معاہدہ بھی سرد بستہ میں ڈال دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ عرب ممالک کو اس بات کے لیے تیار کیا جا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار کریں اور درون خانہ جو رشتہ جاری ہے اس کو پوری دنیا کے سامنے اعلان کر دیا جائے جیسا کہ متحدہ عرب امارات، بحرین اور دیگر ممالک نے کیا ہے اور اب جلد ہی سوڈان بھی اس فہرست میں شامل ہوگا۔ ظاہر ہے کہ جب مشرق وسطیٰ کے حکمراں اور امریکہ و مغرب دونوں ہی اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات نبھائیں گے تو فلسطینیوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے کون حق و انصاف کی بات کرے گا؟ ایسی صورت میں فلسطینی نوجوانوں کا یہ کہنا کہ انہیں اپنی جنگ خود لڑنی ہوگی، غیر معقول نہیں لگتاہے۔ لیکن دقت یہ ہے کہ یہ جنگ برابری کی نہیں، اس لیے اس میں نقصان ہمیشہ فلسطینیوں کا ہوگا۔ اس کا بہتر حل تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب سیاسی محاذ کو کھولا جائے اور اسرائیل بھی بندوق کے بجائے گفتگو کا راستہ کا اختیار کرے تاکہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آئے اور ظلم و تشدد کا یہ لامتناہی سلسلہ بند ہو سکے۔n
(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS