عبیداللّٰہ ناصر: راہل نے بنجر زمین قابل کاشت بنا دی

0

عبیداللّٰہ ناصر

راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا 30جنوری کو سری نگر میں اختتام پذیر ہوگئی۔تقریباً چار ہزار کلو میٹر کا یہ سفر جو کنیاکماری سے شروع ہوا تھا، پانچ مہینوں میں موسم کی سردی گرمی جھیلتا ہوا منزل مقصود پر پہنچا۔ راہل گاندھی نے یہ پورا سفر صرف ایک ٹی شرٹ اور جینس میں مکمل کیا۔ اس دوران یہ ٹی شرٹ ایک مثال بن گئی جس پر طرح طرح کے منفی اور مثبت تبصرہ بھی سوشل میڈیا پر دیکھنے اور پڑھنے کو ملے۔کم سے کم میرے علم میں تاریخ کے کسی مرحلہ میں ایسی کوئی شخصیت نہیں ہے جس نے اپنے ملک اور سماج کے حالات کو بدلنے کے لیے مسلسل اتنا لمبا سفر پیدل کیا ہو۔ اس سفر میں راہل گاندھی کے ساتھ جو لوگ بھی چلے، چاہے وہ شروع سے آخر تک ان کے ساتھ چلے ہوں یا محض چند کلو میٹر چلے ہوں، مبارک باد کے مستحق ہیں کیونکہ انہوں نے بھی سماج اور سیاست کے اس ماحول سے اپنی بیزاری ظاہر کر دی جو فی الوقت ہندوستان میں چل رہا ہے اور جس سے نہ صرف ملک کا آئینی و جمہوری نظام خطرہ میں ہے بلکہ اس کی یکجہتی اور سالمیت بھی خطرہ میں ہے کیونکہ اتنے متنوع ملک میں جو ایک نظریہ تھوپنے کی کوشش ہو رہی ہے، وہ ملک کی یکجہتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ باہمی عدم اعتماد اور غلط فہمی کی بہت بڑی قیمت ہم1947میں ملک کی تقسیم کی شکل میں ادا کرچکے ہیں اور اب ایسا کچھ بھی نہیں کیا جانا چاہیے جس سے ملک کے عوام کے ما بین عدم اعتماد، نفرت اور غلط فہمی پیدا ہو اور ملک کی جذباتی ہم آہنگی متاثر ہو۔ ہمارے روشن ضمیر بزرگوں نے اسی خطرہ کے سدباب کے لیے ملک کو ایک آئین دیا تھا اور اس میں سماج کے ہر طبقہ کیلئے برابری کے حقوق محفوظ کر دیے تھے۔تقریباً75برسوں تک یہ نظام زمانہ کے سرد و گرم جھیلتا ہوا کامیابی سے چلتا رہا لیکن گزشتہ کچھ برسوں سے اس پر گہن لگ گیا ہے۔ایک طرف سماج کا شیرازہ بکھر رہا ہے تو دوسری طرف ملک کی معیشت کو تباہ کیا جا رہا ہے، تیسری طرف ملک کی سرحدیں بھی غیرمحفوظ ہو رہی ہیں، خاص کر چین کی توسیع پسندانہ پالیسی اور حکومت کا ڈھلمل رویہ ملک کے تحفظ کے لیے مناسب نہیں کہا جا سکتا۔ملک میں جو طرز حکمرانی ہے، اسے کسی بھی قیمت پر جمہوری اور آئینی نہیں کہا جا سکتا۔ جمہوری اور آئینی اداروں کی جو حالت کردی گئی ہے، وہ بیحد خطرناک ہے کیونکہ یہی وہ ادارے ہوتے ہیں جو اکثریت سے بنی جمہوری حکومت کو آمریت سے دور رکھتے ہے۔ راہل گاندھی ان تمام خطروں کی طرف سے عوام کو با خبر کرتے رہتے تھے لیکن حکومت نے کمال ہوشیاری سے دھرم اور راشٹرواد کا ایسا شربت مرکب عوام کو پلا دیا تھا کہ نوٹ بندی، جی ایس ٹی، غیر ذمہ دارانہ لاک ڈاؤن جیسے غیردانشمندانہ فیصلے اور کورونا میں لاکھوں لوگوں کا سسک سسک کے دم توڑنا بھی ان کے ضمیر کو جھنجھوڑ نہیں سکا۔راہل گاندھی نے اس جمود کو توڑنے کے لیے یہ تپسیا کی اور آج ان کا بد ترین مخالف بھی یہ تسلیم کرنے کو مجبور ہے کہ راہل نے ملک کا ماحول بدلنے میں میں کافی حد تک کامیابی حاصل کرلی ہے اور لوگوں میں یہ احساس تو پیدا ہی کر دیا ہے کہ ملک غلط سمت میں گامزن ہے۔
لیکن کیا راہل گاندھی کی یہ تپسیا ملک کی سیاست کو بھی تبدیل کرسکے گی اور کیا اس کا سیاسی فائدہ ان کی کانگریس پارٹی کو ملے گا، یہ ایک بڑا اور واجب سوال سیاسی اور سماجی حلقوں میں پوچھا جا رہا ہے اور اس کا جواب فی الحال تو سب لوگ اپنے اپنے حساب سے دے رہے ہیں لیکن اصل جواب آئے گا اگلے چند مہینوں کے بعد مختلف ریاستی اسمبلیوں کے مجوزہ الیکشن کے نتائج سے۔ ان میں سب سے پہلے انتخابات شمال مشرقی ریاستوں اور کرناٹک میں ہوں گے جہاں بی جے پی اور کانگریس میں سیدھا مقابلہ ہونا ہے۔یہ الیکشن راہل گاندھی کی تپسیا کا ہی نہیں نئے صدر کانگریس ملیکارجن کھڑگے کی مقبولیت اور ان کی تنظیمی صلاحیتوں کا بھی امتحان ہے۔بی جے پی کی انتخابی مشینری، اس کے وسائل، اس کی حکمت عملی کا مقابلہ آسان نہیں ہے اور یہ سبھی جانتے ہیں کہ الیکشن جیتنے کے لیے صرف پارٹی یا امید وار کی مقبولیت ہی کافی نہیں ہے، اس کے وسائل اور اس کی چناوی حکمت عملی بھی بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بی جے پی ہمہ وقت انتخابی موڈ میں رہتی ہے اور گرام سبھا سے لے کر لوک سبھا تک کا الیکشن پوری طاقت اور قاتلانہ جبلت سے لڑتی ہے، اس معاملہ میں کوئی پارٹی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اس کے برخلاف کانگریس میں خاص طور سے زبردست ڈھیلا، بے فکری اور کاہلی دیکھنے کو ملتی ہے، یہاں تک کہ آج بھی ان کے ٹکٹوں کی تقسیم میں اتنی تاخیر ہو جاتی ہے یا کر دی جاتی ہے کہ امیدوار کو علاقہ میں خود کو روشناس کرانے کا بھی پورا وقت نہیں ملتا۔ کانگریس شاید آج بھی یہ احساس کرنے کو تیار نہیں کہ اس کا تنظیمی ڈھانچہ بہت کمزور ہے جسے وہ امیدواروں کو انتخابی مہم کے لیے زیادہ وقت دے کر کافی حد تک درست کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ زمینی سطح پر اور بھی بہت سے کام کرنے کی ضرورت ہے مگر کامیابی حاصل کرنے اور ہار کو جیت میں بدلنے کا وہ جذبہ اس میں نہیں دکھائی دیتا جو آج وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
جہاں تک بی جے پی کی انتخابی سرگرمیوں کا سوال ہے، وہ ووٹر لسٹ کی تیاری سے ہی اس کا آغاز کر دیتی ہے۔ حامیوں کا نام ووٹر لسٹ میں شامل کرانے اور مخالفین کا نام کٹوانے سے لے کر ووٹروں کو اپنے حق میں مائل کرنے کے لیے ہر غلط صحیح ہتھکنڈا اختیار کرنا، ووٹروں کو پولنگ بوتھ پر لانا، ووٹوں کی گنتی متاثر کرانا اور اکثریت نہ ملنے پر بھی حکومت بنا لینے کی اپنی صلاحیت کا وہ گزشتہ دس برسوں میں متعدد بار مظاہرہ کرچکی ہے۔ اس کے علاوہ بی جے پی کے پاس 3ایم(منی، میڈیا، مین پاور) کی بہتات ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں اس نے نہ صرف اپنا خزانہ بھرنے کی بھرپور کوشش کی ہے بلکہ مخالفین خاص کر کانگریس کا خزانہ خالی کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ان سب کے علاوہ بی جے پی کی ایک بہت بڑی طاقت علاقائی لیڈران اور ان کی پارٹیاں ہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا سے ان میں سے زیادہ تر کا دوری بنانا ہے، یہاں تک کہ سری نگر کی اختتامی ریلی میں دعوت نامہ ملنے کے باوجود ان سب نے شرکت سے اجتناب کیا۔ صاف ظاہر ہے کہ ان علاقائی لیڈروں کو ملک کی جذباتی ہم آہنگی، آئینی جمہوریت کی بقا، آسمان چھوتی بیروزگاری اور گرانی عوامی وسائل کی لوٹ،آئینی اداروں کی تذلیل سے زیادہ اپنی بقا کی فکر ہے اس لیے کہ انہیں کانگریس کے مضبوط ہونے کی شکل میں اپنے وجود کو ہی خطرہ دکھائی دینے لگتا ہے کیونکہ یہ سب کانگریس کا ہی ووٹ بینک چھین کر ملک کے سیاسی فلک پر نمودار ہوئی ہیں۔یہ بی جے پی کو ہمیشہ براہ راست یا با الواسطہ مضبوط کرتی رہی ہیں۔اس لیے کانگریس کو علاقائی لیڈروں سے ہوشیار بھی رہنا ہے اور ان سے تعاون بھی لینا ہے، یہ ایک دو دھاری تلوار ہے مگر اس پر چلنا تو پڑے گا ہی۔ یہ انگریزی کی کہاوت ’سلیپنگ ودھ انیمی‘ (دشمن کے ساتھ سونا) جیسی حالت ہے۔
آج کی تاریخ میں تیجسوی یادو اور بائیں محاذ کی پارٹیوں کے علاوہ اودھو ٹھاکرے، شرد پوار اور اسٹالن ہی ایسے لیڈر ہیں جن پر اور جن کی پارٹیوں پر کانگریس الیکشن سے قبل اور مابعد انتخابات بھی اعتماد کر سکتی ہے۔نتیش کمار کا معاملہ تھوڑا پیچیدہ ہے، باقی کسی بھی لیڈر پر آنکھ بند کر کے اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
اترپردیش میں اکھلیش یادو الیکشن کے بعد کانگریس کی بحالت مجبوری حمایت کرسکتے ہیں لیکن الیکشن میں کانگریس کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی کوشش کریںگے۔ مایاوتی کیا کریں گی یہ تو شاید وہ خود بھی نہیں جانتی ہوں گی۔ تلنگانہ میں چندر شیکھر راؤ اور آندھرا پردیش میں جگن ریڈی کانگریس کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچائیں گے بلکہ کرناٹک اسمبلی الیکشن میں کانگریس کو نقصان پہنچانے کے مقصد سے چندر شیکھر راؤ نے اپنی پارٹی کو کرناٹک کے ان علاقوں میں سرگرم کر دیا ہے جو کبھی نظام کی ریاست کا علاقہ ہوا کرتا تھا اور جو کھڑگے جی کے اثرات کا خاص علاقہ ہے جہاں اردو بولی جاتی ہے اور مسلم ووٹر فیصلہ کن پوزیشن میں ہیں۔ممتا بنرجی کے بارے میں کچھ نہیں کہاجا سکتا، وہ بی جے پی اور کانگریس دونوں کے ساتھ آنکھ مچولی کرتی رہی ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو کانگریس ایک چکر ویوہ میں پھنسی ہے اور راہل گاندھی اس چکرویوہ میں پھنسے ابھیمنیو ہیں۔ اور چکرویوہ میں صرف راہل گاندھی ہی نہیں پھنسے ہیں، اصل میں اس ملک میں آئینی جمہوریت، سماجی ہم آہنگی اور آئیڈیا آف انڈیا بھی پھنسا ہوا ہے۔ ملک کو اس چکرویوہ سے نکالنے کی ذمہ داری عوام پر ہے۔کانگریس کے سابق صدر کی حیثیت سے راہل گاندھی نے اپنی تپسیا سے جو زمین ہموار کی ہے، اس پر لہلہاتی فصل اگانا اب کھڑگے جی کی ذمہ داری ہے۔ راہل کی یاترامیں کنیا کماری سے کشمیر تک جو لاکھوں لاکھ لوگ شریک ہوئے تھے، وہ ایک طرح سے اس فوج کے سپاہی ہیں جس کی کمان فی الحال کھڑگے جی کے ہاتھ میں ہے۔ اس فوج سے وہ2023اور2024کی جنگ کیسے جیتیں گے، یہی ان کی صلاحیت کا بھی امتحان ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS