ججوں کی تقرری کامسئلہ ایسابن گیا ہے کہ جب تک تکرار، بیان بازی، دھمکی اورانتظار نہ ہو، حل ہی نہیں ہوتا ۔عدالتوں میں مقدمات کے انبار اورججوں کی کمی سے ہر کوئی واقف ہے ۔سپریم کورٹ بھی اس کی ضرورت محسوس کرتا ہے اورسرکار بھی مانتی ہے کہ ججوں کی تقرری کے بغیر ملک کومقدمات کے انبار سے چھٹکارا اورلوگوں کو آسانی سے انصاف نہیں مل سکتا ۔پھر بھی ججوں کی تقرری آسانی سے نہیں ہوپاتی ۔ ایسی بات نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کالجیم ججوں کی تقرری یا پرموشن کی سفارش کرتا ہے تو اسے سرکارکی منظوری نہیں ملتی ۔سرکارکی منظوری ملتی ہے ۔تبھی تو گزشتہ 5برسوں میں ضلعی اورنچلی عدالتوں کو تو چھوڑیئے صرف سپریم کورٹ میں 30 اورملک کے 25ہائی کورٹوں554ججوں کی تقرریاں کی گئیں ۔ یہ بات خود مرکزی وزیرقانون کرن رجیجونے راجیہ سبھامیں سوال کے جواب بتائی ۔لیکن یہ تقرریاں ایسے ماحول میں ہوتی ہیں کہ سرکار اورسپریم کورٹ کے درمیان پہلے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی ہوتی ہے ۔ ایک دوسرے کی غلطیاں بیان کی جاتی ہیں ۔ کبھی کبھی دھمکی آمیز بیانات بھی آتے ہیں پھر اچانک خبر آتی ہے کہ اتنے ججوں کی تقرری کیلئے سپریم کورٹ کالجیم کی سفارش کو سرکار کی منظوری مل گئی اورمسئلہ ختم ہوگیا ۔پھر اگلی سفارش کے بعد اسی طرح کے حالات پیداہوتے ہیں ۔غرضیکہ تکرارکا یہ سلسلہ چل رہا ہے اوردراز ہوتاجارہا ہے ۔آگے کیا رخ اختیارکرے گا ، کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ابھی سپریم کورٹ میں 5ججوں کی تقرری کو منظوری ملی اور2ججوں کی تقرری کیلئے سفارش منظوری کے انتظارمیں ہے ۔اگریہ سفارش بھی منظورہوجاتی ہے تو سپریم کورٹ میں منظورشدہ ججوں کی تعداد 34ہوجائے گی ، جو فی الحال 27ہے ، 5نئیججوں کی حلف برداری کے بعد تعداد 32ہوجائے گی ۔خبریہ بھی ہے کہ امسال 8جج ریٹائر ہوں گے اوریہ ریٹائرمنٹ مئی سے شروع ہوجائے گی ۔ جب ایک دن کے فرق سے 2جج صاحبا ن ریٹائر ہوں گے ۔ پھر وہی قلت کامسئلہ پیداہوگا ۔
سپریم کورٹ کالجیم وقتافوقتاججوں کی تقرری کیلئے سفارش کرتارہتا ہے ۔ بلکہ دیکھا جاتاہے کہ سرکار کے پاس یکے بعد دیگرے سفارشات منظوری کیلئے قظارمیں رہتی ہیں ۔کیونکہ ایک سفارش کو منظوری نہیں ملتی کہ دوسری منظوری کیلئے پہنچ جاتی ہے ۔یہی وہ صورت حال سرکار اور سپریم کورٹ کے درمیان تکرار کاباعث بنتی ہے۔ اگرسپریم کورٹ صلاح کار کی تازہ رپورٹ کی بات کریں تو اعلی عدالتوں سے زیادہ خراب صورت حال نچلی عدالتوں کی ہے ۔ جہاں ججوں کی کافی کمی ہے اورانفرااسٹرکچرکابھی فقدان ہے ۔روزانہ بڑی تعداد میں کیسوںکو نمٹانے کے باوجود سپریم کورٹ میں 6,95,11، ہائی کورٹوں میں 59,55,905اورنچلی عدالتوں میں 4,13,000,00مقدمات زیرالتواہیں ۔کیوںنہ ہوں جب ایک طرف روزانہ جتنے مقدمات نمٹائے جاتے ہیں ، ان سے کہیں زیادہ درج ہوکر عدالتوںمیں پہنچ جاتے ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ملک بھرکی عدالتیں منظورشدہ ججوں کی کم تعداد میں کام کررہی ہیں ۔ہائی کورٹوں میں کل منظور شدہ ججوں کی تعداد 1,108 ہے ، لیکن اس وقت صرف 769 جج وہاں اپنی ذمہ داریاں نبھارہے ہیں۔ ان میں سے بھی 5کاپرموشن سپریم کورٹ کیلئے ہوگیا ۔ہائی کورٹوں میں339 ججوں کے عہدے خالی پڑے ہیں ۔نچلی عدالتوں میں جہاں سب سے زیادہ مقدمات کا انبار ہوتاہے ، وہاں 5ہزار ججوں کے عہدے خالی پڑے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب ضرورت سے زیادہ بوجھ ہوگا اورایسی صورت حالی ہوگی۔ تو انگلیاں اٹھیں گی اور کسی نہ کسی کو اس کیلئے ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا ۔بیان بازیوں سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ سرکار سپریم کورٹ کے پالے میںگیند ڈالتی ہے تو سپریم کورٹ سرکار کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے ۔بیچ میں وہ لوگ پستے ہیں ، جو انصاف کیلئے عدالتوں کے چکر کاٹتے رہتے ہیں ۔
مقدمات کی صورت حال یقینا تشویش ناک ہے ۔وہ تکرار اوربیان بازی سے کبھی ختم نہیں ہوگی ۔اس کیلئے بروقت فیصلے کرنے ہوں گے اورصورت حال پر باریکی سے نظر رکھنی ہوگی ۔ صرف ججوں کی تقرری سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ انفرااسٹرکچر کوبھی بہتر بناناہوگا تاکہ مقدمات کے تصفیہ میں آسانی ہواورلوگوں کو جلدانصاف مل سکے ۔اسی سے لوگوں کو مطلب ہے ۔ باقی وہ کچھ نہیں چاہتے ۔
[email protected]