ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
شمالی افریقہ کے عرب مسلم ملک تیونس میں عوام کا جو غصہ 2011 میں بدعنوانی، بے روزگاری اور معاشی و سیاسی مسائل کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا تھا اس کو ’عرب بہاریہ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ دراصل اس عوامی انقلاب کو بَہار سے اس لئے تعبیر کیا گیا تھا کہ یہ پہلا موقع تھا جب برسوں تک مطلق العنان حکمرانوں کی عوام مخالف پالیسیوں کو جھیلنے کے بعد شمالی افریقہ اور عرب ممالک کے عام انسانوں نے اپنی آواز بلند کی تھی اور یہ امید کی جانے لگی تھی کہ شاید اس خطہ میں بھی جمہوریت جڑ پکڑے گی اور عوام کی ترقی و خوشحالی کا دور شروع ہوگا۔ یہ بھی محض اتفاق ہی کہلائے گا کہ تیونس جہاں سے ’عرب بہاریہ‘ کا آغاز ہوا تھا اس کو ایک کامیاب جمہوری نظام کے طور پر دیکھا جانے لگا تھا کیونکہ وہاں لیبیا اور مصر کی طرح نہ تو عوام کا قتل نہیں ہوا تھا اور نہ ہی لیبیا کی طرح خانہ جنگی شروع ہوئی تھی۔ مصر میں رابعہ عدویہ اور تحریر اسکوائر جیسے قتل و خون کے بعد محمد مرسی کی عوام کے ذریعہ منتخب حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا تھا اور عبدالفتاح جیسا فوجی ڈکٹیٹر کرسیِٔ اقتدار پر قابض ہوگیا جس کا سلسلہ تاہنوز جاری ہے۔ لیبیا کی حالت مصر سے بھی بدتر ثابت ہوئی۔ وہاں نہ صرف معمر قذافی کو دردناک طریقہ سے مار دیا گیا تھا بلکہ پورا ملک بْری طرح انتشار و بد امنی اور سیاسی و اقتصادی بحران کا شکار ہوگیا بلکہ خانہ جنگی کی آگ میں پورا ملک جھلسنے لگا اور آج بھی اس سے نکل پانا ممکن نہیں ہو پایا ہے۔ آج لیبیا واحد ایسا ملک ہے جہاں دو حکومتیں کام کر رہی ہیں اور دونوں کے درمیان اتفاق و اتحاد کی ساری کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کروانے کے لئے اب تک جس قدر کوششیں کی گئی ہیں سب ناکام ثابت ہوئی ہیں اور پورا ملک خارجی قوتوں کے ہاتھ کا کھلونا بنا ہوا ہے۔ ابھی چند ہفتوں سے اقوام متحدہ کے نمائندہ اور سی آئی اے کی جانب سے دوبارہ کوششیں کی جا رہی ہیں کہ داخلی انتشار کو ختم کروایا جائے تاکہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کی راہیں ہموار ہوں اور سیاسی، سماجی اور اقتصادی بحرانوں کا خاتمہ ہوسکے۔ یہ کوششیں کس حد تک کامیاب ہوں گی یہ کہہ پانا مشکل ہے کیونکہ زمینی سطح پر مسائل اس قدر زیادہ اور پیچیدہ ہیں کہ مستقبل قریب میں سیاسی استحکام کی امید رکھنا غیر ضروری جذباتیت کے زمرہ میں ہی شمار ہوگا۔ لیبیا کے موضوع پر مزید تفصیل کے ساتھ اگلے ہفتہ کے کالم میں انشاء اللہ بات ہو گی۔ اس وقت ذرا تیونس کی صورت حال کا جائزہ لے لیا جائے کیونکہ یہاں کی حالت اب اتنی ہی بدتر ہوگئی ہے جتنی 2011 میں ’عرب بہاریہ‘ کے آغاز سے قبل تھی۔ اس کے لئے سب سے بڑے ذمہ دار تیونس کے صدر قیس سعید ہی ہیں جن کا انتخاب بطور صدر 2019 میں عمل میں آیا تھا۔ اس وقت تیونس کے ووٹروں میں سے 55 فیصد لوگوں نے جمہوری عمل میں حصہ لیا تھا اور تقریبا 72 فیصد لوگوں نے قیس سعید کو منتخب کر لیا تھا۔ تیونس کی جمہوریت کے لئے یہ ایک کامیاب اسٹوری سے کم نہیں تھا کیونکہ 2014 میں جو نیا دستور بنایا گیا تھا اس کے تحت یہ دوسرا کامیاب انتخابی عمل تھا۔ لیکن کامیابی کی یہ کہانی زیادہ دنوں تک نہیں چلی۔ 2021 کے موسم گرما میں عوام کے ذریعہ منتخب صدر قیس سعید نے تیونس کے پارلیمنٹ کی تمام تر صلاحیتوں کو ختم کر دیا، دستور کو منسوخ قرار دیا، سیاسی جماعتیں بے حیثیت قرار پائیں اور تنفیذی صلاحیتوں کے مالک خود بن بیٹھے۔ پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کے سلسلہ میں قیس سعید نے دلیل یہ پیش کی تھی کہ پارلیمنٹ کے ممبران جھگڑالو ہوگئے ہیں، ملک میں سیاسی تعطل کا ماحول ہے، کرپشن اور اقتصادی بحران جیسے مسائل سے ہم دو چار ہیں، اس کے علاوہ کورونا نے ہماری مشکلات میں بے تحاشہ اضافہ کر دیا ہے اور اسی لئے ملک کو ایک نئے انداز میں چلانے کی ضرورت ہے۔ اتنے پر ہی بس نہیں کیا۔ اس کے بعد سے قیس سعید اپنے ملک کی عدلیہ کو بھی بے دست و پا بنا چکے ہیں۔ انتخابی اور کرپشن مخالف اداروں پر بھی ان کا قبضہ ہے اور اپنے سیاسی حریفوں کو یا تو جیل میں ڈال چکے ہیں یا ان کے خلاف سخت کاروائیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قیس سعید نے جب ابتدائی مرحلہ میں ان غیر جمہوری اقدامات کا سلسلہ شروع کیا تھا تب انہیں بڑی حمایت حاصل تھی۔ ووٹروں کو امید تھی کہ شاید قیس سعید ملک کے سنگین مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اسی لئے ان کے حامیوں میں عام ووٹروں کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ اپوزیشن پارٹیاں بھی شامل تھیں۔ خود تیونس کی سب سے طاقت ور عوامی تنظیم اور مزدوروں کے حقوق کی پاسباں جماعت جنرل لیبر یونین نے بھی کھلے عام ان کی تنقید کی جرأت نہیں دکھائی تھی۔ لیکن اب صورتحال بالکل مختلف ہے کیونکہ تقریبا دو سال کی مدت گزر جانے کے بعد بھی قیس سعید اپنے وعدوں کی تکمیل میں ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کی مقبولیت لگاتار گھٹ رہی ہے جس کا اظہار عوام نے مختلف طریقوں سے کیا ہے لیکن سب سے موثر ڈھنگ سے ووٹروں نے اپنی خفگی اور مایوسی کا اظہار حالیہ انتخابات میں کیا ہے۔ ابھی دسمبر 2022 میں جب قیس سعید نے پارلیمنٹ کا عام انتخاب کروایا تو اس کے پہلے مرحلہ میں 9 فیصد سے بھی کم ووٹروں نے اپنی شرکت درج کی جبکہ دوسرے مرحلہ کے انتخاب میں صرف 11 فیصد ووٹر ہی حصہ لینے میں رغبت دکھائی۔ ان انتخابات کا بائیکاٹ تقریبا تمام سیاسی پارٹیوں نے کیا۔ ویسے بھی جن نمائندگان کا انتخاب عمل میں آیا ہے وہ سیاسی پارٹی نہیں بلکہ افراد کے طور پر منتخب ہوئے ہیں۔ اس سے قبل مارچ کے مہینہ میں میونسپلٹی کا جو انتخاب ہوا تھا اس میں بھی عوام کی شرکت بہت کم تھی اور نئے دستور پر جو ریفرنڈم گزشتہ برس جون میں کروایا گیا تھا اس میں عوام کی نہایت مختصر تعداد کی شمولیت نے بھی اس بات کو واضح کر دیا تھا کہ قیس سعید کو اب وہ عوامی حمایت حاصل نہیں ہے جو ابتدائی مرحلہ میں انہیں ملی تھی۔ بین الاقوامی سطح پر بھی قیس سعید کے لئے مسائل کا انبار ہے۔ جہاں ایک طرف یوروپین یونین نے حالیہ پارلیمانی انتخابات کی شفافیت کی نگرانی کرنے سے منع کر دیا تھا وہیں امریکہ نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ اب تک جو بھی مالی تعاون تیونس کو ہیش کرتا رہا ہے اس میں کمی کرے گا اور سال 2023 میں تعاون کی صرف نصف رقم ہی دی جائے گی۔ ادھر تیونس نے اپنی روز بڑھتی اقتصادی دقتوں سے نجات پانے کے لئے آئی ایم ایف میں یہ درخواست دے رکھی ہے کہ اسے 1.9 بلین ڈالر کا تعاون دیا جائے تاکہ وہ اپنی اقتصادی صورت حال کو بہتر بنا سکے لیکن اب تک اس درخواست کو منظوری حاصل نہیں ہوئی ہے۔ اگر آئی ایم ایف کی جانب سے یہ بیل آؤٹ مل بھی جاتا ہے تو اس کی سخت شرطوں کو ماننے کے نتیجہ میں تیونس کے غریب اور مفلوک الحال طبقوں کے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا جس کا سیدھا اثر قیس سعید کی امیج پر پڑے گا۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ سابق مطلق العنان حکمراں علی بن زین العابدین کو ہٹائے جانے کے بعد سے تیونس کی اقتصادی حالت بہتر ہونے کے بجائے اس میں مزید گراوٹ ہی آئی ہے۔ کورونا نے جہاں سیاحت ک سیکٹر کو متاثر کیا وہیں یوکرین جنگ نے غذائی بحران پیدا کر دیا۔ شرح مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا اور باہری قرضوں نے کمر توڑ کر رکھ دی۔ ان سارے حالات نے قیس سعید کے لئے جو مسائل پیدا کئے ہیں وہ ان کے وعدوں کو پورا کرنے میں بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہے ہیں۔ جہاں ایک طرف اقتصادی بحران سے عوام پریشان ہے وہیں دوسری طرف قیس سعید نے مطلق العنانی کی زمام اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے اور سیاسی لیڈران اور پارٹیوں کے سامنے سارے دروازے بند کر رکھے ہیں جن کی وجہ سے گھٹن اور بے چینی کی فضا قائم ہے اور اس کا امکان ہے کہ مطلق العنانی کے اس دور کے خلاف بھی ایک عوامی تحریک تیونس میں شروع ہوگی اور قیس سعید کو کرسیِٔ اقتدار سے اترنا ہوگا۔ فی الحال ان کی قسمت اچھی ہے کہ اپوزیشن کے خیمہ میں انتشار کا ماحول ہے۔ جس دن اپوزیشن کی جماعتیں اپنے اس داخلی انتشار کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی اس دن تیونس کی اقتصادی بد حالی خود ہی قیس سعید کے زوال کا راستہ ہموار کر دے گی۔
(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)