ڈاکٹر مفتی تنظیم عالم قاسمی
ایک سچے مسلمان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ اپنے اور اپنی اولاد کے ایمان کا تحفظ ہے۔ عملی زندگی اور احکام شریعت کی پیروی میں ممکن ہے کہ سستی ہوجاتی ہو اور تقویٰ و طہارت کے باب میں پختگی اور استقامت نہ ہو تاہم ایمان کے حوالے سے ہر شخص فکر مند ، حساس اور جذباتی ہوتا ہے ، کوئی شخص یہ نہیں چاہتا کہ وہ ایمان کی دولت سے محروم ہوجائے یا اس کی نسلوں میں توحید و رسالت کے بجائے الحادو دہریت اور خدا بیزاری کے جذبات پیدا ہوں۔کیوں کہ ایمان ہی وہ بنیادی محور ہے جس پر نجات اور دائمی راحتوں کا مدار ہے ، اللہ تعالی نے قرآن کریم میں صاف لفظوں میں اعلا ن فرمادیا ہے : بے شک اللہ اپنے ساتھ شرک کو معاف نہیں کریں گے اور اس کے سوا جس گناہ کو چاہیں گے معاف کر دیں گے اور جس شخص نے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرایا اس نے بڑا بہتان باندھا ( النساء : ۴۸) ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفر و شرک اور الحاد و دہریت ناقابل معافی جرم ہے اس کو ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا ،ہاںاس کے علاوہ گناہ صغیرہ ہو یا کبیر ہ جسے اللہ چاہے گا اپنے کرم سے معاف کر دے گا ۔ ایک شخص کا نامۂ اعمال اگر نماز ، روزہ ، صدقہ و خیرات اور ذکر و اذکار وغیرہ سے پُر ہو لیکن ایمان میں تذبذب ہو تو اس کی ساری نیکیاں بے وزن ہو جا ئیں گی اور اگر دنیا سے ایمان بچا کر لے گیا اورآخری سانس تک توحید و رسالت پر قائم رہا تو ایک وقت اسے ضرور نجات ملی گی اور وہ جنت کا مستحق ہوگا۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کا خاتمہ ایمان پر ہوا اور جو اپنے بعد ایسی اولاد چھوڑ کر گئے جن کے سینوں میں مستحکم ایمان کی دولت پنہاں ہو ،دنیا سے جاتے ہوے افراد خانہ کے بارے میں پوری طمانیت ہو کہ کفر کا کوئی طوفان ان کے ایمان کو نہیں بگاڑ سکے گا اور وہ ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی وفاداری کے ساتھ زندگی گذاریں گے۔
حالات پر جن لوگوں کی نظر ہے وہ جانتے ہیں کہ آج مسلمانوں کے ایمان پر چوطرفہ حملہ کیا جارہا ہے ، اس کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں اور کوشش کی جارہی ہے کہ خاص طور پر مسلمانوں کی اولاد ایمان سے محروم ہو جائیں ، ان میں مادیت کا ایسا زہر بھر دیا جائے کہ ان کی نظر میں ایمان و عقائد اور آخرت کی کوئی اہمیت باقی نہ رہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ادھر کچھ دنوں سے مسلسل مسلم لڑکیوں کے ارتداد کی صدمہ انگیز خبریں موصول ہورہی ہیں،خاص طور پر عصری اداروں میں زیر تعلیم بچیوںسے غیر مسلم لڑکوں کے روابط جب بڑھ کر عشق و محبت میں بدل جاتے ہیں تو یہ ان کے ساتھ بھاگ کر ان کے رسم و رواج کے مطابق شادی رچا لیتی ہیں اور کسی جھجھک کے بغیر میڈیا کے سامنے ان غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ زندگی گذارنے پر آمادگی کا اظہار کرتی ہیں ، وہ ایمان اور اسلام کا مذاق بھی اڑاتی نظر آتی ہیں۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ وہ ان کے ساتھ کتنی خوش گوار زندگی گذار سکیں گی لیکن فی الوقت تو ایمان کی عظیم ترین دولت سے وہ محروم ہو گئیں جس سے بڑھ کر کوئی خسارہ نہیںاور پھر ان لڑکیوں نے ایک مسلم گھرانے میں آنکھ کھولی اور وہاں پرورش پائی تھیں لیکن اب ان کے کوکھ سے مشرک بچہ جنم لے گا اور ان کی گود میں شرک و کفر کی پرورش ہوگی اس پر ایک مسلمان کو جتنا دکھ ہوتا ہے اس کوبیان کرنے کے لئے الفاظ نہیںہے۔ ان کے ارتداد سے ان کے ماں باپ اور پورے خاندان کی عزت پر دھبہ آتا ہے اور والدین شرم و حیا سے اپنا منہ چھپاتے پھرتے ہیں ، ہر جگہ ان کی ذلت و رسوائی ہوتی ہے اور ان پر طعنے کسے جاتے ہیں تاہم یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ جس لڑ کی نے ایک مسلم گھرانے میں تقریباً پندرہ بیس سال تک زندگی گذاری ، مسلمان ماں باپ کی مؤمنانہ زندگی سے وہ متأثر نہ ہو سکی اور کالجسس یا کسی بھی ادارہ میں غیر مسلموں کے ساتھ صرف چند ملاقات میں ان سے اس قدر متأثرہو گئی کہ اس کے پاس جو سب سے قیمتی سرمایہ ایمان کی شکل میں تھا ، اس کو بھی چھوڑنے پر آمادہ ہو گئی،کیا اس میں اس کے والدین اور سرپرستوں کا قصور نہیں ہے ،کیا اس جرم میں والدین شریک نہیں ہیں؟اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان لڑکیوں کے ماں باپ نے اسلامی ماحول میں ان کی تربیت نہیں کی ، ان کے ایمان سے زیادہ مادیت اور دنیا کی محبت ا ن کے دل و دماغ میں بسا یا جس کا نتیجہ ان کے سامنے ہے ، اس لئے وہ بھی مجرم ہیں اور وہ عنداللہ جواب دہ ہوں گے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ارتداد کے طوفان کو روکا جائے اور اس سیلاب پر مضبوط بند لگائی جائے تو ضروری ہے کہ پہلے ہم خود اسلام کے سپاہی اور فرماں بردار بنیں۔ اپنے ایمان کو مضبوط و مستحکم کریں ،صالحیت اور تقویٰ اپنے اندر پیدا کریں ۔ رسول اکرم ﷺ نے صحابۂ کرام کے سامنیپہلے خود عملی نمونہ پیش کیا اور انہیں حکم دینے سے پہلے خود عمل کیاتب اس کاخوش گوار اثر صحابہ کی زندگی پر مرتب ہوا۔ غزوۂ خندق میں صحابۂ کرام نے اپنی بھوک اور فاقہ کی شکایت کی اور بعض نے اپنے پیٹ پر ایک ایک پتھر بندھا ہوا بتایا تو آپ ﷺ نے اپنے بطن مبارک سے کپڑے ہٹائے تو دیکھا گیا کہ وہاں تو دو پتھر بندھے ہوے ہیں ۔ اس سے انہیں حوصلہ ملا ، قدموں میں مضبوطی آئی اور پھر تازہ دم ہو کر کام پر لگ گئے ۔ہم اگر چاہیں کہ ہمارے نماز پڑھے بغیر ہمارے بچے نماز پڑھنے لگیں ، ہماری تلاوت قرآن کے بغیر وہ تلاوت کرنے لگیں ،ایسا نہیں ہو سکتا ، ماں باپ کی صالحیت بچوں کی طرف منتقل ہوتی ہے اور ان کی بری عادتوں کو بھی غیر محسوس طریقے پر وہ اپنی زندگی میں داخل کر لیتے ہیں۔پھر ایک ماں باپ کو چاہئے کہ گھر کے ماحول کو دینی بنائیں ۔ نماز ، روزہ ، تلاوت قرآن ،صدقہ و خیرات کی ان میں شروع سے عادت ڈالیں ،گھر میں کسی ایک وقت مقرر پر پورے اہل خانہ کو جمع کریں اور کسی دینی کتاب کی تعلیم کریں ۔ اس میں رسول اکرم ﷺ کی سیرت ، آپ ؐ کے اخلاق و پاکیزہ کردار ،صحابۂ کرام کی قربانیاں ، دین کی خاطر ان کی مشقتوں کو برداشت کرنا ،ان کے ایمان افروز واقعات ، اولیاء کرام کے تذکرے ، ان کے متفرق واقعات ، جنت اور جہنم کے مناظر ، آخرت کی ہولناکیاں ، ایمان لانے والوں کے لئے خدا کے انعامات ، اسلامی تعلیمات اور مختلف دین سے جڑی باتوں کا متواتر تذکرہ ہونا چاہئے ۔ آپس میں اس کا مذاکرہ بھی ہو اور کتاب کی تعلیم کے بعد ایک دوسرے سے معلوم بھی کریں کہ اس نے اس سے کیا سمجھا ہے؟ اگرکسی وجہ سے کتاب کی تعلیم نہ ہو سکے تو کسی بڑے معتبر عالم دین کی تقریر اور بیان سنانے کا معمول بنائیں ۔ اس کے بہتر اثرات مرتب ہوں گے،رفتہ رفتہ دل و دماغ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت بیٹھے گی ، دین و ایمان کی اہمیت پیدا ہوگی اور شریعت پر جینے اور مرنے کا جذبہ پیدا ہوگا۔ ایک شخص اگر اپنی اولاد کے سامنے صرف دنیا اور اس کی آسائشوں کا ہی تذکرہ کرے اور شب و روز دنیا حاصل کرنے کی ترغیب دیتا رہے اور دنیوی علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنے والوں کی مثالیں پیش کرتا رہے تو ظاہر ہے ان کے دماغ میں دنیا ہی کی محبت پیدا ہوگی اور آخرت اور ایمان کا تصور دل سے جاتا رہے گااور ان کے لئے ایمان سے پھرنا آسان ہوجائے گا۔اپنی اولاد سے صرف دنیا کے طلب گار ان سے تقویٰ اور ایمان پر استقامت کی امید رکھیں،یہ ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، اس لئے کہ جیسی بیج بوئی جاتی ہے پیدا وار بھی اسی حساب سے ہوتی ہے۔
معروف بزرگ اور اللہ کے ولی شیخ جنید بغدادی ؒ سے کسی نے پو چھا کہ آپ اتنے بڑے بزرگ کیسے بنے؟ جواب دیا کہ اپنی والدہ کی وجہ سے اور پھر انہوں نے اس کی تفصیل بیان کی کہ جب میں نے ہوش سنبھالا اور کچھ بولنے کے لائق ہوا تو تو میری والدہ نے میری اسلامی تربیت شروع کی ، سب سے پہلے انہوں نے مجھ سے کہا کہ کہو بیٹا اللہ ایک ہے ، اللہ ایک ہے ،میں یہ کہتا رہا اور کئی دن تک کہتا رہا جب مجھے یہ یاد ہو گیا اور میری زبان پر چڑھ گیا تو میری والدہ نے محسوس کیا کہ اب ان کے دل و دماغ پر اللہ کے ایک ہونے کا نقش بیٹھ گیا ہے تو دوسرا سبق دیا کہ اب یہ کہو کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے ۔ اس کو بھی خوب یاد کیا اور اس کو دل میں بٹھا لیا تو میری والدہ نے تیسرا سبق دیا کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے ۔ اس کو یاد کرتے کرتے اس کے حاضرو ناظر ہونے کا ایسا تصور قلب و ذہن پر راسخ ہوا کہ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے ، جہاں بھی رہتا ہوں اس کے موجود ہونے اور دیکھنے کا یقین ہوتا ہے ، مسجدوں میں ، بازار میں ، جلوتوں میں ، خلوتوں میں ہرجگہ اور ہر وقت میرے رب کے ساتھ ہونے کے تصور نے مجھے تمام گناہوں سے پاک کردیا، جب بھی کسی معصیت کی طرف ذہن جاتا فوراً خیال پیدا ہوتا کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے اس سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ، عنداللہ جواب دہی کا احساس پیدا ہوتا اس سے گناہ کی طرف بڑھتا قدم بھی رک جاتا ہے۔
دنیا میں جتنے اولیاء کرام گذرے ہیں ان کی ولایت میں ان کے ماں باپ کی تربیت کا بڑا دخل ہے، اس کے بغیر دینی سوچ کا پیدا ہونا دشوار ہے۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ ایک بچہ پڑھتے پڑھتے انجینئر اور ڈاکٹر بن جاتا ہے ، دنیوی اعلی عہدوں تک سفر کرلیتا ہے لیکن اسے نماز اور طہارت کا طریقہ معلوم نہیں ہوتا ، چند سورتیں یاد نہیں ہوتیں ، چند انبیاء اور رسولوں کے نام معلوم نہیں ، مشہور فرشتوں کا علم نہیں بلکہ فرشتوں اور انبیاء کرام میں انہیں فرق معلوم نہیں ہوتا، کیا والدین کی ذمہ داری نہیں ہے کہ انہیں دین کا ضروری علم دیں، انہیں قرآن و حدیث اور شریعت کی بنیادی تعلیمات سے روشناش کرائیں؟
آج کے پرفتن حالات میںبچوں کو مبائل سے دور رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔اگر ضرورت کی بنیاد پر مبائل دیں تو اس پر گہری نظر رکھنی چاہئے کہ اس کا استعمال کہیں غلطتو نہیں کیا جا رہا ہے، کس سے رابطہ ہورہا ہے، کن لوگوں سے تبادلۂ خیال ہو رہا ہے اور کس موضوع پر ،اس کے مختلف ایپس ہیں کس کی انہیں ضرورت ہے اور کس کی نہیں ہے ، اسکول اور کالج یا ٹیوشن کے آنے جانے کے اوقات پر نظر رہے کہ کیا وقت کا صحیح استعمال ہو رہا ہے یا نہیں ، اگر کبھی غیر معمولی تاخیر ہوی تو کس بنیاد پر تاخیر ہوی اس کی باز پرس ہونی چاہئے۔ بچیوں کو شروع سے پردے کی عادت ڈالیں خاص طور پر بالغ ہونے کے بعد اس معاملے میں کسی طرح کی رعایت ہرگز نہ برتی جائے اسی لئے قرآن کریم میں اس کی بڑی تاکید کی گئی ہے بلکہ ازواج مطہرات کو اس کا حکم دیا گیا ہے جہاں کسی طرح کے شبہ کا گذر بھی نہیں تھا۔ لڑکا یا لڑکی جب بالغ ہوجائے تو اس کے لئے مناسب رشتہ تلاش کرکے نکاح کردینا چاہئے اس سے بہت سی اخلاقی بیماریوں اور غلط عادات سے حفاظت ہوتی ہے ۔ ان امور کی طرف مکمل توجہ ہی ارتداد کا حل ہے ورنہ محض افسوس اور ہنگامہ کسی مرض کی دوا نہیں ہے۔